Al-Qurtubi - At-Tawba : 62
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ
يَحْلِفُوْنَ : وہ قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی لَكُمْ : تمہارے لیے لِيُرْضُوْكُمْ : تاکہ تمہیں خوش کریں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَحَقُّ : زیادہ حق اَنْ : کہ يُّرْضُوْهُ : وہ ان کو خوش کریں اِنْ : اگر كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے ہیں
(مومنو ! ) یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں۔ حالانکہ اگر یہ (دل سے) مومن ہوتے تو خدا اور اسکے پیغمبر ﷺ خوش کرنے کے زیادہ مستحق ہیں۔
آیت نمبر : 62۔ اس آیت میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) روایت ہے کہ منافقین کی ایک قوم جمع ہوئی، ان میں جلاس بن سودی، ودیعہ ابن ثابت تھے اور ان میں انصار کا غلام بھی تھا جسے عامر بن قیس پکارا جاتا تھا، تو انہوں نے اسے بہت حقیر قرار دیا اور گفتگو کرتے ہیں انہوں نے کہا : اگر وہ حق ہے جو محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں تو یقینا ہم گدھوں سے زیادہ شریر ہیں، تو وہ غلام غضب ناک ہوگیا اور اس نے کہا : قسم بخدا بلاشبہ جو وہ کہتے ہیں وہ حق ہے اور تم گدھوں سے زیادہ شریر ہو، پھر اس نے اس کے قول کے بارے حضور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کو خبر دی تو انہوں نے قسم اٹھا دی کہ عامرجھو ٹا ہے تو عامر نے کہا : وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور اس پر اس نے قسم کھائی اور کہا : اے اللہ ! تو ہمیں متفرق نہ کرنا یہاں تک کہ سچ بولنے والے کا سچ اور جھوٹ بولنے والے کا جھوٹ واضح اور ظاہر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اس میں ہے (آیت) ” یحلفون باللہ لکم لیرضوکم “۔ (1) (اسباب النزول : صفحہ 130) مسئلہ نمبر : (2) قول تعالیٰ : واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ “۔ یہ مبتدا اور خبر ہے اور سیبویہ کا مذہب ہے کہ تقدیر عبارت ہے : واللہ احق ان یرضوہ ورسولہ احق ان یرضوہ “۔ (حالانکہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ وہ اسے رضی کریں اور اس کا رسول زیادہ حق رکھتا ہے کہ وہ اسے رضی کریں) پھر اس سے کلام کو حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ بعض نے کہا ہے : نحن بما عندنا وانت بما عندک راضی والرای مختلف (2) (المحرر الوجیز، جلد 11، صفحہ 53 دارالکتب العلمیہ) ہم اس کے ساتھ جو ہمارے پا سہے اور تو اس کے ساتھ جو تیرے پاس ہے راضی ہیں اور رائے مختلف ہے۔ اور محمد بن یزید نے کہا ہے : کلام میں کوئی عبارت محذوف نہیں ہے اور تقدیر عبارت، واللہ احق ان یرضوہ ورسولہ ‘(اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ وہ راضی کریں اور اس کے رسول کو) یہ تقدیم وتاخیر کی بنا پر ہے، اور فراء نے کہا ہے : اس کا معنی ہے ورسولہ احق ان یرضوہ اور لفظ اللہ افتتاح کلام میں ہے، جیسے تو کہتا ہے : ما شاء اللہ وشئت (جو اللہ تعالیٰ چاہے اور تو چاہے) نحاس نے کہا ہے : سیبویہ کا قول ان میں سے اولی ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے صحیح روایت میں اس سے نہیں وارد ہے کہ یہ کہا جائے، ما شاء اللہ وشئت اور کسی شی میں تقدیم وتاخیر مقدر نہیں کی جاسکتی اور اس کا معنی صحیح ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں، کہا گیا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کو انکی رضا میں رکھا ہے، کیا آپ جانتے نہیں کہ اس نے فرمایا ہے : (آیت) ” من یطع الرسول فقد اطاع اللہ “۔ (النسائ : 80) (جس نے اطاعت کی رسول کی تو یقینا اس نے اطاعت کی اللہ کی) اور ربیع بن خثیم جب اس آیت سے گزرتے تو وقف کرتے اور کہتے : ایک حرف ہے اور کتنا ہی شاندار حرف ہے۔ ان کے سپرد کردیا گیا ہے پس وہ ہمیں خیر کے سوا کوئی حکم نہیں دیں گے۔ مسئلہ نمبر : (3) ہمارے علماء نے کہا ہے : یہ آیت قسم کھانے والے کی قسم کو قبول کرنے کو متضمن ہے اگرچہ محلوف لہ کی رضا مندی لازم نہیں اور قسم مدعی کا حق ہے، اور یہ اس کو متضمن ہے کہ قسم اللہ تعالیٰ کی ہو جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا ” جو قسم اٹھائے تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائے یا خاموش رہے اور وہ جس کے لیے قسم اٹھاتا ہے پس اسے چاہیے کہ وہ اس کی تصدیق کرے “ (1) (صحیح بخاری، کتاب الایمان، جلد 2، صفحہ 983) قسم اور اس میں استثنا کے متعلق مکمل بحث سورة المائدہ میں گزر چکی ہے۔
Top