Ruh-ul-Quran - Yunus : 32
فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ١ۚ فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ١ۖۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ
فَذٰلِكُمُ : پس یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمُ : تمہارا رب الْحَقُّ : سچا فَمَاذَا : پھر کیا رہ گیا بَعْدَ الْحَقِّ : سچ کے بعد اِلَّا : سوائے الضَّلٰلُ : گمراہی فَاَنّٰى : پس کدھر تُصْرَفُوْنَ : تم پھرے جاتے ہو
یہ ہے اللہ تعالیٰ جو تمہارا حقیقی رب ہے۔ تو حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا ہے، تو کہاں تمہاری عقل الٹ جاتی ہے۔
فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ ج فَمَاذَا بَعْدَالْحَقِّ اِلاَّ الضَّلٰلُ صلے جفَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ ۔ (یونس : 32) (یہ ہے اللہ تعالیٰ جو تمہارا حقیقی رب ہے۔ تو حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا ہے، تو کہاں تمہاری عقل الٹ جاتی ہے۔ ) مشرکینِ عرب کے مذہب کی تاریخ جو ہم تک پہنچی ہے اور جس کی طرف قرآن کریم بھی جابجا اشارے کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف خالق و رازق، سمع و بصر کا مالک اور زندگی اور موت کا منبع مانتے تھے بلکہ کائنات کا مدبر اور منتظم بھی اسی کو تصور کرتے تھے۔ وہ اپنے بتوں اور دوسرے شرکاء کو اللہ تعالیٰ کی ان صفات میں شریک نہیں سمجھتے تھے اور نہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود جانتے تھے۔ البتہ ان کے ذہن میں جو فکری خرابی پیدا ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ ساری کائنات کا انتظام و انصرام تنہا ایک ذات کیسے کرسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو عرش معلی پر رونق افروز ہے، اسے ساری کائنات اور اہل زمین کے ایک ایک فرد کے بارے میں ہر وقت تفصیل کیسے معلوم ہوسکتی ہے، اس نے یقینا ایک بادشاہ کی طرح اپنے مقربین کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں اور ان کے ذمہ کچھ فرائض لگا رکھے ہیں مثلاً کسی کو اولاد دینے کا حق دے دیا ہے، کسی کو رزق میں اضافہ کرنے کا اور کسی کو مصیبتوں سے نجات دینے کا۔ یہ اگرچہ اپنے اختیارات میں اللہ تعالیٰ کے ماتحت بھی ہیں اور محکوم بھی، لیکن چونکہ انھیں ایک تقرب حاصل ہے اس لیے پروردگار ان سے بازپرس نہیں کرتا۔ وہ ایک طرح سے اپنے کاموں میں آزاد ہیں۔ یہ ایک جاہلانہ تصور تھا جس نے ان میں شرک کی چند درچند شکلیں پیدا کردی تھیں۔ ایک اور غلط فہمی جو ہمیشہ مشرک قوموں میں موجود رہی ہے اور مشرکینِ مکہ میں بھی تھی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اصل بنائے فساد ہی یہ تھی تو غلط نہیں ہوگا۔ وہ غلط فہمی یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو خالق ومالک، منتظم اور مدبر تو مانتے تھے لیکن اسے حاکم حقیقی اور آقائے کل تسلیم نہیں کرتے تھے۔ قرآن کریم سب سے زیادہ جس بات پر زور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اللہ جو تمہارا خالق ہے وہی تمہارا رزق رساں بھی ہے اسی نے زندگی کی تمام ضرورتیں تمہیں مہیا کی ہیں۔ زندگی کے مختلف ادوار میں کوئی دور ایسا نہیں جس میں اس نے بدلتی ہوئی ضرورتوں کا لحاظ نہ فرمایا ہو اور پھر ضرورتوں کے اعتبار سے اس کی ہمہ گیری کا عالم یہ ہے کہ وہ جس طرح دودھ پیتے بچے کے لیے ماں کے سینے میں دودھ اتارتا ہے اور جب وہ ذرا بڑا ہوتا ہے تو اسے کھانا بھی دیتا ہے اور اسے ہضم کرنے کے لیے معدہ میں قوت بھی عطا کرتا ہے اور بچے کی عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی غذا میں تنوع پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے لیے نئی سے نئی معنوی نعمتوں کو بھی عطا کرتا چلا جاتا ہے۔ جب تلک بچہ حواس سے عاری تھا تو ماں نے اسے گود میں اٹھایا اور اس کی ہر ضرورت کی کفالت کی اور جب وہ بڑا ہوا تو اسے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تو قدرت نے بھی اس کے اندر حواس کا نور روشن کردیا اور جب وہ سکول کی عمر کو پہنچا تو آہستہ آہستہ اس کے اندر عقل کا چراغ جلنے لگا۔ جسم کی جیسے جیسے ضرورتیں بڑھتی گئیں ویسے ویسے حواس بھی پختہ ہوتے گئے اور عقل بھی تیز ہوتی گئی لیکن جب بلوغ کے بعد وقت آیا خیر و شر میں امتیاز کا، حسن قبح کی معرفت کا، کائنات کی حقیقت کے ادراک کا، اخلاقی مسلمات کے جاننے کا، کائناتی اور فطری اصولوں کی شناخت کا اور قوموں کی زندگی میں اجتماعی اخلاق کی تاثیر کے علم کا تو اللہ تعالیٰ نے وحی الٰہی سے انسان کو نوازا۔ پاکیزہ صفت، پاکیزہ شعار، پاکیزہ اخلاق اور دلآویز شخصیتوں کے مالک اور نمونے کے لوگ رسول بنا کر اٹھائے، کتابیں اتاریں۔ اس طرح سے اس نے انسان کی ہمہ نوعی ضرورتوں کو پورا فرما کر یہ تصور دیا کہ وہ تمہارا خالق ومالک جو تمہاری جسمانی ضرورتوں کے لیے فیضانِ ربوبیت رکھتا ہے وہ تمہاری معنوی اور روحانی ضرورتوں کے لیے بھی ایسی ہی رحمت کی نظر رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے اس معنوی اور روحانی فیضان سے انسان کو کبھی محروم نہیں رکھا۔ بنا بریں ضروری ہے کہ جس طرح تم اپنے وجود کو دیکھ کر اللہ کے خالق ہونے کا یقین رکھتے ہو اور جس طرح کائنات کے نظام میں نظم و ترتیب کو دیکھ کر اللہ کے مدبر ہونے کو تسلیم کرتے ہو، اسی طرح تمہیں یہ اقرار کرنا چاہیے کہ جس نے تمہاری روحانی اور معنوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے سلسلہ رسالت چلایا ہے اور وحی الٰہی کا نور روشن کیا ہے وہ تمہار اس حوالے سے بھی رب ہے اور یہی وہ رب ہے جو تمہارا حاکم حقیقی ہے کیونکہ ایک حاکم ِ حقیقی ہی تمام ضرورتوں کو مہیا کرنے والا اور اس کو بروئے کار لانے والا ہوسکتا ہے۔ وہ تمہارا آقائے حقیقی بھی ہے کیونکہ تم اسی کے بندے اور غلام ہو جس طرح تم اس کا کھاتے اور پیتے ہو، اس کی نعمتوں سے حظ اٹھاتے ہو اور اس کی عطا کردہ زندگی سے متمتع ہوتے ہو اسی طرح تم پر لازم ہے کہ اس کے احکام کو مانو، اس کی حکومت کو تسلیم کرو، اس کے نازل کردہ آئین و قوانین کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرو اور اگر تم کھاتے تو اس کا ہو لیکن گاتے کسی اور کا ہو، شادکام تو اس کی نعمتوں سے ہوتے ہو لیکن زندگی کسی اور کی مرضی سے گزارتے اور تمہارے دل و دماغ اور تمہاری صلاحیتوں پر حکمرانی کسی اور کی ہے تو یہ وہ شرک اور دوئی کا تصور ہے جسے پروردگار قبول نہیں کرتاکیون کہ : باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول تم اسی کے بندے ہو، تو بندگی میں تقسیم نہیں ہوسکتی اور وہ تمہارا آقا ہے تو اس کی آقائی میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔ جب تک تم اس حقیقت کو نہیں سمجھو گے اس وقت تک تمہاری زندگی سے شرک نکل نہیں سکے گا اور تم کہیں نہ کہیں شرک میں ملوث ہوتے رہو گے۔ اس کا کیا کیا جائے کہ قرآن کریم مشرکین کے جس رویئے پر جابجا تنقید کرتا ہے اور ان کے شرک کی مختلف اقسام پر نہایت برہمی کا اظہار کرتا ہے۔ ان میں سے بیشتر شرک کی صورتیں ایسی ہیں جن میں آج مسلمان بھی ملوث ہیں لیکن دکھ یہ ہے کہ بیشتر مسلمانوں کو اس کا احساس نہیں۔ انھوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم چونکہ آخری امت ہیں اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے ہم چاہے کیسے بھی شرک میں مبتلا ہوجائیں ہمارے ایمان اور اسلام کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اس سلسلے میں خود کچھعرض کرنے کی بجائے مولانا الطاف حسین حالی کے اشعار نقل کرتا ہوں جس سے شاید ہمیں اپنے بارے میں سوچنے کا موقع ملے۔ کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر کرشمہ جو کو کب میں مانے تو کافر جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
Top