Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 144
قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ١ۖ٘ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ
قَالَ : کہا يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اِنِّى : بیشک میں اصْطَفَيْتُكَ : میں نے تجھے چن لیا عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ بِرِسٰلٰتِيْ : اپنے پیغام (جمع) وَبِكَلَامِيْ : اور اپنے کلام سے فَخُذْ : پس پکڑ لے مَآ اٰتَيْتُكَ : جو میں نے تجھے دیا وَكُنْ : اور رہو مِّنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر گزار (جمع)
(خدا نے) فرمایا موسیٰ ! میں نے تم کو اپنے پیغام اور اپنے کلام سے لوگوں سے ممتاز کیا ہے تو جو میں نے تم کو عطا کیا ہے اسے پکڑ رکھو اور (میرا) شکر بجا لاؤ
آیت نمبر : 144 قولہ تعالیٰ : آیت : قال یموسی انی اصطفیتک علی الناس برسٰلتی وبکلامی، الاصطفاء بعنی الاجتباء ہے۔ یعنی میں نے تجھے فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اور پھر آیت میں علی الخلق ( مخلوق پر) نہیں فرمایا۔ کیونکہ اس اصطفاء اور سرفرازی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شر ہمکلامی عطا فرمایا اور تحقیق اس نے ملائکہ سے بھی کلام فرمایا ہے اور اس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے جب کہ آپ کے علاوہ بھی اس نے رسول مبعوث فرمائے ہیں، پس علی الناس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی طرف آپ کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔ حضرت نافع اور ابن کثیر نے صیغہ مفرد کے ساتھ برسالتی پڑھا ہے (المحررالوجیز، جلد 2، صفحہ 452 ) ۔ اور باقیوں نے اسے جمع کی صورت میں پڑھا ہے اور الرسالۃ مصدر ہے، پس اسے مفرد لانا جائز ہے۔ اور جو جمع لائے ہیں وہ اس بنا پر ہے کہ آپ کو رسالت کی انواع و اقسام کے ساتھ بھیجا یا اس کی انواع مختلف ہیں، نتیجہ مصدر کی جمع اس کی انواع کے اختلاف کی وجہ سے ہے، جیسے فرمایا : آیت : ان انکر الاصوات لصوت الحمیر (لقمان) اصوات ( آوازیں) کی اجناس کے اختلاف اور آواز نکالنے والوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے اسے جمع لایا گیا ہے۔ اور لصوت الحمیر میں اسے واحد ذکر کیا، کیونکہ اس میں آوازوں میں سے ایک جنس کا ارادہ کیا ہے۔ اور یہ اس پر دلیل ہے کہ آپ کی قوم وصف تکلم میں آپ کے ساتھ شریک نہیں اور نہ ہی ستر افراد میں سے کوئی ایک آپ کے ساتھ شریک ہے، جیسے ہم نے اسے سورة البقرہ میں بیان کردیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : فخذما اتیتک یہ قناعت کرنے کی طرف اشارہ ہے، یعنی آپ اس پر قناعت کریں جو میں نے آپ کو عطا فرمایا ہے۔ آیت : وکن من الشکرین یعنی میں نے جو احسانات تم پر کیے ہیں اور جو میرا افضل تم پر ہے اس کا اظہار کرنے والوں میں ہوجائیں گے۔ کہا جاتا ہے : دابۃ شکوریہ کہا جاتا ہے جب جانور کا موٹاپا اس سے زیادہ ظاہر ہوجائے جتنا اسے چارہ ڈالا جاتا ہے۔ اور شاکر (شکر گزار) کو مزید کی پیشکش کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا : آیت : لئن شکرتم لازیدنکم ( ابراہیم : 7) ( کہ اگر تم پہلے احسانات پر شکرادا کرو تو میں مزیداضافہ کر دوں گا) ۔ اور روایت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کے بعد چالیس راتیں ٹھہرے رہے جس نے بھی آپ کو دیکھا وہ اللہ تعالیٰ کے نور کی تاب نہ لا کر مرگیا۔
Top