Al-Qurtubi - At-Tawba : 99
وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ١ؕ سَیُدْخِلُهُمُ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَمِنَ : اور سے (بعض) الْاَعْرَابِ : دیہاتی مَنْ : جو يُّؤْمِنُ : ایمان رکھتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخرت کا دن وَيَتَّخِذُ : اور سمجھتے ہیں مَا يُنْفِقُ : جو وہ خرچ کریں قُرُبٰتٍ : نزدیکیاں عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ سے وَ : اور صَلَوٰتِ : دعائیں الرَّسُوْلِ : رسول اَلَآ : ہاں ہاں اِنَّهَا : یقیناً وہ قُرْبَةٌ : نزدیکی لَّھُمْ : ان کے لیے سَيُدْخِلُھُمُ : جلد داخل کریگا انہیں اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور بعض دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو خدا کی قربت اور پیغمبر کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں دیکھو وہ بےشبہہ ان کے لئے (موجب) قربت ہے۔ خدا ان کو عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر 99 قولہ تعالیٰ : (آیت) ومن الاعراب من یوء من باللہ اور کچھ دیہاتیوں میں سے وہ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو سچ تسلیم کیا ہے اور ان سے مراد مزینہ قبیلے کے بنو مقرن ہیں۔ اس کا ذکر مہدوی نے کہا ہے۔ قربات یہ قربۃ کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ شی ہے جس کے سبب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اور جمع قرب، قربات، قربات، اور قربات ہے۔ اسے نحاس نے بیان کیا ہے۔ اور القربات ضمہ کے ساتھ ہو تو مراد وہ شے ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوا جاتا ہے۔ اسی سے آپ کہتے ہیں : قربت اللہ قربانا (میں اللہ تعالیٰ کے انتہائی قریب ہوا) اور القربۃ قاف کے کسرہ کے ساتھ ہو تو مراد وہ مشکیزہ ہے جس میں پانی بھر جاتا ہے۔ یہ تھوڑی تعداد میں ہوں تو جمع قربات، قربات، اور قربات آتی ہے، اور کثیر تعداد کے لیے قرب آتی ہے۔ اور اسی طرح ہر اس کی جمع آتی ہے جو فعلۃ کے وزن پر ہو، مثلاسدرۃ اور فقرۃ، تیرے لیے عین کلمہ کو فتحہ دینا، کسرہ دینا اور سکون دیناسب جائز ہے۔ اسے جوہری نے بیان کیا ہے۔ اور نافع نے ورش کی روایت میں قربۃ را کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ اصل ہے۔ اور باقیوں نے اسے تخفیفا سکون کے ساتھ پڑھا ہے، مثلاکتب اور رسل اور قربات میں کوئی اختلاف نہیں۔ ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ یزید بن القعنقاع نے الاانھا قربۃ لھم پڑھا ہے۔ اور وصلوت الرسول کا معنی رسول کا استغفار کرنا اور دعا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ھوالذی یصلی علیکم وملئکتہ (الاحزاب : 43) (اللہ وہ ہے جو رحمت نازل کرتا ہے تم پر اور اس کے فرشتے بھی (تم پر نزول رحمت کی دعا کرتے ہیں) اور ملائکہ کی طرف سے صلوۃ کا مطلب دعا کرنا ہے (1) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1002) ۔ اور اسی طرح یہ حضور ﷺ کی نسبت سے بھی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (آیت) وصل علیھم ان صلوتک سکن لھم (التوبہ : 103) (نیز دعا مانگیے ان کے لیے بیشک آپ کی دعا (ہزار) تسکین کا باعث ہے ان کے لیے) یعنی آپ کی دعا ان کے لیے ثابت قدمی اور طمانیت کا باعث ہے۔ (آیت) الا انھاقربۃ لھم یعنی ان کے اخراجات انہیں اللہ تعالیٰ کے رحمت کے قریب کرتے ہیں۔
Top