Al-Qurtubi - Al-Haaqqa : 11
اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِی الْجَارِیَةِۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَمَّا : جب طَغَا الْمَآءُ : بلندی میں تجاوز کرگیا پانی حَمَلْنٰكُمْ : سوار کیا ہم نے تم کو فِي الْجَارِيَةِ : کشتی میں
جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم (لوگوں) کو کشتی میں سوار کرلیا
ان لما طغا المآء جب پانی بلند ہوگیا۔ حضرت علی شیرخ دا نے کہا، پانی سے اللہ تعالیٰ کے لئے غضب کی وجہ سے فرشتوں میں سے خازنوں پر سرکش ہوگیا (2) وہ خزان اسے قابو رکھنے پر قادر نہ ہوئے۔ قتادہ نے کہا، ہر چیز پر پندرہ ہاتھ بلند ہوگیا۔ حضرت ابن عباس نے کہا : حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں پانی اپنے خازنوں پر سرکش ہوگیا، وہ ان پر بہت زیادہ ہوگیا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کتنا پانی نکلا۔ اس سے قبل اور اس کے بعد کوئی قطرہ نازل نہیں ہوتا مگر معلوم پیمانہ کے ساتھ نازل ہوتا صرف اس دن ایسی صورت نہ تھی۔ سورت کے آغاز میں مرفوع حدیث گزر چکی ہے۔ ان امتوں کے واقعات کے ذکر کرنے کا مقصود اور جو عذاب ان پر آئے، ان کے ذکر کا مقصود یہ ہے کہ اس امت کو رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی میں ان کفار کی اقتدا سے روکا جائے۔ پھر ان پر یہ احسان جتلایا کہ انہیں ان لوگوں میں سے بنایا جو اس غرق ہونے سے نجات پانے والے تھے۔ فرمایا : حملنکم فی الجاریۃ۔ یعنی ہم نے تمہارے آباء کو کشتی میں اٹھا لیا جبکہ تم ان کی پشتوں میں تھے۔ اس کشتی میں جن کو اٹھایا گیا تھا وہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی اولاد تھی۔ روئے زمین پر جو بھی انسان ہیں انہیں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ لبجعلھالکم تذکرۃ ماضمیر سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی ہے (1) اللہ تعالیٰ نے اسے اس امت کے لئے نصیحت بنا لیا یہاں تک کہ اس کے اوئال نے اس کشتی کو پایا، یہ قتادہ کا قول ہے۔ ابن جریج نے کہا، اس کے تختے جودی پہاڑ پر تھے (2) معنی یہ ہے میں نے تمہارے لئے ان لکڑیوں کو ب اقی رکھا تاکہ تم اس کو یاد کرو جو قوم نوح پر واقع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے آباء کو جو نجات دی اسے یاد کرو۔ کتنی کشتیاں ہیں جو ہلاک ہوئیں اور ٹمی ہوگئیں اور ان میں سے کوئی چیز باقی نہ رہی۔ ایکق ول یہ کیا گیا ہے : تاکہ ہم اس فعل ” یعنی قوم نوح کو غرق کرنا اور جو ایمانل ایا تھا اسے نجات دینا “ کو تمہارے لئے نصیحت بنا دیں اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وتعیھآ اذن واعیۃ۔ یعنی اسے یاد رکھیں اور اسے کان سنیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ آیا ہے اسے یاد رکھیں۔ سفینہ کی صفت اس کے ساتھ نہیں نکالی جاسکتی۔ زجاج نے کہا : یہ جملہ بولا جاتا ہے وعیت کذا اعیہ وعیاً اسے میں نے اپنے دل میں یاد کیا۔ وعیت العلم، وعیت ماقلت، سب کا ایک ہی معنی ہے۔ اوعیت المتاع الوعا میں نے برتن میں سامان کو محفوظ کیا۔ زجاج نے کہا، ہر وہ چیز جس کو تو اپنی ذات کے علاوہ کسی اور چیز میں محفوظ رکھے، اس کے لئے ادعیتہ کا لفظ جو بولا جاتا ہے جسے تو اپنی ذات میں محفوظ رکھے اس کے لئے وعیتہ کا لفظ بولا جاتا ہے (3) طلحہ، حمید اور اعرج نے وتعیھا عین کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے اسے ارنا کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ عاصم اور ابن کثیر سے اس بارے میں اختلاف مروی ہے اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : وتعیھآ اجن واعیہ۔ ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب ( ق : 37) قتادہ نے کہا : اذن واعیۃ سے مراد ایسے کان ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ سے سجھ بوجھ نصیب ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی کتاب سے جو کچھ سنا اس سے فائدہ اٹھایا (4) مکحول نے کہا، حضرت علی ششیر خدا کہا کرتے تھے میں نے رسول اللہ ﷺ سے کبھی بھی کوئی چیز نہیں سنی جسے میں بھول گیا ہوں بلکہ میں نے اسے یاد رکھنا، پادری نے اسے ذکر کیا ہے۔ حضرت حسن بصری سے بھی اسی طرح مروی ہے، ثعلبی نے اسے ذکر کیا ہے۔ کہا : جب وتعیھاً اذن واعیۃ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” اے علی ! میں نے اپنے رب سے سوال کیا ہے کہ اسے تیرے کان بنا دے۔ “ (5) حضرت علی شیر خدا نے کہا، اللہ کی قسم ! میں اس کے بعد کوئی چیز نہیں بھولا اور میرے لئے زیبا نہیں کہ میں کسی چیز کو بھولوں۔ ابو برزہ اسلمی نے کہا : نبیک ریم ﷺ نے حضرت علی شیر خدا سے فرمایا :” اے علی ! اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ میں تھے قریب کروں اور تجھے دو نہ کروں، میں تھجے تعلیم دوں اور تو اسے یاد رکھے۔ “ (6) درمنشور میں الفاظ اس طرح ہیں ” تجھ پر لازم ہے تو اسے یاد رکھے، اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ تجھے یاد رکھے۔ “
Top