Kashf-ur-Rahman - Nooh : 5
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَجَآءَ : اور آئے الْمُعَذِّرُوْنَ : بہانہ بنانے والے مِنَ : سے الْاَعْرَابِ : دیہاتی (جمع) لِيُؤْذَنَ : کہ رخصت دی جائے لَهُمْ : ان کو وَقَعَدَ : بیٹھ رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَبُوا : جھوٹ بولا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول سَيُصِيْبُ : عنقریب پہنچے گا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا مِنْهُمْ : ان سے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور صحرا نشینوں میں سے بھی کچھ لوگ عذر کرتے ہوئے (تمہارے پاس) آئے کہ ان کو بھی اجازت دی جائے۔ اور جنہوں نے خدا اور اس کے رسول ﷺ سے جھُوٹ بولا وہ (گھر میں) بیٹھ رہے۔ سو جو لوگ ان میں سے کافر ہوئے انکو دکھ دینے والا عذاب پہنچے گا۔
آیت نمبر 90۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) وجاء المعذرون من الاعراب، اعرج اور ضحاک نے تخفیف کے ساتھ المعذرون پڑھا ہے۔ اور ابو کریب نے اسے ابوبکر سے اور انہوں نے عاصم سے روایت کیا ہے اور اسے اصحاب القراء ات نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ جوہری نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ وجاء المعذرون تخفیف کے ساتھ پڑھتے تھے (1) (تفسیرطبری، جلد 10، صفحہ 236) ، یہ اعذر سے ہے۔ اور کہتے : قسم بخدا ! یہ اسی طرح نازل کیا گیا ہے۔ نحاس نے کہا ہے : مگر یہ کہ اس (قراءت) کا مدار کلبی پر ہے۔ اور یہ اعذر سے ہے، اور اسی سے ہے قد اعذر من انذر یعنی جو آپ کے پاس آیا اس نے عذر میں اتنامبالغہ اور غلو کیا کہ اس نے آپ کو ڈرادیا۔ اور رہا المعذرون تشدید کے ساتھ تو اس میں دو قول ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ سچ بیان کرنے والا ہو۔ پس یہ المعتذر کے معنی میں ہے، کیونکہ اس کا عذر ہے پس المعذرون اس بنا پر اس کی اصل المعتذرون ہے، لیکن اس میں تا کو ذال سے بدل دیا گیا ہے اور پھر اس میں ادغام کردیا گیا ہے اور اس کی حرکت عین کو دے دی گئی ہے، جیسے یخصمون خا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اور المعذرون اجتماع ساکنین کی وجہ سے عین کے کسرہ کے ساتھ بھی جائز ہے۔ اور میم کی اتباع میں اس کا ضمہ بھی جائز ہے۔ اسے جوہری اور نحاس نے ذکر کیا ہے، مگر یہ کہ نحاس نے اسے اخفش، فراء، ابو حاتم اور ابو عبید سے بیان کیا ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ اصل المعتذرون ہو، پھر تاکو ذال میں ادغام کردیا گیا۔ اور یہ وہ لوگ ہوں گے جن کا عذر ہو۔ لبید نے کہا ہے : الی الحول ثم اسم السلام علیکما ومن یمک حولاکاملافقد اعتذر (2) (تفسیرطبری، جلد 10، صفحہ 236) اس میں اعتذر حقیقی عذروالے کے معنی میں ہی ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ المعذر کبھی اپنے عذر میں سچا نہیں ہوتا اور یہ وہ ہوتا ہے جو بہانہ بناتا ہے اور اس کا عذر نہیں ہوتا۔ جوہری نے کہا ہے یہ معذر، مفعل کے وزن پر ہے، کیونکہ یہ بیماری کا بہانہ بنانے والا اور کوتاہی کرنے والا ہوتا ہے یہ بغیرعذر کے عذر پیش کرتا ہے۔ اور دوسروں نے کہا : کہا جاتا ہے عذر فلان فی امر کذا تعذیرا یعنی اس نے کوتاہی کی اور اس میں مبالغہ نہیں کیا۔ اور معنی یہ ہے کہ انہوں نے جھوٹے عذر پیش کیے۔ جوہری نے کہا ہے : حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے : لعن اللہ المعذرین (اللہ تعالیٰ نے بہانے بنانے والوں پر لعنت کی ہے) گویا ان کے نزدیک امر یہ ہے کہ معذر تشدید کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے عذر کو ظاہر کرنے والا، بہانہ بناتے ہوئے اس کے عذر میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ نحاس نے کہا ہے : ابوالعباس محمد بن یزید نے کہا ہے : یہ جائز نہیں ہے کہ اس میں اصل المعتذرون ہو، اور نہ ادغام جائز ہے کہ اس سے التباس واقع ہوجاتا ہے۔ اسماعیل بن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ خلیل اور سیبویہ کے قول کے مطابق ادغام سے اجتناب کیا گیا ہے کیونکہ سیاق کلام اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی مذمت کی گئی ہے ان کا کوئی عذر نہیں ہے، فرمایا : کیونکہ وہ آئے تاکہ انہیں اجازت دی جائے۔ اور وہ ضعیف اور مریض ہوتے اور وہ ہوتے جو خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتے تو انہیں اجازت طلب کرنے کی حاجت اور ضرورت نہ تھی۔ نحاس نے کہا ہے : معذرۃ، اعذار اور تعذیر کی اصل ایک شی سے ہے اور وہ اس میں سے ہے جو مشکل اور متعذر ہوتی ہے۔ اور عربوں کا قول ہے : من عذیری من فلان اس کا معنی ہے تحقیق اس نے امر کو عظیم سر انجام دیا وہ یہ استحقاق رکھتا ہے کہ میں اسے اس پر اچھا بدلہ دوں اور لوگوں کو اس کے بارے علم نہ ہو (پس کون مجھے معذور جانے گا) اگر میں نے اسے اچھا بدلہ دیا۔ پس تخفیف کی قراءت کے مطابق حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : یہ وہ لوگ ہیں جو بہانے کے ساتھ پیچھے رہ گئے تو حضور ﷺ نے انہیں اجازت عطا فرمادی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ عامر بن طفیل کا گروہ تھا (1) (معالم التنزیل، جلد 3، صفحہ 93) انہوں نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ! اگر ہم آپ کی معیت میں جنگ میں شریک ہوں تو طئی قبیلے کے بدو ہماری بیویوں، ہماری اولاد اور ہمارے مویشیوں پر حملہ کردیں گے تو حضور ﷺ نے ان کے عذر کو قبول کرلیا۔ اور تشدید کی قراءت کی بنا پر دوسرے قول میں کہا ہے : وہ غفار قبیلے کے لوگ تھے انہوں نے اپنے عذر پیش کیے تو حضور ﷺ نے ان کے عذروں کو قبول نہ کیا، کیونکہ آپ ﷺ کے علم تھا کہ وہ سچے نہیں ہیں۔ واللہ اعلم۔ اور ایک قوم بغیر عذر کے بیٹھ گئی انہوں نے رسول اللہ ﷺ پر جرأت کرتے ہوئے اس کا اظہار کیا اور یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے اور فرمایا : (آیت) وقعدالذین کذبوا اللہ ورسولہ ان کے جھوٹ سے مراد ان کا یہ قول ہے : بیشک ہم مومن ہیں اور لیوئذن کالام کی کے سبب نصب دی گئی ہے۔
Top