Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 150
وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا١ۙ قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْۢ بَعْدِیْ١ۚ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ١ۚ وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهٗۤ اِلَیْهِ١ؕ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ كَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ١ۖ٘ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب رَجَعَ : لوٹا مُوْسٰٓي : موسیٰ اِلٰى قَوْمِهٖ : اپنی قوم کی طرف غَضْبَانَ : غصہ میں بھرا ہوا اَسِفًا : رنجیدہ قَالَ : اس نے کہا بِئْسَمَا : کیا بری خَلَفْتُمُوْنِيْ : تم نے میری جانشینی کی مِنْۢ بَعْدِيْ : میرے بعد اَعَجِلْتُمْ : کیا جلدی کی تم نے اَمْرَ : حکم رَبِّكُمْ : اپنا پروردگار وَاَلْقَى : ڈالدیں الْاَلْوَاحَ : تختیاں وَاَخَذَ : اور پکڑا بِرَاْسِ : سر اَخِيْهِ : اپنا بھائی يَجُرُّهٗٓ : اپنی طرف اِلَيْهِ : اپنی طرف قَالَ : وہ بولا ابْنَ اُمَّ : بیشک اِنَّ : بیشک الْقَوْمَ : قوم (لوگ) اسْتَضْعَفُوْنِيْ : کمزور سمجھا مجھے وَكَادُوْا : اور قریب تھے يَقْتُلُوْنَنِيْ : مجھے قتل کر ڈالیں فَلَا تُشْمِتْ : پس خوش نہ کر بِيَ : مجھ پر الْاَعْدَآءَ : دشمن (جمع) وَلَا تَجْعَلْنِيْ : اور مجھے نہ بنا (شامل نہ کر) مَعَ : ساتھ الْقَوْمِ : قوم (لوگ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جب موسیٰ اپنی قوم میں نہایت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس آئے تو کہنے لگے کہ تم نے میرے بعد بہت ہی بداطواری کی۔ کیا تم نے اپنے پروردگار کا حکم (یعنی میرا اپنے پاس آنا) چلد چاہا ؟ (یہ کہا) اور شدت غضب سے (تورات کی) تختیاں ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر (کے بالوں) کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ بھائی جان ! لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے اور قریب تھا کہ قتل کردیں۔ تو ایسا کام نہ کیجئے کہ دشمن مجھ پر ہنسیں اور مجھے ظالم لوگوں میں مت ملائیے۔
قولہ تعالیٰ : آیت : ولما رجع موسیٰ الی قومہ غضبان اسفا اس میں غضبان غیر منصرف ہے، کیونکہ اس کی مونث غضبی ہے اور اس لیے کہ اس میں الف نون اس الف تانیث کی مثہ ہے جو تیرے قول حمراء میں ہے اور یہ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ اور اسفا سے مراد شدید الغضب (سخت غصہ) ہے۔ حضرت ابو الدرداء ؓ (تفسیر طبری، جلد 9، صفحہ 77) نے فرمایا : اسف کا درجہ غضب کے بعد ہے یعنی جب غصہ غضب سے زیادہ شدید ہو تو اسف کہلاتا ہے (اور وہ آدمی) اسف واسیف اوسفان اور اسوف کہلاتا ہے۔ اور الاسیف کا معنی حزین ( غمگین) بھی ہے،۔ حضرت ابن عباس اور سدی ؓ (تفسیر طبری، جلد 2، صفحہ 78) نے بیان کیا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے عمل کی وجہ سے غمگین و پشیمان واپس لوٹے۔ اور علامہ طبری نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ عزوجل نے آپ کو واپسی سے پہلے یہ بتا دیا تھا کہ انہیں بچھڑے کے سبب فتنہ وآزمائش میں ڈال دیا گیا ہے، پس اسی لیے آپ غصے کی حالت میں واپس لوٹے۔ حضرت ابن عربی (رح) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 793) نے بیان کیا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں غصہ لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ تھا، لیکن وہ بہت جلد اتر جاتا تھا، پس وہ جتنا زیادہ تھا تنا جلدی اترتا تھا۔ ابن القاسم نے کہا ہے : میں نے حضرت امام مالک (رح) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب غصے میں ہوتے تو آپ کی ٹوپی سے دھواں ظاہر ہوتا تھا اور آپ کے بدن کے بال آپ کے جبے کو اٹھا دیتے تھے اور یہ اس لیے ہے کہ غصہ ایک انگارہ ہے جو دل میں جلنے لگتا ہے۔ اسی لیے حضور نبی مکرم ﷺ نے حکم ارشاد فرمایا ہے کہ جسے غصہ آئے وہ چت لیٹ جائے اور اگر اس کا غصہ ختم نہ ہو تو پھر وہ غسل کرے، پس اس کا لیٹنا اس کے غصے کو ٹھنڈا کر دے گا اور اس کا غسل کرنا اسے زئل کر دے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تیز غصہ ہی اس کا سبب بنا تھا کہ آپ نے حضرت ملک الموت (علیہ السلام) کو تھپڑ دے مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ دی۔ اس بارے علماء نے جو کچھ کہا ہے اس کا ذکر سورة المائدہ میں گزر چکا ہے۔ اور حضرت حکیم ترمذی نے کہا ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس لیے اجازت طلب کی کیونکہ وہ کلیم اللہ تھے۔ گویا کہ انہوں نے یہ جانا کہ جس کسی نے آپ پر جرات کی یا آپ کی طرف اذیت کا ہاتھ بڑھایا تو یہ انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے۔ کیا آپ جانتے نہیں کہ جب انہوں نے آپ پر حجت پیس کی تو آپ نے فرمایا : تو میری روح کہاں سے نکالے گا ؟ کیا میرے منہ سے، حالانکہ میں نے اس سے اپنے رب سے کلام کی ہے یا میرے کان سے، حالانکہ میں نے اس سے اپنے رب کا کلام سنا ہے یا میرے ہاتھ سے، حالانکہ میں نے ان کے ساتھ تختیوں کو پکڑا ہے یا میرے پاؤں سے، حالانکہ میں طور پر رب کریم سے ہم کلام ہونے کے لیے ان پر کھڑا ہوا یا میرے آنکھوں سے، حالانکہ اس کے نور سے میرا چہرہ چمک اٹھا، پس وہ لاجواب ہو کر اپنے رب کی طرف واپس لوٹ گیا۔ مصنف ابی داؤد میں حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : بیشک رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا : ” جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اس حال میں کہ وہ کھڑا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ بیٹھ جائے تو اگر اس سے غصہ زائل ہوجائے ( تو بہتر) ورنہ اسے چاہیے کہ وہ لیٹ جائے “ (سنن ابی داؤد، کتاب الفتن، جلد 2، صفحہ 303) ۔ ابو وائل القاص سے بھی مروی ہے انہوں نے بیان کیا : ہم عروہ بن محمد سعدی کے پا گئے تو ایک آدمی نے ان سے گفتگو کی اور انہیں غصہ دلادیا، تو آپ ( مجلس سے) اٹھ گئے، پھر آپ اس حال میں واپس آئے کہ آپ نے وضو کیا ہوا تھا، انہوں نے فرمایا : میرے باپ نے میرے جد امجد عطیہ سے مجھے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور بلاشبہ شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور بلاشبہ آگ پانی کے ساتھ بجھائی جاتی ہے پس جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے وضو کرنا چاہیے “ (سنن ابی داؤد، کتاب الفتن، جلد 2، صفحہ 304) (حدیث نمبر 4151، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ قولہ تعالیٰ : آیت : بئسما خلفتمونی من بعدی یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے قوم کی مذمت ہے، یعنی بہت برا عمل ہے جو تم نے میرے بعد کیا ہے۔ جو عمل مکروہ اور ناپسندیدہ ہو اس کے لیے خلفہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ خیر اور بھلائی میں بھی بولا جاتا ہے۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے : خلفہ بخیرا وبشر فی اھلہ وقومہ بعد شخوصہ (یعنی اس نے اپنے گھر والوں اور اپنی قوم میں اپنی بلندی کے بعد خیر یا شر کو اپنا خلیفہ بنایا ) آیت : اعجلتم امرربکم یعنی کیا تم اپنے رب کے فرمان سے سبقت لے گئے ؟ اور العجلۃ سے مراد کسی شی کے ساتھ اس کے وقت سے پہلے آگے بڑھنا ہے اور یہ مذموم ہے۔ اور السرعۃ کا معنی ہے : عمل الشی فی اول اواتہ ( کسی شی پر اس کے وقت سے پہلے آگے بڑھنا ہے اور یہ مذموم ہے۔ اور السرعۃ کا معنی ہے : عمل الشی فی اول اوقاتہ ( کسی شی پر اس کے اول وقت میں عمل کرنا) اور یہ قابل تعریف ہے۔ یعقوب نے کہا ہے : کہا جاتا ہے : عجلت الشی ( یعنی) میں اس شے کی طرف سبقت لے گیا۔ اور اعجلت الرجل میں نے آدمی کو جلدی میں ڈالا، یعنی میں نے اسے عجلت پر ابھارا۔ اور امرربکم کا معنی ہے معیاد ربکم، یعنی تمہارے رب نے چالیس راتوں کا وعدہ کیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یعنی تم نے اپنے رب کی ناراضگی لینے میں جلدی کی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : تم نے بچھڑے کی عبادت کرنے میں جلدی کی ہے اس سے پہلے کہ تمہارے رب کی طرف سے کوئی حکم تمہارے پاس آتا ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : والقی الا لواح اس میں دو مسئلے ہیں ؛ مسئلہ نمبر : 1 قولہ تعالیٰ : آیت : والقی الالواھ اور آپ نے تختیاں پھینک دیں شدید غصے کی وجہ سے جو آپ پر اس وقت طاری ہوا جب آپ اپنی قوم کے پاس آئے اور وہ بچھڑے کی عبادت میں لگے ہوئے تھے، تو آپ ان کے معاملہ کو مہمل چھوڑنے اور اس پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے اپنے بھائی پر غصے ہوئے۔ یہ حضرت سعید بن جبیر (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 457) نے کہا ہے۔ اور اسی لیے کہا گیا ہے : لیس الخبز کالمعاینۃ ( سنی ہوئی خبر دیکھی ہوئی شے کی مثل نہیں ہوتی) ۔ اور وہ قابل التفات نہیں جو حضرت قتادہ (رح) سے مروی ہے اگر وہ آپ سے صحیح ہے اور وہ صحیح نہیں ہے کہ آپ نے تختیوں کو اس وقت پھینکا جب آپ نے ان میں حضور نبی کریم ﷺ کی امت کی فضیلت دیکھی اور آپ کی امت کے لیے نہیں تھی۔ یہ ردی قول ہے اور قطعا مناسب نہیں کہ اسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا جائے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے پہلے یہ روایت گزر چکی ہے کہ تختیاں ٹوٹ گئیں اور ان سے تفصیل اٹھا لی گئی اور ہدایت اور رحمت ان میں باق رہی۔ مسئلہ نمبر 2 تحقیق بعض جاہل متصوفہ نے اس سے کپڑے پھینکنے کے جواز پر استدلال کیا ہے جب غنا پر ان کی خوشی انتہائی بڑھ جائے ( اور وہ جھومنے لگیں) پھر ان میں سے بعض صحیح کپڑے پھینکتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو پہلے انہیں پھاڑ دالتے ہیں اور پھر پھینکتے ہیں۔ فرمایا : یہ لوگ ایک غیبی اور مخفی حالت میں ہوتے ہیں پس انہیں ملامت نہیں کی جائے گی، کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی قوم کے بچھڑے کی عبادت کرنے کے سبب جب غم غالب آگیا، تو آپ نے تختیاں پھینک دیں اور انہیں توڑ دیا اور آپ کو اس کا ادراک نہ ہوا جو آپ نے کیا۔ علامہ ابو الفرج جوزی (رح) نے بیان کیا ہے : کون جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے صحیح قرار دے سکتا ہے کہ آپ نے تختیاں توڑنے کے لیے انہیں پھینک دیا ؟ جو قرآن کریم میں مذکور ہے وہ ہے کہ آپ نے انہیں پھینکا، تو ہمیں یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ ٹوٹ گئیں ؟ پھر اگر کہا جائے کہ وہ ٹوٹ گئیں تو ہمیں یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آپ نے انہیں توڑنے کا قصد اور ارادہ کیا ؟ پھر اگر اہم اسے آپ سے صحیح قرار دیں تو ہم کہیں گے : آپ حالت غضب میں تھے، یہاں تک کہ اگر آپ کے سامنے آگ کا سمندر ہوتا تو آپ اس میں کود جاتے۔ اور کون ہے جو ان ( متصوفہ) کہ حالت غیبیہ کو صحیح قرار دے سکتا ہے حالانکہ وہ دوسرے سے غنا کو سمجھ ہوتا تو آپ اس میں کود جاتے۔ اور کون ہے جو ان ( متصوفہ) کی حالت غیبہ کو صحیح قرار دے سکتا ہے حالانکہ وہ دوسرے سے غنا کو سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اگر ان کے پاس کنواں ہو تو اس سے بچتے اور ڈرتے بھی ہیں۔ پھر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات کے احوال کو ان سفہا کے احوال پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے۔ ابن عقیل سے ان کے وجد کرنے اورع اپنے کپڑے پھاڑنے کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : یہ خطا ہے اور حرام ہے۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تو ایک کہنے والے نے آپ سے کہا : بلاشبہ وہ اسے نہیں جانتے ہوتے جو وہ کر رہے ہوتے ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا : اگر وہ یہ جانتے ہوئے ایسی جگہوں پر حاضر ہوئے کہ ان پر خوشی غالب آجائے گی اور وہ ان کی عقلوں کو زائل کر دے گی تو وہ اس وجہ سے گنہگار ہوئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ایسی جگہ داخل کیا جہاں انہوں نے کپڑے پھاڑنے وغیر جیسے فاسد کام کیا ہے اور ان سے شریعت کا خطاب ساقط نہیں ہوگا، کیونکہ وہاں حاضر ہونے سے پہلے انہیں یہ خطاب کیا جا چکا ہے کہ وہ ایسی جگہ سے اجتناب کریں جو انہیں اس حال تک پہنچا سکتی ہے، جیسا کہ انہیں کوئی نشہ آور مشروف پینے سے منع کیا گیا ہے، اسی طرح یہ وہ شدید خوشی ہے جسے اہل تصوف وجد کا نام دیتے ہیں اگر وہ سچے ہیں کہ اس میں طبعی نشہ ہے اور اگر وہ جھوٹے ہیں تو انہوں نے صحو کے باوجود فاسد کام کیا، پس اس میں دونوں حالتوں (صحو اور سکر) میں سلامتی نہیں ہے۔ اور شک کے مقامات سے اجتناب کرنا واجب ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : واخذ براس اخیہ یجرہ الیہ یعنی آپ نے اپنے بھائی کی ریش اور زلفیں کھینچیں۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تین سال بڑے تھے اور آپ بنی اسرائیل کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے زیادہ محبوب تھے، کیونکہ آپ میں غصہ بہت کم ( اور مزاج نرم) تھا۔ علماء نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اپنے بھائی کا سر پکڑ نے کی چارتاویلیں کی ہیں : (1) یہ انداز ان کے عرف اور عادت میں عام تھا، جیسا کہ عرب اپنے بھائی اور ساتھی کی تعظیم و تکریم کے لیے اس کی ڈاڑھی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں، تو یہ عمل بطریق تذلیل ورسوائی نہ ہوا۔ (2) آپ پر تختیوں کے نزول نے آپ کو بہت خوش کر رکھا تھا، کیونکہ یہ اسی مناجات میں آپ پر نازل ہوئی تھیں اور آپ نے چاہا کہ آپ انہیں تورات سے پہلے بنی اسرائیل سے مخفی رکھیں۔ تو حضرت ہارون (علیہ السلام) نے آپ کو کہا : میری ڈاڑھی اور میرا سر نہ پکڑو، تاکہ اس تذلیل کی وجہ سے بنی اسرائیل پر آپ کی خوشی مشتبہ نہ ہوجائے۔ (3) آپ نے یہ عمل اس لیے کہا کیونکہ آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) بھی بنی اسرائیل کے ساتھ بچھڑے کی پرستش کے عمل کی طرف مائل ہیں۔ اور اس طرح کا عمل انبیاء علیھم السلام کے لیے جائز نہیں ہوتا۔ (4) آپ نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ملایا تاکہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ اسے جان لے، تو حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اسے ناپسند کیا تاکہ بنی اسرائیل یہ گمان نہ کریں کہ آپ نے ان کی اہانت کی ہے۔ پھر آپ کے بھائی نے آپ کو بتایا کہ بنی اسرائیل نے اسے کمزور سمجھا، یعنی بچھڑے کی عبادت کرنے والوں نے اور قریب تھا کہ وہ اسے قتل کردیتے۔ پس جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھائی کا عذر سنا تو کہا : اے میرے رب ! میری اور میرے بھائی کی مغفرت فرما (رب اغفرلی ولاخٰی) یعنی میں نے جس غصے کے سبب تختیاں پھینکیں ہیٰں میرا وہ عمل معاف فرما دے اور میرے بھائی کی مغفرت فرما، کیونکہ میں نے انہیں بنی اسرائیل کو روکنے میں کوتاہی کرنے والا گمان کیا ہے اگرچہ ان سے کو تائی واقع نہیں ہوئی۔ یعنی تو میرے بھائی کی مغفرت فرما اگر اس سے کوتاہی ہے۔ حسن نے کہا ہے : حضرت ہارون (علیہ السلام) کے سوا ان تمام کے بچھڑے کی پرستش کی، کیونکہ اگر وہاں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) کے سوا کوئی مومن ہوتا تو آپ اپنے قول میں صرف اس پر اکتفا نہ کرتے : رب اغفرلی ولاخی، آپ یقینا اس مومن کے لیے بھی دعا کرتے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اپنے لیے اس فعل سے استغفار کیا جو آپ نے اپنے بھائی کے ساتھ کیا۔ آپ نے انہیں اس پر پانے کی وجہ سے ایسا کیا۔ جب کہ وہ اس عمل کے ساتھ ملحق نہ تھے تو انہوں نے جو کچھ ہوا اس کے بارے آپ کو آگاہ کیا تاکہ آپ رجوع کرلیں پھر دونوں نے بنی اسرائیل کے عمل کا تدارک کیا۔ اسی لیے کہا : آیت : یھرون ما منعک اذ رایتھم ضلوا الا تتبعن الایہ (طہ) (موسی نے آکر غصہ سے) کہا : اے ہارون ! کس چیز نے تجھے روکا کہ جب تو نے انہیں گمراہ ہوتے دیکھا تو (انہیں چھوڑا کر) میرے پیچھے نہ چلا آیا ) ۔ تو حضرت ہارون (علیہ السلام) نے وضاحت کی کہ انہیں تو اپنے قتل کا خوف پیدا ہوگیا تھا پس یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ جسے برائی سے روکتے وقت اپنی جان پر قتل کا خوف ہوا اس کے لیے سکوت اختیار کرنا جائز ہے۔ اس کا بیان پہلے سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 793) نے کہا ہے : اس میں اس پر دلیل موجود ہے کہ غضب احکام کو تبدیل نہیں کرتا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے، کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے غصہ نے آپ کے افعال میں سے کسی شی کو تبدیل نہیں کیا، بلکہ یہ صرف تختیوں کو پھینکنے، بھائی کو عتاب کرنے اور حضرت ملک الموت (علیہ السلام) کو تھپڑ مارنے کا سبب بنا۔ مہدوی (رح) نے کہا ہے : چونکہ آپ کا غصہ اللہ تعالیٰ عزوجل کے لیے تھا اور بنی اسرائیل سے آپ کا سکوت ان کے باہم لڑنے اور متفرق ہونے کے خوف سے تھا۔ قولہ تعالیٰ : آیت : قال ابن ام آپ ان کی ماں اور باپ دونوں کے بیٹے تھے ( یعنی سگے بھائی تھے) البتہ یہ کلمہ انتہائی نری اور شفقت و مہربانی کا کلمہ ہے۔ زجاج نے کہ ہے : کہا گیا ہے حضرت ہارون (علیہ السلام) صرف ماں کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی تھے باپ کی طرف سے نہیں۔ لفظ ام کو میم کے فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ پس جنہوں نے فتحہ دیا ہے انہوں نے ابن ام کو ایک اسم قرار دیا ہے جیسے خمسۃ عشر۔ پس یہ تیرے اس قول کی طرح ہوگیا : یا خمسۃ عشر اقبلوا اور جنہوں نے کسرہ پڑھا ہے انہوں نے اسے ضمیر متکلم کی طرف مضاف کیا ہے پھر یا اضافت کو حذف کر یا ہے، کیونکہ نداء کا دارو مدار حذف پر ہے اور انہوں نے میم میں کسرہ کو باقی رکھا ہے تاکہ وہ اضافت پر دلیل ہوجائے، جیسا کہ یہ قول یاعمادہ اس پر ابن السمیقع کی قراءت یا بن امی دلالت کرتی ہے کہ اس میں یا اپنے اصل پر ثابت ہے۔ کسائی، فراء اور ابو عبید نے کہا ہے : یہ یا بن ام فتحہ کے ساتھ ہے۔ اس کی تقدیر یا بن اماہ ہے۔ اور بصریوں نے کہا : یہ قول غلط ہے، کیونکہ الف خفیف حرف ہے حذف نہیں ہو سکتا، البتہ اس نے دو اسموں کو ایک اسم بنا دیا ہے۔ اخفش اور ابو حاتم نے کہا ہے : یا بن ام یعنی کسرہ کے ساتھ جیسا کہ آپ کہتے ہیں : یا غلام غلام اقبل، یہ لغت شاذ ہے اور اس کے ساتھ قراءت کرنا بعید ہے۔ بلاشبہ یہ اس میں ہوتا ہے جو تیری طرف مضاف ہو۔ اور رہا وہ مضاف جو اس کی طرف مضاف ہو جو تیری طرف مضاف ہے تو اس میں وجہ یہ ہے کہ تو کہے : یا غلام غلامی، اور یا بن اخی۔ اور یا بن ام اور یا بن عم بھی کلام میں اس کی کثرت کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا ہے۔ زجاج اور نحاس نے کہا ہے : لیکن اس کی حسین اور جید وجہ یہ ہے کہ الابن کو ام اور عم کے ساتھ ملا کر ایک اسم بنا دیا جائے۔ یہ تیرے اس قول کے قائم مقام ہے : یا خمسۃ عشر اقبلوا پس یا کو حذف کردیا گیا جیسے یا غلام سے اسے حذف کیا گیا۔ آیت : ان القوم استضفونی یعنی قوم نے مجھے ذلیل ورسوا کیا اور مجھے کمزور وبے بس بنا دیا۔ وکادوا یعنی یہ قریب ہوگئے۔ یقتلوننی یہ لفظ دونونوں کے ساتھ ہے، کیونکہ یہ فعل مضارع ہے۔ اور غیر قرآن میں اس میں ادغام جائز ہوتا ہے۔ آیت : فلاتشمت بی الاعدآء یعنی آپ دشمنوں کو خوش کیجئے۔ اور الشماتہ کا معنی ہے : السرور وربما یصیب اخاک من المصائب فی الدین والدنیا ( یعنی تیرے کسی بھائی کو دین ودنیا میں مصائب وآلام میں سے جو پہنچے اس پر اظہار مسرت کرنا، شماتت کہلاتا ہے) اور یہ حرام ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے۔ حدیث میں حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے : لا تظھرالشماتۃ باخیک فیعافیہ اللہ ویبلیک ( تو اپنے بھائی کی تکلیف پر خوشی کا اظہار نہ کر ( کہیں ایسا نہ ہو کہ) اللہ تعالیٰ اسے نجات عطا فرما دے اور تجھے اس میں مبتلا کر دے۔ رسول اللہ ﷺ اس سے پناہ مانگتے تھے اور یہ عرض کرتے تھے : اللھم انی اعوذبک من سوء القضاء ودرک الشقاء وشماتۃ الاعداء (صحیح بخاری، کتاب القدر، جلد 2، صفحہ 979) ( اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بری تقدیر سے، بدبختی پانے سے اور دشمنوں کی تکلیف پر خوش ہونے سے) اسے بخاری وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اور شاعر نے کہا ہے : اذا ما الدھر جر علی اناس کلاکلہ اناخ بآخرینا فقل للشامتین بنا افیقوا سیلقی الشامتون کما لقینا حضرت مجاہد اور مالک بن دینار (رح) نے تا کے نصب اور میم کے فتحہ کے ساتھ تشمت اور الاعداء کور رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور معنی یہ ہے : تو میرے ساتھ وہ سلوک نہ کر جس کے سبب دشمن خوش اور مسرور ہوں ( لا تفعل بی ماتشمت من اجلہ الاعداء) یعنی ان کی طرف سے ایسا کوئی فعل نہیں ہوا جو آپ مجھ سے کر رہے ہیں۔ حضرت مجاہد (رح) سے بھی تشمت دونوں ہی فتحہ مروی ہے اور الاعداء نصب کے ساتھ ہے۔ ابن جنی نے کہا : اس کا معنی ہے اے میرے رب ! تو مجھ پر خوش نہ ہو۔ اور یہ جائز ہے جیسا کہ یہ قول ہے : آیت : اللہ یستھزی بھم (البقرہ : 15) وغیرہ۔ پھر مقصود اور مراد کی طرف رجوع فرمایا اور وہ فعل مضمر کردیا جس کے ساتھ الاعدآء کو نصب دی، گویا کہ اس طرح فرمایا : ولاتشمت بی الاعدائ۔ ابو عبید نے کہا ہے : میں نے حمید سے بیان کیا ہے کہ یہ فلا تشمت میم کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ نحاس نے کہا ہے : اس قراءت کی کوئی وجہ اور دلیل نہیں، کیونکہ اگر یہ سمت سے ہو تو پھر تشمت کہنا واجب ہے۔ اور اگر یہ اشمت سے ہے تو پھر تشمت کہنا واجب ہے۔ اور ارشاد باری تعالیٰ : آیت : ولاتجعلنی مع القوم الظلمین حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : (ظالمین سے) مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچھڑے کی عبادت کی آیت : قال رب اغفرلی ولاخی وادخلنا فی رحمتک وانت ارحم الرحمین بحث پہلے گزر چکی ہے۔
Top