Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سٹیاں اور تالیاں بجانے سوا کچھ نہ تھی۔ تو تم جو کفر کرتے تھے اب اس کے بدلے عذاب (کا مزہ) چکھو۔
آیت نمبر : 35۔ 36۔ 37 حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : قریش ننگے بدن بیت اللہ شریف کا طواف کرتے تھے، وہ تالیاں بجاتے تھے اور سیٹیاں مارتے تھے (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 627) اور یہ ان کے گمان میں عبادت تھی۔ مکاء کا معنی سیٹی مارنا ہے اور التصدیہ کا معنی تالی بجانا ہے۔ یہ حضرت مجاہد، سدی اور حضرت ابن عمر ؓ نے کہا ہے اور اسی کے مطابق عنترہ کا قول بھی ہے : وحلیل غانیۃ ترکت مجدلا تمکو فریضتہ کشدق الاغلم (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 523 ) یعنی اس میں تمکو بمعنی تصوت ( آواز نکالنا، سیٹی مارنا کے) ہے۔ اور اسی سے مکت است الدابہ یہ تب کہا جاتا ہے جب جانور ہوا خارج کرے۔ سدی نے کہا ہے ؛ المکاء بمعنی الصفیر سیٹی مارنا ہے۔ یہ جب حجاز کے طائر ابیض ( سفید پرندہ) کی آواز اور طرز پر ہو تو اس کے لیے المکاء کہا جاتا ہے۔ شاعر کا قول ہے : اذا غرد المکاء فی غیر روضۃ فویل لاھل الشاء والحمرات حضرت قتادہ نے کہا ہے : المکاء سے مراد ہاتھوں کے ساتھ تالی بجانا ہے اور تصدیہ سے مراد چیخ مارنا، سیٹی مارنا ہے۔ دونوں تفسیروں کی بنا پر اس میں ان جائل صوفیاء کا رد ہے جو رقص کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں اور گر پڑتے ہیں۔ یہ سب کا سب منکر ( اور ممنوع) عمل ہے اور عقلا ایسے عمل سے پرہیز کرتے ہیں اور محفوظ رہتے ہیں۔ ایسا کرنے والا مشرکین کے ساتھ اس عمل میں مشابہ ہوجاتا ہے جو وہ بیت اللہ شریف کے پاس کرتے تھے۔ ابن جریج اور ابن نجیح نے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : ان سے مراد ان کا اپنے مونہوں میں اگلیاں داخل کرنا ہے۔ اور تصدیہ سے مراد سیٹی بجانا ہے۔ ان کا مقصود یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے اس عمل کے ساتھ حضور نبی مکرم ﷺ کو نماز سے غافل کر دے ( آپ کی نماز میں خلل پیدا کریں) ۔ نحاس نے کہا ہے : لغت میں معروف وہ معنی ہے جو حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے۔ ابو عبیدہ نے بیان کیا ہے کہ کہا جاتا ہے : مکا یمکو مکوا ومکاء جب کوئی سیٹی بجائے۔ اور صدی یصدی تصدیہ کہا جاتا ہے جب کوئی تالی بجائے، اس معنی میں عمرو بن اطنابہ کا قول بھی ہے : وظلوا جمعیا لھم ضجۃ مکاء لدی البیت بالتصدیۃ یعنی اس میں التصدیہ بمعنی التصفیق یعنی تالی بجانا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر اور ابن زید نے کہا ہے : التصدیۃ کا معنی ہے ان کا بیت اللہ شریف سے روکنا، اس معنی کی بنا پر یہ اصل میں تصددۃ ہے، پھر دو والوں میں سے ایک کو یا سے بدل دیا گیا ہے۔ اور آیت : لیمیز اللہ الخبیث من الطیب کا معنی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ مومن کو کافر سے الگ کر دے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ (حکم) ہر شے میں عام ہے چاہے اسکا تعلق اعمال سے یا نفقات سے یا کسی سے ہو۔
Top