Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 16
قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
قَالَ : وہ بولا فَبِمَآ : تو جیسے اَغْوَيْتَنِيْ : تونے مجھے گمراہ کیا لَاَقْعُدَنَّ : میں ضرور بیٹھوں گا لَهُمْ : ان کے لیے صِرَاطَكَ : تیرا راستہ الْمُسْتَقِيْمَ : سیدھا
(پھر) شیطان نے کہا کہ مجھے تو تو نے ملعون کیا ہی ہے۔ میں بھی تیرے سیدھے راستے پر ان کو (گمراہ کرنے) کیلئے بیٹھوں گا۔
آیت نمبر : 16۔ 17 اس میں تین مسئلے ہیں۔ مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : آیت : فبما اغویتنی اغواء کا معنی ہے ایقاع الغی فی القلب ( دل میں گمراہی کو واقع کرنا) یعنی اس وجہ سے کہ تو نے میرے دل میں گمراہی، عناد اور تکبر ڈال دیا۔ اور یہ اس لیے ( کہا) کیونکہ ابلیس کا کفر کفر جہالت نہیں، بلکہ وہ کفر عناد وتکبر ہے۔ اور اس کے بارے میں بحث سورة البقرہ میں گزر چکی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلام کا معنی قسم ہے، یعنی تیرے مجھے گمراہ کرنے کی قسم میں ضرور بضرور ان کے لیے تیرے راستے پر، یا تیرے راستے میں بیٹھوں گا، پس کلام میں حذف ہے فبا غوائک ایای لا قعدن لھم علی صراطک اوفی صراطک اس قول کی دلیل اس کا وہ قول ہے جو سورة ص میں ہے : آیت : فبعزتک لا غوینھم اجمعین (تیری عزت کی قسم ! میں ضرور بضرور ان تمام کو گمراہ کروں گا) تو گویا ابلیس اللہ تعالیٰ کے اسے گمراہ کرنے کی مقدار سے بڑھ کر ہے، کیونکہ اس میں اسے بندوں پر تسلط اور غلبہ دینے کا ذکر ہے، پس اس نے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی قدر کے عظیم ہونے پر قسم کھائی۔ اور یہ قول بھی ہے کہ بابمعنی لام ہے، گویا اس نے یہ کہا : فلا غوائک ایای ( تیری مجھے گمراہ کرنے کی وجہ سے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بابمعنی مع ہے اور معنی ہے فمع اغوائک ایای ( پس تیرے مجھے گمراہ کرنے کے ساتھ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ استفہام ہے، گویا اس نے پوچھا بای شی اغواہ ؟ ( کون سی شے کے سبب اللہ نے اسے گمراہ کیا ہے) اور اس بنا پر یہ ہونا چاہیے : فبم اغویتنی ؟ ( کیونکر تو نے مجھے گمراہ کیا ؟ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے فبما اھلکتنی بلعنک ایای ( کس سبب سے تو نے مجھے اپنی نعمت کا مستحق قرار دے کر ہلاک کیا) ؟ تو اس کے مطابق اغواء بمعنی اھلاک ( ہلاک کرنا) ہو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : فسوف یلقون غیا ( مریم) ای ھلاکا ( وہ ہلاکت کو جا ملیں گے) ۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہ بمعنی فما اضللتنی ( تو نے مجھے کس سبب سے گمراہ کیا ؟ ) تو اس میں اغوا بمعنی اضلال ( گمراہ کرنا) اور ابعاد ( اپنی رحمت سے دور کرنا) ہے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا۔ اور یہ قول بھی ہے : خیبتنی من رحمتک ( تو نے مجھے اپنی رحمت سے محروم کردیا ہے) اور اس معنی میں شاعر کا قول بھی ہے : ومن یغولا یعدم علی الغی لائما ای من یخب ( جو محروم ہوجاتا ہے) اور ابن اعرابی نے کہا ہے : کہا جاتا ہے : غوی الرجل ( یغوی) غیا جب آدمی پر اس کا معاملہ فاسد ہوجائے یا اس کے دل میں وہ فاسد ہوجائے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت : وعصی ادم ربہ فغوی (طہ) ( اور حکم عدولی ہوگئی ۃ آدم سے اپنے رب کی سو وہ بامراد نہ ہوا) کے معانی میں سے ایک ہے یعنی جنت میں اس کا رہنا فاسد ہوگیا۔ اور کہا جاتا ہے : غوی الفصیل ( جب اونٹ کے بچے کو بد ہضمی ہونا اور لاغری سے قریب بہ ہلاکت ہونا) جب وہ اپنی ماں کا دودھ نہ پی سکے۔ مسئلہ نمبر 2۔ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہ کیا اور اس میں کفر پیدا کردیا، اسی وجہ سے اس ارشاد میں اغوا (گمراہ کرنے) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور یہی حقیقت ہے اور موجود کوئی شے نہیں ہے مگر وہ اس کے مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ہی سب صادر ہوتا ہے۔ قدریہ وغیرہ نے ابلیس کی مخالفت کی ہے جس کی اطاعت و مطاوعت انہوں نے ہر اس معاملے میں کی جسے اس نے ان کے لیے مزین اور آراستہ کیا، لیکن اس مسئلہ میں انہوں نے اس کی پیروی نہ کی اور وہ کہتے ہیں : ابلیس نے غلطی اور خطا کی ہے اور وہ خطا کا اہل تھا اسی وجہ سے اس نے گمراہی کی نسبت اپنے رب کی طرف کی، اللہ تعالیٰ اس سے انتہائی بلندو برتر ہے۔ تو انہیں کہا جائے گا : ابلیس اگر خطا کا اہل ہے تو نبی (علیہ السلام) کے بارے میں کیا کرو گے جو مکرم اور معصوم ہے اور وہ حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں، جب انہوں نے اپنی قوم کو کہا : آیت : ولا ینفعکم نصحی ان ارادت ان انصح لکم ان کان اللہ یرید ان یغویکم ھو ربکم والیہ ترجعون ( ہود) ( اور نہیں فائدہ پہنچائے گی تمہیں میری خیر خواہی اگرچہ میرا ارادہ ہو کہ میں تمہاری خیر خواہی کروں اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دے وہ پروردگا ہے تمہارا اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے) اور یہ بھی روایت ہے کہ حضرت طاؤس کے پاس مسجد حرام میں ایک آدمی آیا اور وہ قدریہ ( فرقہ سے) متہم تھا اور وہ بڑے اور عظیم فقہاء میں سے تھا۔ پس وہ آپ کے پاس بیٹھ گیا تو حضرت طاؤس نے اسے کہا : تو اٹھے گا یا تجھے اٹھایا جائے گا ؟ تو حضرت طاؤس کو عرض کیا گئی : آپ یہ الفاظ ایک فقیہ آدمی کہ کہہ رہے ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا : ابلیس افقہ منہ ( ابلیس اس سے بڑھ کر فقیہ ہے) ابلیس کہتا ہے : آیت : رب بما اغویتنی ( الحجر : 39) ( اے میرے رب ! کس سبب سے تو نے مجھے گمراہ کیا ہے) اور یہ کہتا ہے : انا اغوی نفسی ( میں اپنے آپ کو گمراہ کرتا ہوں) مسئلہ نمبر 3۔ قولہ تعالیٰ : آیت : لاقعدن لھم صراطک المستقیم یعنی ( میں ان کو گمراہ کرنے کے لیے تیرے سیدھے راستے پر ضرور ان کی تاک میں بیٹھوں گا) اس سے اعراض کرنے کے ساتھ اور باطل کو مزین وآراستہ کرنے کے ساتھ یہاں تک کہ وہ اسی طرح ہلاک ہوجائیں جیسے وہ ہلاک ہوا یا وہ انہیں اسی طرح گمراہ کر دے جیسے وہ گمراہ ہوا یا وہ انہیں اسی طرح محروم کر دے جیسے اسے محروم کیا گیا، جیسا کہ یہ تینوں معانی اغویتنی کی تفیسر میں گزر چکے ہیں۔ اور صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو جنت تک پہنچانے والا ہے۔ اور صراطک منصوب ہے اس بنا پر کہ آیت : صراطک المستقیم سے پہلے علی یافی محذوف ہے، جیسے سیبویہ نے بیان کیا ہے ضرب زید الظھر والبطن اور یہ شعر بھی کہا : لدن بھز الکف یعسل متنہ فیہ کما عسل الطریق الثعلب (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 380) ( دونوں مثالوں میں الظھر والبطن اور الطریق سے پہلے حروف جار محذوف ہے) اور اس قول : آیت : ثم لاتینھم من بین ایدیھم ومن خلفھم وعن ایمانھم وعن شمآئلھم کی تاویل میں جو احسن ترین قول کہا گیا ہے ( وہ یہ ہے): میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا حق سے اور انہیں دنیا میں رغبت دلاؤں گا اور انہیں آخرت کے بارے میں شک میں مبتلا کروں گا اور گمراہی میں یہ انتہا ہے، جیسے اس نے کہا : آیت : ولا ضلنھم ( النسا : 119) جیسے پہلے گزر چکا ہے۔ اور سفیان نے منصور سے اور اس نے حکم بن عتیبہ سے روایت کیا ہے (تفسیر طبری، جلد 8، صفحہ 162) کہ اس نے کہا : آیت : من بین ایدیھم یعنی ان کی دنیا کی جانب سے۔ آیت : ومن خلفھم ان کی آخرت کی جانب سے۔ آیت : وعن ایمانھم یعنی ان کی نیکیوں کی جانب سے۔ آیت : وعن شمآئلھم یعنی ان کے گناہوں اور برائیوں کے اعتبار سے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ قول اچھا ہے اور اس کی شرح یہ ہے کہ آیت : ثم لاتینھم من بین ایدیھم کا معنی ہے میں ضرور ان کے پاس آؤں گا ان کی دنیا کی جانب سے، یہاں تک کہ وہ اس میں موجود آیات اور امم ماضیہ کی اخبار کو جھٹلانے لگیں آیت : ومن خلفھم اور ان کی آخرت کی جانب سے یہاں تک کہ وہ اس کی تکذیب کردیں۔ آیت : وعن ایمانھم ان کی نیکیوں اور ان کے امور دینیہ کی جانب سے۔ اور اس پر یہ قول دلالت کرتا ہے : آیت : انکم کنتم تاتوننا عن الیمین ( الصافات) ( کہ تم آیا کرتے تھے ہمارے پاس بڑے کروفر سے) آیت : وعن شمآئلھم یعنی ان کے گناہوں کی طرف سے، یعنی وہ شہوات کی اتباع و پیروی کریں گے، کیونکہ وہ شہوات کو ان کے لیے مزین وآراستہ کر دے گا۔ آیت : ولا تجد اکثرھم شکرین اور تو ان میں سے اکثر کو موحد، اطاعت کرنے والا فرمانبردار اور اظہار شکر کرنے ولانہ پائے گا۔
Top