Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 68
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
لَوْ : اگر لَا : نہ كِتٰبٌ : لکھا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے سَبَقَ : پہلے ہی لَمَسَّكُمْ : تمہیں پہنچتا فِيْمَآ : اس میں جو اَخَذْتُمْ : تم نے لیا عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔
لولا کتب من اللہ سبق لمسکم فیمآ اخذتم عذاب عظیم۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : لولا کتب من اللہ سبق اگر پہلے سے اس بارے میں حکم الہٰی نہ ہوتا کہ وہ کسی قوم کو عذاب نہیں دے گا یہاں تک کہ ان کے لیے اس چیز کو بیان کردے جس سے وہ بچیں اور پرہیز کریں۔ لوگوں نے کتاب اللہ السابق کے بارے میں مختلف قول کیے ہیں۔ ان میں سے صحیح ترین قول یہ ہے کہ اگر غنائم کو حلال کرنے کے بارے میں پہلے سے فیصلہ نہ ہوتا ‘ کیونکہ ہم سیپہلی امتوں پر غنائم کو حرام کیا گیا تھا۔ پس جب غزوہ بدر کا دن تھا ‘ تو لوگ غنائم کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے تو اللہ تعالیٰ نے غنائم کو حلال کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی لو لا کتب من اللہ سبق۔ ابو دائود طیالسی نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ سلام نے اعمش سے ‘ انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے ہمیں روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : جب بدر کا دن تھا لوگ بڑی جلدی سے غنائم کی طرف بڑھے اور انہوں نے انہیں پالیا ‘ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ان القیمۃ لاتحل لا حدسود الرئوس غیر کم (1) بیشک مال غنیمت تمہارے علاوہ سیاہ بالوں والے کسی بندے کے حلال نہیں کیا گیا۔ تو نبی ﷺ اور ان کے اصحاب جب مال غنیمت حاصل کرتے اور اسے ایک جگہ جمع کردیتے تو آسمان سے ایک آگ اترتی اور اسے کھا جاتی۔ تب اللہ تعالیٰ نے لولا کتب من اللہ سبق دو آیتوں کے آخر تک نازل فرمائی۔ اسے ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور حضرت مجاہد اور حسن رحمۃ اللہ علیہما نے یہی کہا ہے۔ ان دونوں سے بھی اور حضرت سعید بن جبیر سے یہ بھی مروی ہے کہ کتاب سابق سے مراد اللہ تعالیٰ کا اہل بدر کے اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت فرما دینا ہے۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : الکتاب السابق سے مراد اللہ تعالیٰ کا ان کے اس معین گناہ کو معاف فرمادینا ہے (یعنی مال غنیمت کی طرف تیزی سے بڑھنا) لیکن اس میں عموم اصح ہے ‘ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو اہل بدر کے بارے میں فرمایا :” تجھے کون بتائے کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر پر مطلع ہوا اور اس نے فرمایا تم عمل کر رو جو چاہو ‘ تحقیق میں نے تمہاری مغفرت فرمادی ہے “ (2) ۔ اسے مسلم نے بیان کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کتاب سابق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں دے گا آنحا لی کہ محمد ﷺ ان میں موجود ہیں۔ اور یہ قول بھی ہے کہ کتاب سابق یہ ہے کہ وہ کسی کو اس گناہ کے بدلے عذاب نہ دے گا جو اس نے عہد جاہلیت میں کیا یہاں تک کہ وہ پھر اس کی طرف بڑھے (یعنی اسلام کے بعد دو بارہ اس کا ارتکاب کرے) اور ایک گروہ نے کہا ہے : کتاب سابق وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے کے سبب صغیرہ گناہوں کو مٹادینے کے بارے فیصلہ کیا ہے۔ اور علامہ طبری اس طرف گئے ہیں کہ یہ جملہ معانی اس لفظ کے تحت داخل ہیں اور یہ لفظ ان تمام کو شامل ہے۔ اور کسی معنی کی تحصیص کا فائدہ نہیں دے رہا۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : آیت میں اس پر دلیل موجود ہے کہ بندہ جب ان اقوال میں سے کوئی فعل کر بیٹھے جن کے حرام ہونے کا وہ اعتقادرکھتا ہے اور وہ فعل اللہ تعالیٰ کے علم میں اس کے لیے حلال ہو تو اس پر کوئی سزا نہیں ‘ جیسا کہ روزے دار جب کہے : یہ میرے سفر کا دن ہے پس میں اب روزہ افطار کرتا ہوں یا عورت کہتی ہے : یہ میرے حیض کا دن ہے پس میں روزہ افطار کرتی ہوں ‘ پھر دونوں نے عملاً ایسا کرلیا اور سفر اور حیض دونوں روزہ افطار کرنے کا موجب ہیں۔ تو اس بارے میں مشہور مذہب یہ ہے کہ اس میں کفارہ ہے۔ اور یہی امام شافعی (رح) نے کہا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ اور یہ دوسری روایت ہے۔ پہلی روایت کی وجہ یہ ہے کہ اباحت کے طرق تحریم کی سزا میں عذر ثاب ت نہیں کرتے جب اس حرام کا ارتکاب کیا جائے ‘ جیسا کہ اگر کوئی کسی عورت سے پہلے وطی کرے اور پھر اس سے نکاح کرلے۔ اور دوسری روایت کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دن کی حرمت ساقط ہوچکی ہے پس اس نے ہتک کا ارتکاب ایسے محل میں کیا ہے جو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے علم میں حرام نہیں ہے ‘ پس یہ اس کے قائم مقام ہوگیا کہ اگر کوئی عورت سے وطی کرنے کا قصد کرے جو اسکی طرف شب زفاف بھیجی گئی اور وہ اس کی بارے یہ اعتقادرکھتا ہو کہ وہ اسکی بیوی نہیں ہے جب کہ وہی اس کی بیوی ہو۔ اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ اور پہلی تعلیل لازم نہ آئے گی ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہمارے علم کے ساتھ تحریم کے مسئلہ میں برابر ہے۔ اور ہمارے مسئلہ میں ہمارا علم اور اللہ تعالیٰ کا علم مختلف ہیں پس اس کا حکم اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوگا (1) ‘ جیسا کہ اس نے فرمایا : لو لا کتب من اللہ سبق لمسکم فیمآ اخذتم عذاب عظیم۔
Top