Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 150
وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا١ۙ قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْۢ بَعْدِیْ١ۚ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ١ۚ وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهٗۤ اِلَیْهِ١ؕ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ كَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ١ۖ٘ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب رَجَعَ : لوٹا مُوْسٰٓي : موسیٰ اِلٰى قَوْمِهٖ : اپنی قوم کی طرف غَضْبَانَ : غصہ میں بھرا ہوا اَسِفًا : رنجیدہ قَالَ : اس نے کہا بِئْسَمَا : کیا بری خَلَفْتُمُوْنِيْ : تم نے میری جانشینی کی مِنْۢ بَعْدِيْ : میرے بعد اَعَجِلْتُمْ : کیا جلدی کی تم نے اَمْرَ : حکم رَبِّكُمْ : اپنا پروردگار وَاَلْقَى : ڈالدیں الْاَلْوَاحَ : تختیاں وَاَخَذَ : اور پکڑا بِرَاْسِ : سر اَخِيْهِ : اپنا بھائی يَجُرُّهٗٓ : اپنی طرف اِلَيْهِ : اپنی طرف قَالَ : وہ بولا ابْنَ اُمَّ : بیشک اِنَّ : بیشک الْقَوْمَ : قوم (لوگ) اسْتَضْعَفُوْنِيْ : کمزور سمجھا مجھے وَكَادُوْا : اور قریب تھے يَقْتُلُوْنَنِيْ : مجھے قتل کر ڈالیں فَلَا تُشْمِتْ : پس خوش نہ کر بِيَ : مجھ پر الْاَعْدَآءَ : دشمن (جمع) وَلَا تَجْعَلْنِيْ : اور مجھے نہ بنا (شامل نہ کر) مَعَ : ساتھ الْقَوْمِ : قوم (لوگ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جب موسیٰ رنج اور غصہ سے بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف لوٹے، بولے تم نے میرے پیچھے میری بہت بری جانشینی کی۔ کیا تم نے خدا کے حکم سے پہلے ہی جلد بازی کردی ؟ اور اس نے تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کا سر پکر کر اس کو اپنی طرف گھسیٹنے لگا۔ وہ بولا اے میرے ماں جائے ! قوم کے لوگوں نے مجھے دبا لیا، قریب تھا کہ مجھے قتل کردیتے تو میرے اوپر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دے اور میرا شمار ظالموں کے ساتھ نہ کر
وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓي اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ مِنْۢ بَعْدِيْ ۚ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ ۚ وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِيْهِ يَجُرُّهٗٓ اِلَيْهِ ۭ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِيْ وَكَادُوْا يَقْتُلُوْنَنِيْ ڮ فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْاَعْدَاۗءَ وَلَا تَجْعَلْنِيْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ۔ تورات اور قرآن دونوں ہی سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ کو پہاڑی پر اس حادثہ کی اطلاع مل چکی تھی بلکہ قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی خبر اللہ تعالیٰ ہی نے حضرت موسیٰ کو دی تھی چناچہ جب وہ پلٹے ہیں تو نہایت غصہ اور غم و افسوس کی حالت میں لٹے ہیں۔ غصہ ان مفسدین کی اس کامیاب شرارت پر تھا اور غم و افسوس اپنی قوم کی نادانی و جہالت پر۔ آتے ہی انہوں نے سب سے پہلے ان لوگوں کی خبر لی جن پر ان کی غیر موجودگی میں قوم کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔ فرمایا کہ تم لوگوں نے میرے بعد میری بہت بری جانشینی کی کہ قوم کو اس برے راستے پر ڈالا یا جانے دیا۔ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ یعنی قبل اس کے خدا یہ بتائے کہ اس کی عبادت کا کیا طریقہ ہے کیا (ور یہی بتانے کے لیے اس نے مجھے پہاڑ پر بلایا) تم نے سبقت کر کے خود عبادت کا ایک طریقہ ایجاد کرلیا حالانکہ یہ چیز تمہارے ایجاد کرنے کی نہیں بلکہ خدا ہی کے بتانے کی تھی۔ استفہام یہاں سرزنش اور ملامت کے لیے ہے۔ یہ امر واضح رہے کہ بت پرستی در اصل عقیدہ حلول کے تحت وجود میں آئی ہے۔ مشرکین سمجھتے ہیں کہ خدا ان صورتوں اور مورتوں میں حلول کرجاتا ہے اس وجہ سے ان کی عبادت خدا کی عبادت کے ہم معنی ہے۔ آگے اسی سورة میں اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث آئے گی۔ وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ ، یہ ان کے غلبہ حال اور جوش حمیت کی تصویر ہے کہ تختیاں تو انہوں نے ایک طرف ڈال دیں اور حضرت ہارون کا سر اور شانہ پکڑ کر ان کو جھنجھوڑنے لگے، مطلب یہ کہ یہ کیا ہوا ؟ تم نے اس فتنہ کو کیوں سر اٹھانے دیا ؟ چونکہ اصل ذمہ داری حضرت ہارون ہی پر تھی اور ان پر پورا پورا اعتماد بھی تھا اس وجہ سے وہ سب سے زیادہ عتاب کی زد میں آئے۔ اللہ کے معاملے میں یہ جوش و جذبہ غیرت ایمانی کا بھی تقاضا ہے اور حضرت ہارون کے ساتھ قبلبی محبت کا بھی۔ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِيْ۔ یہ حضرت ہارون نے اپنی صفائی پیش فرمائی ہے اور اندازِ خطاب بہت پیارا ہے۔ یا اخی نہیں کہا بلکہ ابن امر، اے میرے ماں جائے، کہا جس سے شفقت اور استمالت دونوں چیزیں نمایاں ہورہی ہیں۔ حضرت ہارون نے صفائی میں فرمایا کہ قوم نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ لوگ مجھے قتل کردیں۔ اس سے واجح ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس فتنہ سے لوگوں کو روکا بلکہ اس کے لیے اپنی جان بھی خطرے میں ڈال دی لیکن قوم کی بھاری اکثریت سامری کے چکمے میں آگئی اور خود ان کے ساتھ اتنی قلیل تعداد رہ گئی کہ طاقت کے زور سے ان کے لیے اس کو روکنا ممکن نہیں رہا۔ اس وجہ سے انہوں نے، جیسا کہ دوسری جگہ بیان آئے گا، مصلحت اسی میں دیکھی کہ حضرت موسیٰ کی واپسی کا انتظار کریں کہ مبادا ان کا کوئی اقدام کسی مزید مضرت کا باعث ہوجائے۔ چناچہ قرآن میں ان کا یہ قول نقل ہوا ہے انی خشیت ان تقول فرقت بین بنی اسرائیل ولم ترقب قولی (میں ڈرا کہ تم کہو گے کہ تم نے بنی اسرائیل کے درمیان پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا لحاظ نہ کیا) فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْاَعْدَاۗءَ۔ یعنی دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کر، یہ سارا فتنہ شریروں کا اٹھایا ہوا ہے، میں اس سے بالکل بری ہوں لیکن جب وہ دیکھیں گے کہ سارا عتاب مجھ پر ہوا تو وہ اپنی کامیابی پر بہت خوش ہوں گے کہ فتنہ تو انہوں نے اٹھایا اور مہ داری ساری مجھ پر آئی۔ حضرت ہارون ؑ پر مرتبین تورات کے جھوٹ کی تردید : اس سے مرتبین تورات کے اس جھوٹ کی پوری پوری تردید ہوگئی جو انہوں نے حضرت ہارون ؑ پر لگایا ہے کہ گوسالہ سازی کا یہ سارا کام حضرت ہارون کے اہتمام میں انجام پایا۔ قرآن نے نہ صرف حضرت ہارون کو اس ذلیل تہمت سے بری کیا بلکہ اس فتنہ کے اصل بانی کی بھی نشان دہی کی اور اس کے اس سارے ڈھونگ کو بھی بےنقاب کیا جو عوام فریبی کے لیے اس نے رچایا۔ اس کے موقع پر اس کی پوری تفصیل انشاء اللہ آئے گی۔
Top