Al-Qurtubi - At-Tawba : 6
وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى یَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاِنْ : اور اگر اَحَدٌ : کوئی مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین اسْتَجَارَكَ : آپ سے پناہ مانگے فَاَجِرْهُ : تو اسے پناہ دیدو حَتّٰي : یہانتک کہ يَسْمَعَ : وہ سن لے كَلٰمَ اللّٰهِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر اَبْلِغْهُ : اسے پہنچا دیں مَاْمَنَهٗ : اس کی امن کی جگہ ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو ۔ اس لئے کہ یہ بیخبر لوگ ہیں۔
مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : وان احد منالمشرکین یعنی ان میں سے جنہیں قتل کرنے کے بارے میں آپ کو حکم دیا ہے۔ استجارک یعنی آپ اس سے پناہ طلب کرے، یعنی آپ کی امان اور آپ کی ذمہ داری کا مطالبہ کرے، تو ان سے وہ امان عطا فرمادیجئے تاکہ وہ قرآن کریم کو سنے، یعنی اس کے احکام اور اس کے اوا مر ونواہی کو سمجھے۔ پس اگر اس نے ایک امر بھی قبول کرلیا تو یہ اچھا ہے اور اگر وہ انکار کردے تو پھر اسے ان کی امن گاہ تک پہنچا دو (1) اور یہ وہ ہے جو میں کوئی اختلاف نہیں۔ واللہ اعلم امام مالک (رح) نے کہا ہے : جب مسلمان ملکوں کے راستے میں کوئی حربی پایا گیا اور نے کہا : میں امان طلب کرنے کے لیے آیا ہوں ْ ۔ امام مالک رحمتہ اللہ نے فرمایا : یہ مشتبہ ہیں (2) اور میری رائے یہ ہے کہ اسے اس کی امان گاہ کی طرف لوٹا دیا جائے۔ اور ابن قاسم نے کہا ہے : سی طرح وہ ہے جو پایا جائے در آنحا لی کہ وہ تجارت کے لیے ہمارے ساحل پر اترا ہو اور کہتا ہو : مرا گمان یہ تھا کہ تم اس کے ساتھ تعرض نہیں کروگے جو تجارت کے لیے آئے یہاں تک کہ وہ (سامان) بیچ لے۔ ظاہر آیت بلاشبہ اسی کے بارے میں ہے جو قرآن کریم سننے اور دین اسلام میں نظروفکر کا ارادہ رکھتا ہے۔ رہا اس کے علاوہ کسی پناہ دینا تو تو یہ مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر ہے اور ان امور میں نظر و فکر کے اعتبار سے جن کی منفعت اور فوائد اس کے سبب انہیں پہنچیں۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ تمام علماء کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ سلطان وقت کی امان جائز ہے، کیونکہ وہ نظر و فکر اور مصلحت کو پیش نظر رکھنے کے اعتبار سے آگے اور مقدم ہے۔ اور منافع کے حصول اور نقصانات کو دور کرنے میں تمام کا نائب ہے، البتہ غیر خلیفہ کی امان میں اختلاف ہے۔ پس رہا غلام تو مشہور مذہب میں اس کی امان جائز ہے۔ امام شافعی اور آپ کے اصحاب امام احمد، اسحاق، اور زاعی، ثوری، ابو ثور، دائود اور محمد بن حسن رحمتہ اللہ علیہم نے یہی کہا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : غلام کی مان جائز نہیں ہے اور یہی ہمارے علماء کا دوسرا قول ہے۔ اور پہلا قول اصح ہے : کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : مسلمانوں کے خون کی نگرانی اور دفاع کیا جائے گا اور ان کے ادنی ان کے ذہ کے بارے میں کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے : جب آپ ﷺ نے ادناھم فرمایا ہے (تو یہ اس طرف اشارہ ہے) کہ غلام کی امان جائز ہے۔ اور ازاد عورت اس کے زیادہ لائق اور مناسب ہے اور اس علت کا کوئی اعتبار نہیں کہ ” اس کے لیے یعنی غلام کے لیے وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا “۔ اور عبعدالملک بن ماجشون نے کہا ہے : عورت کی امان جائز نہیں ہوتی مگر یہ کہ امام وقت اس کی اجازت دے اور یہ اپنے اس قول کے ساتھ جمہو سے الگ اور جدا ہیں۔ اور جہاں تک بچے کا تعلق ہے تو جب وہ قتال کی طاقت رکھتا ہو تو اس کی امان جائز ہے، کیونکہوہ بھی من جملہ قتال کرنے والوں کے ہوتا ہے اور حفاظت کرنے والے گروہ میں داخل ہے۔ اور حضرت ضحاک اور سدی رحمتہ اللہ علیہم اس طرف گئے ہیں کہ آیت قول باری تعالیٰ : فاقتلوا المشرکین کے ساتھ منسوخ ہے۔ اور حسن نے کہا ہے : یہ آیت محکم ہے اور قیامت تک ثابت ہے۔ اور یہ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس آیت کا حکم ان چار ماہ کی مدت باقی رہا جو مدت ان کے لیے بیان کی گئی اور یہ کوئی شے نہیں ہے۔ اور حضرت سعید بن جبیر نے بیان کیا ہے کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے پاس آیا اور کہا : اگر ہم میں سے کوئی آدمی چار ماہ گزرنے کے بعد حضرت محمد ﷺ کے پاس آنے کا ارادہ کرلے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سننے یا کسی حاجت کے لیے آپ کے آئے تو وہ قتل کردیا جائے گا ؟ تو حضرت علی ؓ نے فرمایا : نہیں، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : وان احد من المشرکین استجارک فاجره حتى يسمع کلم اللہ اور یہی صحیح ہے اور آیت محکم ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ وان احد، احد مرفوع ہے اسی طرح کے فعل مضمر کے سبب جو اس کے بعد ہے اور یہ ان میں تو اچھا ہے لیکن اس کے اخوات میں قبیح ہے۔ ان اور اس کے اخوات کے درمیاں فرق کے بارے میں سیبو کا مذہب ہے کہ یہ جب حروف شرط کی اصل ہے تو اسے اس کے ساتھ خاص کردیا گیا ہے اور اس لیے بھی کہ یہ وصف اس کے علاوہ میں نہیں ہوتا۔ محمد بن یزید نے کہا ہے کہ ان کا قول لانھا لاتکون فی غیرہ یہ غلط ہے، کیونکہ یہ (ان) بمعنی ما ہوتا ہے اور ثقیلہ سے مخففہ ہوتا ہے لیکن یہ مبہم ہے اور اس کے سوا دوسرے اس طرح نہیں۔ اور سیبویہ نے شعر کہا ہے : لا تجزی ان منفسا اھلکتہ واذ ھلکت فعند ذالک فاجزعی مسئلہ نمبر 4 علماء نے کہا ہے : قول باری تعالیٰ : حتی یسمع کلم اللہ میں اس پر دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قاری کی قراءت کے وقت سنا جائے۔ یہ شیخ ابو الحسن، قاضٰ ابو بکر، ابع الع اس القلاسی، ابن مجاہد اور ابو اسحاق الاسفر ائنی رحمتہ اللہ علیہم اور ان کے علاوہ نے کہا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حتی یسمع کلم اللہ پس یہ اس پر نص ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کے کلام ہونے کی وجہ سے قاری کو قراءت کے وقت سنا جائے۔ اور اس پر مسلمانوں کا اجماع بھی دلالت کرتا ہے اور امرء القیس کا شعر پڑھے جانے کے درمیان فرق کیا ہے۔ اور کلام اللہ تعالیٰ کے معنی سورة بقرہ میں گزر چکے ہیں اور یہ کہ نہ اس کے حروف اور نہ آواز۔ والحمد للہ
Top