Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 12
قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ١ؕ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ١ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ
قَالَ : اس نے فرمایا مَا مَنَعَكَ : کس نے تجھے منع کیا اَلَّا تَسْجُدَ : کہ تو سجدہ نہ کرے اِذْ اَمَرْتُكَ : جب میں نے تجھے حکم دیا قَالَ : وہ بولا اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر مِّنْهُ : اس سے خَلَقْتَنِيْ : تونے مجھے پیدا کیا مِنْ : سے نَّارٍ : آگ وَّخَلَقْتَهٗ : اور تونے اسے پیدا کیا مِنْ : سے طِيْنٍ : مٹی
(خدا نے) فرمایا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا ؟ اس نے کہا کہ میں اس سے افضل ہوں۔ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔
آیت نمبر : 12 اس میں چار مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : ما منعک، مامبتدا ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے، یعنی ای شی منعک ؟ ( کون سی شے ہے جس نے تجھے روکا ہے ؟ ) یہ سوال زجر وتوبیخ کے لیے ہے۔ الا تسجد یہ محل نصب میں ہے، یعنی من ان تسجد ( تجھے سجدہ کرنے سے) اور لا زائدہ ہے۔ اور سورة ” ص “ آیت 75 میں ہے آیت : ما معنک ان تسجد ( کس چیز نے باز رکھا تمہیں اس کو سجدہ کرنے سے) اور شاعر نے کہا ہے : ابی جو دہ لا البخل فاستعجلت بہ نعم من فتی لا یمنع الجود نائلہ (المحررالوجیز، جلد 2، صفحہ 378) اس میں مراد ابی جو دہ البخل ہے، اس میں لا زائدہ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کہ لا زائدہ نہیں ہے، کیونکہ اس میں منع قول اور دعا کی ایک طرف ہے، تو گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ فرمایا : من قال لک الا تسجد ؟ ( کس نے تجھے کہا کہ تو سجدہ نہ کرے ؟ ) یا من دعا ک الی الا تسجد ؟ ( کس نے تجھے اس طرف دعوت دی کہ تو سجدہ نہ کرے) جیسا کہ آپ کہتے ہیں : قد قلت لک الا تفعل کذا ( تحقیق میں نے تجھے کہا کہ تو اس طرح نہ کرے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلام میں حذف ہے، تقدیر عبارت ہے : ما منعک من الطاعۃ واھوجک الی الا تسجد ( کون سے شی نے تجھے اطاعت سے روکا ہے اور تجھے اس کا محتاج بنا دیا ہے کہ تو سجدہ نہ کرے ؟ ) علماء نے کہا ہے : وہ شے جس نے اسے سجدہ نہ کرنے پر مجبور کیا تھا وہ تکبر اور حسد تھا۔ ور اس نے اپنے اندر چھپا رکھا تھا جب اسے اس کے بارے حکم دیا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے پہلے تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آیت : انی خالق بشرا من طین ( ص) کہ میں پیدا کرنے والا ہوں بشر کو کیچڑ سے) آیت : فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سجدین ( ص) ( پس جب میں اس کو سنواردوں اور پھر پھونک دوں اس میں اپنی ( طرف سے خاص) روح تو تم گر پڑنا اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے) تو گویا آیت : فقعوا لہ سجدین کے قول سے اس میں امر عظیم ( بہت بڑا اضطراب) داخل ہوگیا، کیونکہ اس سجدہ کرنے میں سجدہ کرنے والے کی ذلت و رسوائی اور جس کے لیے کیا گیا اس کی عزت و تکریم ہے پس اس نے اپنے دل میں یہ رکھ لیا کہ وہ سجدہ نہیں کرے گا جس وقت اسے اس کا حکم دیا گیا۔ پس جب حضرت آدم (علیہ السلام) میں روح پھونکی گئی تو ملائکہ سجدے میں گر گئے اور وہ ان کے درمیان کھڑا باقی رہا، پس اس نے اپنے قیام اور سجدہ ترک کرنے کے ساتھ اسے ظاہر کردیا جو اس کے اندر چھپا ہوا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ما منعک الا تسجد یعنی میرے حکم کی پیروی سے تجھے کس نے روکا ہے ؟ تو اس نے اپنے دل کا راز نکال دیا اور کہا : آیت : انا خیرمنہ۔ مسئلہ نمبر 2، قولہ تعالیٰ : آیت : اذامرتک یہ اس پر دلیل ہے جو فقہاء کہتے ہیں کہ جب امر مطلق بغیر قرینہ کے ہو تو وہ وجوب کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ اس میں مذمت اس امر مطلق کو ترک کرنے پر معلق کو ترک کرنے پر معلق ہے جو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو فرمایا : آیت : اسجدوا لادم ( آدم کو سجدہ کرو) اور یہ بین اور واضح ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ قولہ تعالیٰ : آیت : قال انا خیرمنہ یعنہ سجدہ کرنے سے مجھے میرے اس فضیلت نے روکا ہے جو مجھے اس پر حاصل ہے۔ ابلیس کی طرف سے یہ جواب بالمعنی ہے، جیسے آپ کہتے ہیں : لمن ھذی الدار ؟ یہ گھر کس کا ہے ؟ تو مخاطب کہتا ہے : مالکھا زید ( اس کا مالک زید ہے) تو عین جواب نہیں ہے، بلکہ ایسا کلام ہے جو معنی جواب کی طرف راجع ہے۔ آیت : خلقتنی من نار وخلقتہ من طین پس اس نے گمان کیا کہ آگ مٹی سے اشرف واعلیٰ ہے، اس لیے کہ یہ بلند مرتبہ ہے، بلندی کی طرف چڑھنے والی ہے اور تیزرفتار ہے اور اس لیے بھی کہ یہ ایک روشن جوہر ہے۔ حضرت ابن عباس، حسن اوسر ابن سیرین ؓ نے کہا ہے کہ سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا اور اس نے قیاس میں غلطی کی پس جس نے دین میں اپنی رائے سے قیاس کیا اللہ تعالیٰ اسے ابلیس کے ساتھ ملا دے گا۔ ابن سیرین نے کہا : سورج و چاند کی عبادت صرف اور صرف قیاسوں کے مطابق کی گئی۔ اور حکماء نے کہا ہے : اللہ کے اس دشمن نے اس بارے میں خطا اور غلطی کی ہے کہ اس نے آگ کو مٹی پر فضیلت دی ہے۔ اگرچہ یہ دونوں جامد مخلوق ہونے کے اعتبار سے ایک درجہ میں ہیں، پھر بھی مٹی آگ سے چار وجہ سے افضل و برتر ہے۔ (1) مٹی کے جوہر میں استحکام اور سکون ہے، وقار اور بردباری ہے، حلم، حیا اور صبر ہے اور یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو مذکورہ سعادت و اعزاز کے بعد توبہ، تواضع اور عجزوانکساری کی طرف دعوت دینے والا ہے، پس اس نے آپ کو مغفرت، اجتباء اور ہدایت کا وارث بنا دیا۔ اور آگ کے جوہر میں خفت ( ذلت) طیش، حرارت، بلندی اور اضطراب ہے اور یہ ابلیس کو مذکورہ شقاوت وبدبختی کے بعدتکبر اختیار کرنے اور اس پر اصرار کرنے کی دعوت دینے والا ہے، پس اس نے اسے ہلاکت، عذاب، لعنت اور شقاوت کا وارث بنا دیا۔ یہ قفال نے کہا ہے۔ (2) بیشک حدیث اس پر ناطق ہے کہ جنت کی مٹی انتہائی خوشبودار کستوری ( کی مثل) ہے اور اس پر کوئی حدیث نہیں کہ جنت میں آگ ہے اور (نہ اس پر) کہ جہنم میں مٹی ہے۔ ( 3) تیسری وجہ یہ ہے کہ آگ کا سبب ہے اور یہ اللہ کا عذاب اس کے دشمنوں کے لیے ہے، لیکن مٹی عذاب کا سبب نہیں ہے۔ (4) مٹی آگ کی محتاج نہیں اور آگ مکان کی محتاج ہے اور اس کا مکان مٹی ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ایک پانچویں قول کا احتمال بھی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ مٹی سجدہ کرنے کی جگہ اور پاک کرنے والی ہے، جیسا کہ صحیح حدیث میں موجود ہے۔ اور آگ ڈرانے والی اور عذاب ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ذلک یخوف اللہ بہ عبادہ ( الزمر : 16) ۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ابلیس کے لیے قیاس کی نسبت اطاعت وفرمانبرداری اولیٰ اور بہتر تھی لیکن اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور یہ وہ پہلا فرد ہے جس نے اپنی رائے کی مطابق قیاس کیا اور نص کی مخالفت میں قیاس مردود ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ قیاس کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے کچھ اس کے قائل ہیں اور کچھ اسے رد کرنے والے ہیں۔ پس جو اس کا قائل ہیں وہ صحابہ، تابعین، اور ان کے بعد آنے والے جمہور ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا عقلا جائز ہے اور شرعا ایسا واقع ہوا ہے اور یہی صحیح ہے۔ شافعیہ میں سے قفال اور ابو الحسین بصری اس طرف گئے ہیںٰ کہ اس کے مطابق عقلا عمل کرنا واجب ہے اور نظام نے یہ موقف اپنایا ہے کہ اس کے مطابق عمل کرنا عقلا اور شرعا محال ہے۔ اور بعض اہل ظواہر نے اس کا رد کیا ہے، لیکن پہلا (قول) صحیح ہے۔ امام بخاری (رح) نے ” کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ “ میں کہا ہے : اس کا معنی ہے لاعصمۃ لاحد الا فی کتاب اللہ اوسنۃ نبیہ اوفی اجماع العلماء اذا وجد فیھا الحکم فان لم یوجد فالقیاس ( کسی کے لیے عصمت اور بچاؤ نہیں ہے مگر کتاب میں یا نبی کریم ﷺ کی سنت میں علماء کے اجماع میں جب کہ اس میں حکم پایا جائے اور اگر حکم نہ پایا جائے تو پھر قیاس ہے) اور اسی بنا پر انہوں نے عنوان باندھا باب من شبہ اصلا معلوما باصل مبین قد بین اللہ حکمھا لیفھم السائل ( یعنی یہ باب اس کے بیان میں ہے جس نے کسی اصل معلوم کو اس اصل مبین کے ساتھ تشبیہ دی جس کے حکم کو اللہ نے بیان فرما دیا تاکہ سائل سمجھ جائے) اور اس کے بعد یہ عنوان ذکر کیا۔ باب الاحکم التی تعرف بالدلائل وکیف معنی الدلالۃ وتفسیرھا ( یہ بات ان احکام کے بیان میں ہے جو دلائل سے پہچانے جاتے ہیں اور دلالۃ کا معنی اور اس کی تفسیر کیا ہے) ۔ اور علامہ طبری نے کہا ہے : کتاب اللہ، نبی مکرم ﷺ کی سنت اور اجماع امت سے اجتہاد و استنباط کرنا ہی حق واجب ہے اور اہل علم کے لیے فرض لازم ہے اور اس بارے میں حضور نبی مکرم ﷺ اور صحابہ کرام اور تابعین رضوان اللہ علیم اجمعین کی جماعت سے کئی احادیث وروایات مروی ہیں۔ اور ابو تمام مالکی نے کہا ہے : امت نے قیاس پر اجماع کیا ہے۔ اور اسی وجہ سے ان کا زکوٰۃ میں سونے اور چاندی کے قیاس پر اجماع ہے۔ اور حضرت ابوبکر ؓ نے کہا : اقیلونی بیعتی ( تم میری بیعت توڑ دو ) تو حضرت علی ؓ نے کہا : واللہ لا نقیلک ولا نستقیلک، رضیک رسول اللہ ﷺ لدیننا افلا نرضاک لدنیانا ؟ (مسند امام احمد، حدیث نمبر، 133، روایت المعنی) ( قسم بخدا ! نہ ہم آپ کی بیعت توڑیں گے اور نہ توڑنے کا مطالبہ کریں گے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا ہے تو ہم کیوں نہ آپ کو اپنی دنیا کے لیے پسند کریں گے) تو اس میں آپ نے امامت کو نماز پر قیاس کیا۔ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے زکوۃ کو نماز پر قیاس کیا اور فرمایا : واللہ افرق بین ما جمع اللہ (مسند امام احمد، حدیث نمبر 67) ( قسم بخدا ! میں ان کے درمیان تفریق نہیں کروں گا جنہیں اللہ تعالیٰ نے جمع فرمایا) اور حضرت علی ؓ نے صحابہ کرام کی موجودگی میں شراب پینے والے کے بارے میں قیاس کی تصریح کردی اور فرمایا : انہ اذا سکر ھذی، واذا ھذی افتری، فحدہ حد القاذف ( بیشک جب وہ نشے میں ہوتا ہے تو ہذیان بکتا ہے اور جب ہذیان کہتا ہے تو بہتان تراشی کرتا ہے پس اس کی حد تہمت لگانے والے کی مثل ہوگی) اور حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی طرف ایک خط لکھا اور اس میں فرمایا : الفھم الفھم فیما یختلج فی صدرک فما لم یبلغک فی الکتاب والسنۃ، اعرف الامثال والاشباہ، ثم قس الامور عند ذالک، فاعبد الی احبھا الی اللہ تعالیٰ واشبھھا بالحق فیما تری، الحدیث بطولہ ذکرہ الدار قطنی (سنن دار قطنی، حدیث نمبر 4471) ( خوب سمجھو اور غورفکر کرو ایسے امر میں جس کے بارے میں تمہارے دل میں کوئی خلش اور شک پیدا ہوجائے اور اس کے بارے کتاب وسنت کا حکم تمہیں نہ پہنچے تو اس کی امثال واشباہ کو پہچانو، پھر ان امور میں سے کسی پر قیاس کرلو اور اس پر اعتماد کرو جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو اور تمہاری رائے میں حق کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتا ہو۔ یہ ایک طویل حدیث ہے جسے دارقطنی نے ذکر کیا ہے۔ اور حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حضرت عمر ؓ کو حدیث وباء میں کہا، جس وقت حضرت عمر ؓ مقام سرغ سے واپس لوٹے ! آیت : نفر من قدر اللہ ؟ ( کیا ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں ؟ ) تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا : نعم ! نفر من قدر اللہ الی قدر اللہ ( ہاں ! ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں) پھر حضرت عمر ؓ نے انہیں فرمایا : تمہاری کیا رائے ہے (ایضا، حدیث نمبر 1683، مختصر) ۔۔ پس آپ نے اسے ان مسائل پر قیاس کیا اور ان کے مطابق اس میں غور و فکر کی جو اس سے مشابہت رکھتے تھے اور یہ سب مہاجرین وانصار کی موجودگی میں ہوا اور تیرے لیے یہی کافی ہے۔ اور اس معنی میں جہاں تک آثار اور آیات قرآنی کا تعلق ہے تو وہ کثیر اور بہت زیادہ ہیں۔ اور یہ اس پر دلیل ہے کہ قیاس اصول دین میں سے ایک اصل ہے۔ اور مسلمانوں کی حفاظت اور بچاؤ کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور مجتہدین اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عمل کرنے والے علماء اس کی پناہ لیتے ہیں اور اس کے ساتھ احکام مستنبط کرتے ہیں اور یہ ان کی جماعت کا قول ہے جو حجت ہیں اور جو ان سے الگ ہوگیا اس کی طرف کوئی التفات نہیں کیا جائے گا۔ اور رہی مذموم رائے اور ایسا قیاس جس میں منھی عنہ ( وہ شی جس سے سے منع کیا گیا ہو) کے بارے میں تکلف کیا گیا ہو تو وہ اس مذکورہ اصول پر نہیں، کیونکہ وہ ظن اور شیطان کی جانب سے دھوکہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ولا تقف مالیس لک بہ علم (الاسرائ : 36) ( اور نہ پیروی کرو اس چیز کی جس کا تمہیں علم نہیں) اور قیاس کی مذمت میں جتنی کمزور اور ضعیف اخبار واحادیث قیاس کے مخالف لاتے ہیں تو وہ قیاس مذموم کی اس نوع پر محمول ہیں، جس کی شریعت میں کوئی اصل معلوم نہیں۔ اس بارے مکمل بحث کتب اصول میں ہے۔
Top