Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Yunus : 7
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَا يَرْجُوْنَ
: امید نہیں رکھتے
لِقَآءَنَا
: ہمارا ملنا
وَرَضُوْا
: اور وہ راضی ہوگئے
بِالْحَيٰوةِ
: زندگی پر
الدُّنْيَا
: دنیا
وَاطْمَاَنُّوْا
: اور وہ مطمئن ہوگئے
بِهَا
: اس پر
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
ھُمْ
: وہ
عَنْ
: سے
اٰيٰتِنَا
: ہماری آیات
غٰفِلُوْنَ
: غافل (جمع)
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں
اِنَّ الَّذِیْنَ لاَیَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا وَرَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّوْا بِھَا وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ ۔ لا اُولٰٓئِکَ مَاْ وٰھُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ۔ (یونس 7۔ 8) (حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانانارِ جہنم ہے۔ ان برائیوں کی پاداش میں جن کا وہ اکتساب کرتے تھے۔ ) انسان کا اصل روگ اور اس کا صحیح علاج پیشِ نظر آیات کریمہ میں پروردگار آخرت کے ثبوت اور حقیقتِ نفس الامری کے لیے ایک تجرباتی دلیل پیش فرما رہے ہیں جس کی صداقت کی تائید انسانوں کا عمل کرتا ہے اور یہ ایک ایسی پختہ دلیل ہے جو تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور کوئی قوم بھی اس کے اظہار میں پیچھے نہیں رہی۔ امرواقعہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے اعمال کے اعتبار سے دو طرح کے رہے ہیں، اچھے اور برے۔ معاشرے کے لیے مفید اور نقصان دہ۔ انسانیت کی دلیل اور انسانیت کے لیے تہمت۔ قابل فکر اور قابل تقلید اور قابل شرم اور قابل نفرت۔ تاریخ کے ہر دور میں آپ کو ایسے انسان ملیں گے اور آج بھی دنیا ان دونوں طرح کے انسانوں سے بھری ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانوں کی یہ تقسیم ہر دور کی ایک حقیقت رہی ہے اور کسی دور کو آپ اس سے خالی نہیں پاتے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ بہتر انسانوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اچھے انسان پیدا ہوں اور انسانوں کو اچھائی اور بھلائی کی طرف مائل کیا جائے تاکہ انسانیت کی قسمت میں پتھر نہ پڑیں اور انسانی زندگی الجھنوں کی شکار نہ ہو۔ چناچہ ہر دور کی طرح اس دور میں بھی جب 1400 لوگوں نے اس پر غور کیا تو ان کی سوچ کا نتیجہ مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آیا۔ اگر ہم اسے لپیٹ کر بیان کریں تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے انسانوں کے بگاڑ کا ذمہ دار چند عوارض کو ٹھہرایا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر یہ عوارض دور کردیئے جائیں تو انسان کو انسانیت کے جامہ میں لایا جاسکتا ہے۔ وہ عوارض کم و بیش ہوسکتے ہیں لیکن عموماً مندرجہ ذیل عوارض پر سمجھدار لوگوں کا اتفاق رہا۔ (1) جہالت، (2) ضروریات زندگی کا فراہم نہ ہونا یعنی غربت کا عام ہوجانا (3) قانون سے بیخبر ی، (4) قانون کی بالادستی کا فقدان، (5) احتسابی اداروں کا کمزور پڑجانا یا کرپٹ ہوجانا، (6) حکومت کا عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں عوام میں انارکی۔ یہ وہ اسباب ہیں جن پر ہمیشہ اہل دانس کا اتفاق رہا کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی سبب انسانی بگاڑ کا باعث ہوتا ہے اور اگر ان اسباب کو دور کردیا جائے تو انسانی اخلاق اور انسانی رویوں میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ تاریخ کے گزشتہ ادوار کو تو چھوڑیئے لیکن آج کا انسان جن حالات سے گزر رہا ہے انھیں ہم دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ آج کی دنیا تین حصوں میں تقسیم ہے۔ (1) ترقی یافتہ، (2) ترقی پذیر، (3) پسماندہ۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی بحث کو تو چھوڑیئے لیکن ترقی یافتہ ملکوں میں سے بیشتر کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشروں، اپنے سماج اور اپنے ملکوں میں مندرجہ بالا خرابی کے اسباب میں سے کوئی سبب باقی نہیں رہنے دیا۔ علم کی اشاعت کے لیے تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا گیا۔ غربت کے علاج کے لیے گزارہ الائونس مقرر کردیا گیا اور حکومتوں کو رفاہی شکل دے دی گئی۔ جابجا قانونی ادارے کھول دیئے گئے اور وکلاء کی سہولت ہر شخص کو مہیا کردی گئی۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بنادیا گیا اور انصاف کو گھروں کی دہلیز تک پہنچا دیا گیا۔ احتسابی ادارے اس قدر مضبوط ہوگئے کہ جرم کرنے والا ان کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہ سکتا۔ کیمرے کی آنکھ ہر وقت ان کے تعاقب میں رہتی ہے۔ حکومتیں اس قدر مستحکم کردی گئیں کہ وہاں کبھی بحران سر نہیں اٹھاتا۔ اس طرح سے ان اسباب میں سے ایک ایک سبب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے ممالک جنت کا نمونہ بن جائیں اور وہاں کسی شخص کے جان و مال اور عزت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، لیکن نہایت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ملکوں کے سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی طرف سے جو سالانہ رپورٹیں چھپتی ہیں انھیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ رپورٹیں انھیں ملکوں کی ہیں۔ وہاں تو جرائم کی شرح پسماندہ ملکوں کو بھی شرماتی ہے۔ وہاں بھی جان مال اور عزت اسی طرح خطرے میں ہے جیسے پسماندہ ممالک میں، بلکہ انتہائی ترقی یافتہ ممالک جو دنیا پر خدائی کے دعویدار ہیں ان کی خودسری، ظالمانہ روش، انسان دشمنی، انسانوں کی تقسیم اور اپنے ملکی اور قومی مفادات کے لیے دوسرے ملکوں کو ادھیڑ ڈالنا اور ظلم کی داستانیں رقم کردینا جیسی حرکتوں میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ان کی قوت اور تباہی کے وسائل کی وسعت کے سامنے انسانیت کا مستقبل روزبروز تاریک تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ان اسباب کے دور کردینے سے انسان میں بہتری آسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے آج تک انسان کے جن عوارض کو حقیقت میں عوارض سمجھا ہے وہ انسانیت کے عوارض ضرور ہیں لیکن وہ حقیقی نہیں۔ انسان کا مرض کچھ اور ہے اور یہ اسباب صرف اس کے مظاہر ہیں۔ قرآن کریم نے ان آیات کریمہ کو انسان کے اصل روگ کی نشاندہی کی ہے اور پھر اس کا اصل علاج بتایا ہے اور اس کے لیے محض مفروضوں پر گفتگو نہیں کی اور نہ الفاظ کی طلسم آرائی سے کام لیا اور بلکہ اس کے ثبوت کے لیے تاریخ سے گواہی دلوائی ہے۔ پیشتر اس کے کہ میں اس حقیقی روگ کا ذکر کروں جس نے ہمیشہ انسانی زندگی کو تاراج کیا ہے اور اس کا حقیقی علاج آپ کے سامنے لائوں۔ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس علاج پر مبنی ایک تجربہ جو کہ 1400 سال پہلے کیا گیا تھا اس کا آپ سے ذکر کروں۔ اس سے آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ جب ہمارے سامنے ایک کامیاب تجربہ موجود ہے۔ اور جبکہ ہم بار بار کے تجربات سے ناکامی کے زخم اٹھا چکے ہیں تو ہمیں اسے اختیار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔ اس تجربہ کے حوالہ سے یہ بات چیت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جن لوگوں میں اس کا تجربہ کیا گیا ایسا نہیں تھا کہ ان کا بگاڑ معمولی نوعیت کا تھا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ جزیرہ عرب جس کو سب سے پہلے اس تجربہ کے لیے چنا گیا اور پھر اسے بیس (Base) بنا کر باقی پوری نوع انسانی کو وہ نسخہ کیمیا مہیا کیا گیا، وہ نفرتوں، عداوتوں اور جرائم کا جہنم بنا ہوا تھا۔ قدم قدم پر قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔ لوٹ مار کو بہادری اور دل اوری سمجھا جاتا تھا۔ گھر کے باہر انسان کی جان اور گھر کے اندر اس کی عزت و عصمت ہر لمحہ خطرے میں تھی۔ خود اپنے جگر کے ٹکڑوں کو زندہ درگور کرتے ہوئے انھیں کبھی رحم نہیں آتا تھا۔ ماں، باپ اور بہن کے رشتے پامال ہوچکے تھے۔ راہ چلتے قافلے بھی لٹنے سے محفوظ نہیں رہتے تھے۔ انسان اپنی شقاوت اور بدبختی کی انتہا کو پہنچ چکا تھا لیکن تجربہ کرنے والے نے انسانی اصلاح کا جب آغاز کیا تو اس نے نہایت اعتماد کے ساتھ یہ کہا کہ لوگو ! آج جب تم اپنے جزیرے کو جہنم بنا چکے ہو ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ ایک عورت تن تنہا مکہ سے حیرہ تک اکیلی سفر کرے گی اور اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جیسے جیسے یہ تجربہ آگے بڑھتا گیا وہ جزیرہ عرب جہاں کبھی نفرتوں اور عداوتوں کے کانٹے اگتے تھے اور جہاں کسی کی جان و مال اور آبرو کو کوئی پناہ نہیں تھی اسی جزیرے میں محبت و الفت اور امن و آشتی کے پھول کھلنے لگے۔ حتیٰ کہ صرف 23 سال کے عرصہ میں 12 ؍لاکھ مربع میل علاقے میں ایک ایسا کوثر و تسنیم میں دھلا ہوا معاشرہ پروان چڑھا جس کی نظیر چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ تجربہ اور اس کے نتیجے میں پیش آمدہ انقلاب وہ تھا جسے آج سے 1400 سال پہلے سرکارِدوعالم ﷺ نے برپا فرمایا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ اس انقلاب میں علم کی طاقت بھی تھی اور انسانی اختیاج کے دور کرنے کو بھی مناسب جگہ دی گئی تھی۔ اس میں قانون کو بالادست بھی بنایا گیا تھا، اس میں کسی حد تک احتسابی ادارے بھی اپنا کام کررہے تھے لیکن اس میں سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا گیا تھا وہ اس حقیقی مرض کو دور کرنا تھا جس کی وجہ سے ہمیشہ انسان بگڑتا ہے اور پھر اس بگاڑ سے نہ اسے تعلیم روکتی ہے اور نہ دولت مندی اس کا ہاتھ روکتی ہے۔ ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن جو شاہی خاندان کا فرد اور اپنے ملک میں وزیر دفاع بھی رہا اور پھر لارڈ ہونے کی وجہ سے مالی استحکام بھی رکھتا تھا۔ بایں ہمہ یہ چیزیں اس کو جرم کرنے سے نہ روک سکیں اور وہ اپنے ڈیری فارم میں دودھ میں پانی ملاتے ہوئے پکڑا گیا اور عدالت نے اسے جرمانہ کی سزا بھی دی۔ اس کے پاس دولت تھی، علم تھا وہ سب کچھ تھا جو انسان کو بظاہر انسان بننے کے لیے کافی ہے لیکن چونکہ اس کے حقیقی مرض کا علاج نہیں کیا گیا تھا تو وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک صالح انسان نہ بن سکا۔ اقبال مرحوم نے ٹھیک کہا تھا : زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے زندگی سوز جگر ہے علم ہے سوز دماغ اسلام نے یہی سوز جگر دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جرائم کا اصل سبب نہ فقر و افلاس ہے نہ ناخواندگی نہ احتسابی محکموں کی قلت اور نہ قانون سے بےشعوری بلکہ ان جرائم کا اصل سبب وہ بیمار ذہنیت ہے جس نے افق سے افق تک پھیلی ہوئی اس دنیا کو اپنا سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔ جو اس مادی دنیا کے اس طرف جھانکنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور جس کے نزدیک صرف چند روزہ زندگی کے مادی منافع اور نفسانی لذتیں ہی انسان کی معراج ہیں۔ انسان کے ذہن میں جرم کا بیج دراصل اس وقت پڑتا ہے جب وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ میرے نفع و ضرر کی ساری کائنات صرف اسی دنیاوی زندگی میں سمٹی ہوئی ہے اور میری لذت و راحت اور رنج و تکلیف کی انتہا قبر کے کنارے ہونے والی ہے۔ لہٰذا اگر میں نے یہاں زیادہ سے زیادہ دولت زیادہ سے زیادہ شہرت اور زیادہ سے زیادہ لذت و آسائش حاصل نہ کی تو گویا اپنی ساری عمر برباد کردی اور ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ محرومی کا یہ خوف ہی دراصل سارے جرائم کی بنیاد ہے اور یہ خوف اس آخرت ناآشنا ذہنیت سے پیدا ہوتا ہے جو مرنے کے بعد کسی ابدی زندگی کی قائل نہیں۔ جو یہ سمجھتی ہے کہ جب موت میری آنکھیں بند کردے گی تو پھر وہ کبھی نہیں دیکھ سکیں گی۔ جسے آخرت کی پیش گوئیاں معاذاللہ محض افسانہ معلوم ہوتی ہیں یہی خیالات ہیں جو انسان کی ہوس کو بھڑکا بھڑکا کر ایک نہ مٹنے والی بھوک اور نہ بجھنے والی پیاس میں تبدیل کردیتے ہیں پھر انسان کو لذت و راحت کی کسی منزل پر قرار نہیں آتا۔ وہ عیش و آرام کے کسی درجے پر قانع نہیں ہوتا۔ دنیاوی محرومی کا خوف ایک بھوت کی طرح اس کے اعصاب پر مسلط ہوجاتا ہے اور اسے دنیا طلبی کے جنون میں مبتلا کرکے اس مقام پر لے آتا ہے جہاں اپنی اور صرف اپنی ہوس کے تسکین کے سوا زندگی کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے اسے بدتر سے بدتر راستہ اختیار کرتے ہوئے بھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ لہٰذا جب تک یہ بیمار ذہنیت ختم نہ ہو اس وقت تک انسانوں کی کوئی تہذیب جرائم کو ختم نہیں کرسکتی۔ قانون اور اس کی تنفیذ کے ادارے خواہ کتنے ترقی یافتہ ہوجائیں لیکن اگر انسان میں یہ آخرت فراموش ذہنیت باقی ہے تو وہ ان کی ہر چال کا جواب اور ہر تدبیر کا توڑ ایجاد کرتی رہے گی۔ موجودہ دنیا کا تجربہ شاہد ہے کہ جو انسانی ذہانت جرائم کی تحقیق و تفتیش کے ترقی یافتہ طریقے دریافت کرسکتی ہے وہ ارتکابِ جرائم کے نئے نئے ڈھنگ نکالنے پر بھی قادر ہے اور جب آگے بڑھنے کی رفتار دونوں طرف برابر ہو تو مجرم اور اس کا تعاقب کرنے والے کے درمیان ہمیشہ ایک ہی فاصلہ برقرار رہے گا اور اس میں کبھی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ مختصر یہ کہ انسانی سیرت و کردار کی اصلاح کے لیے اگر کوئی نسخہ کامیاب ہوسکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں آخرت کا تصور راسخ کیا جائے اور اسے یقین دلادیا جائے کہ یہاں کی دنیا اصل دنیا نہیں، یہاں کا رنج و راحت ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ ایک ابدی اور پائیدار زندگی آگے آنے والی ہے جسے آخرت کہتے ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیشی ہوگی اور دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اگر آج اس حقیقت کا ادراک نہ کیا گیا اور زندگی من مرضی سے گزاری اور خواہشات نفس کے اتباع کو اپنا معمول بنائے رکھا تو یہ زندگی بھی دکھوں اور مصیبتوں میں گزرے گی اور آخرت میں جہنم ٹھکانا ہوگا۔
Top