Al-Qurtubi - Al-Ghaashiya : 4
تَصْلٰى نَارًا حَامِیَةًۙ
تَصْلٰى : داخل ہوں گے نَارًا : آگ حَامِيَةً : دہکتی ہوئی
دہکتی آگ میں داخل ہوں گے
تصلی ناراحامیہ۔ ان چہروں کو آگ کی تپش اور لپک پہنچے گی، حامیہ سے مراد سخت گرم ہے یعنی اسے طویل مدت تک روشن کیا گیا اور جلایا گیا اسی سے یہ جملہ بولا جاتا ہے، حمی النھار حمی التنور حمیا۔ یعنی اس کی گرمی شدید ہوگی، کسائی نے کہا، اشتد حمی الشمس وحموھا کا معنی ایک ہی ہے ابوعمرو، ابوبکر اور یعقوب نے ضمہ کے ساتھ تصلی پڑھا ہے جبکہ باقی قراء نے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اسے تصلی بھی پڑھا گیا ہے اس بارے میں گفتگو، اذالسماء انشقت۔ میں پہلے گزرچکی ہے ماوردی نے کہا، اگر یہ کہا جائے اس کی صفت حمی سے لگانے کی کیا وجہ ہے جبکہ قوم آگ تو گرم ہی ہوتی ہے۔ جب کہ یہ تو اس کے احوال میں سے کم حالت ہے تو اس ناقص صفت کے ساتھ مبالغہ کی کیا وجہ ہے ؟ تو جواب دیا جائے گا، حامیہ سے مراد یہاں چار وجوہ سے مختلف ہے۔ (1) اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ گرم ہوگی یہ دنیا کی آگ جیسی نہ ہوگی کہ جس کی گرمائش بجھانے کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ (2) حامیہ سے مراد یہ ہے کہ یہ ممنوعات کے ارتکاب کی محفوط چراگاہ ہے اور محارم کی پامالی کی محفوظ جگہ ہے جس طرح نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، ان لکل ملک حمی وان حمی اللہ محارمہ ومن یرتع حول الجمی یوشک ان یقع فیہ۔ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں جو آدمی چراگاہ کے اردگرد چرتا ہے ممکن ہے کہ وہ اسمیں جاواقع ہو۔ (3) وہ اپنے آپ کو محفوط رکھتی ہے کہ کوئی اس کو چھوسکے یا اس کو مس کرنے کا قصد کرے جس طرح شیر اپنی کچھار کی حفاظت کرتا ہے، اس کی مثل نابغہ کا شعر ہے۔ تعدوالذئاب علی من لاکلاب لہ، وتتقی صولۃ المستاسید الحامی۔ بھیڑیے اس پر حملہ کرتے ہیں جس کے کتے نہیں ہوتے اور شیر دل حفاظت کرنے والے کے حملہ سے بچتے ہیں۔ (4) وہ غضبناک ہے انتقام کی شدت میں مبالغہ کرنے والی ہے اس سے کسی شے یا ذات کا گرم ہونا مراد نہیں جس طرح کہا جاتا ہے، قد حمی فلان جب وہ انتقام کے ارادہ سے غضبناک ہو، اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد کے ساتھ اس معنی کو واضح کیا فرمایا تکاد تمیز من الغیظ۔ ملک 8) قریب ہے غصہ سے پھٹ جائے۔
Top