Ruh-ul-Quran - Yunus : 7
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہمارا ملنا وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوگئے بِالْحَيٰوةِ : زندگی پر الدُّنْيَا : دنیا وَاطْمَاَنُّوْا : اور وہ مطمئن ہوگئے بِهَا : اس پر وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ ھُمْ : وہ عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری آیات غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں
اِنَّ الَّذِیْنَ لاَیَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا وَرَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّوْا بِھَا وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ ۔ لا اُولٰٓئِکَ مَاْ وٰھُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ۔ (یونس 7۔ 8) (حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانانارِ جہنم ہے۔ ان برائیوں کی پاداش میں جن کا وہ اکتساب کرتے تھے۔ ) انسان کا اصل روگ اور اس کا صحیح علاج پیشِ نظر آیات کریمہ میں پروردگار آخرت کے ثبوت اور حقیقتِ نفس الامری کے لیے ایک تجرباتی دلیل پیش فرما رہے ہیں جس کی صداقت کی تائید انسانوں کا عمل کرتا ہے اور یہ ایک ایسی پختہ دلیل ہے جو تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور کوئی قوم بھی اس کے اظہار میں پیچھے نہیں رہی۔ امرواقعہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے اعمال کے اعتبار سے دو طرح کے رہے ہیں، اچھے اور برے۔ معاشرے کے لیے مفید اور نقصان دہ۔ انسانیت کی دلیل اور انسانیت کے لیے تہمت۔ قابل فکر اور قابل تقلید اور قابل شرم اور قابل نفرت۔ تاریخ کے ہر دور میں آپ کو ایسے انسان ملیں گے اور آج بھی دنیا ان دونوں طرح کے انسانوں سے بھری ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانوں کی یہ تقسیم ہر دور کی ایک حقیقت رہی ہے اور کسی دور کو آپ اس سے خالی نہیں پاتے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ بہتر انسانوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اچھے انسان پیدا ہوں اور انسانوں کو اچھائی اور بھلائی کی طرف مائل کیا جائے تاکہ انسانیت کی قسمت میں پتھر نہ پڑیں اور انسانی زندگی الجھنوں کی شکار نہ ہو۔ چناچہ ہر دور کی طرح اس دور میں بھی جب 1400 لوگوں نے اس پر غور کیا تو ان کی سوچ کا نتیجہ مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آیا۔ اگر ہم اسے لپیٹ کر بیان کریں تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے انسانوں کے بگاڑ کا ذمہ دار چند عوارض کو ٹھہرایا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر یہ عوارض دور کردیئے جائیں تو انسان کو انسانیت کے جامہ میں لایا جاسکتا ہے۔ وہ عوارض کم و بیش ہوسکتے ہیں لیکن عموماً مندرجہ ذیل عوارض پر سمجھدار لوگوں کا اتفاق رہا۔ (1) جہالت، (2) ضروریات زندگی کا فراہم نہ ہونا یعنی غربت کا عام ہوجانا (3) قانون سے بیخبر ی، (4) قانون کی بالادستی کا فقدان، (5) احتسابی اداروں کا کمزور پڑجانا یا کرپٹ ہوجانا، (6) حکومت کا عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں عوام میں انارکی۔ یہ وہ اسباب ہیں جن پر ہمیشہ اہل دانس کا اتفاق رہا کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی سبب انسانی بگاڑ کا باعث ہوتا ہے اور اگر ان اسباب کو دور کردیا جائے تو انسانی اخلاق اور انسانی رویوں میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ تاریخ کے گزشتہ ادوار کو تو چھوڑیئے لیکن آج کا انسان جن حالات سے گزر رہا ہے انھیں ہم دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ آج کی دنیا تین حصوں میں تقسیم ہے۔ (1) ترقی یافتہ، (2) ترقی پذیر، (3) پسماندہ۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی بحث کو تو چھوڑیئے لیکن ترقی یافتہ ملکوں میں سے بیشتر کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشروں، اپنے سماج اور اپنے ملکوں میں مندرجہ بالا خرابی کے اسباب میں سے کوئی سبب باقی نہیں رہنے دیا۔ علم کی اشاعت کے لیے تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا گیا۔ غربت کے علاج کے لیے گزارہ الائونس مقرر کردیا گیا اور حکومتوں کو رفاہی شکل دے دی گئی۔ جابجا قانونی ادارے کھول دیئے گئے اور وکلاء کی سہولت ہر شخص کو مہیا کردی گئی۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بنادیا گیا اور انصاف کو گھروں کی دہلیز تک پہنچا دیا گیا۔ احتسابی ادارے اس قدر مضبوط ہوگئے کہ جرم کرنے والا ان کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہ سکتا۔ کیمرے کی آنکھ ہر وقت ان کے تعاقب میں رہتی ہے۔ حکومتیں اس قدر مستحکم کردی گئیں کہ وہاں کبھی بحران سر نہیں اٹھاتا۔ اس طرح سے ان اسباب میں سے ایک ایک سبب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے ممالک جنت کا نمونہ بن جائیں اور وہاں کسی شخص کے جان و مال اور عزت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، لیکن نہایت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ملکوں کے سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی طرف سے جو سالانہ رپورٹیں چھپتی ہیں انھیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ رپورٹیں انھیں ملکوں کی ہیں۔ وہاں تو جرائم کی شرح پسماندہ ملکوں کو بھی شرماتی ہے۔ وہاں بھی جان مال اور عزت اسی طرح خطرے میں ہے جیسے پسماندہ ممالک میں، بلکہ انتہائی ترقی یافتہ ممالک جو دنیا پر خدائی کے دعویدار ہیں ان کی خودسری، ظالمانہ روش، انسان دشمنی، انسانوں کی تقسیم اور اپنے ملکی اور قومی مفادات کے لیے دوسرے ملکوں کو ادھیڑ ڈالنا اور ظلم کی داستانیں رقم کردینا جیسی حرکتوں میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ان کی قوت اور تباہی کے وسائل کی وسعت کے سامنے انسانیت کا مستقبل روزبروز تاریک تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ان اسباب کے دور کردینے سے انسان میں بہتری آسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے آج تک انسان کے جن عوارض کو حقیقت میں عوارض سمجھا ہے وہ انسانیت کے عوارض ضرور ہیں لیکن وہ حقیقی نہیں۔ انسان کا مرض کچھ اور ہے اور یہ اسباب صرف اس کے مظاہر ہیں۔ قرآن کریم نے ان آیات کریمہ کو انسان کے اصل روگ کی نشاندہی کی ہے اور پھر اس کا اصل علاج بتایا ہے اور اس کے لیے محض مفروضوں پر گفتگو نہیں کی اور نہ الفاظ کی طلسم آرائی سے کام لیا اور بلکہ اس کے ثبوت کے لیے تاریخ سے گواہی دلوائی ہے۔ پیشتر اس کے کہ میں اس حقیقی روگ کا ذکر کروں جس نے ہمیشہ انسانی زندگی کو تاراج کیا ہے اور اس کا حقیقی علاج آپ کے سامنے لائوں۔ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس علاج پر مبنی ایک تجربہ جو کہ 1400 سال پہلے کیا گیا تھا اس کا آپ سے ذکر کروں۔ اس سے آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ جب ہمارے سامنے ایک کامیاب تجربہ موجود ہے۔ اور جبکہ ہم بار بار کے تجربات سے ناکامی کے زخم اٹھا چکے ہیں تو ہمیں اسے اختیار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔ اس تجربہ کے حوالہ سے یہ بات چیت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جن لوگوں میں اس کا تجربہ کیا گیا ایسا نہیں تھا کہ ان کا بگاڑ معمولی نوعیت کا تھا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ جزیرہ عرب جس کو سب سے پہلے اس تجربہ کے لیے چنا گیا اور پھر اسے بیس (Base) بنا کر باقی پوری نوع انسانی کو وہ نسخہ کیمیا مہیا کیا گیا، وہ نفرتوں، عداوتوں اور جرائم کا جہنم بنا ہوا تھا۔ قدم قدم پر قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔ لوٹ مار کو بہادری اور دل اوری سمجھا جاتا تھا۔ گھر کے باہر انسان کی جان اور گھر کے اندر اس کی عزت و عصمت ہر لمحہ خطرے میں تھی۔ خود اپنے جگر کے ٹکڑوں کو زندہ درگور کرتے ہوئے انھیں کبھی رحم نہیں آتا تھا۔ ماں، باپ اور بہن کے رشتے پامال ہوچکے تھے۔ راہ چلتے قافلے بھی لٹنے سے محفوظ نہیں رہتے تھے۔ انسان اپنی شقاوت اور بدبختی کی انتہا کو پہنچ چکا تھا لیکن تجربہ کرنے والے نے انسانی اصلاح کا جب آغاز کیا تو اس نے نہایت اعتماد کے ساتھ یہ کہا کہ لوگو ! آج جب تم اپنے جزیرے کو جہنم بنا چکے ہو ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ ایک عورت تن تنہا مکہ سے حیرہ تک اکیلی سفر کرے گی اور اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جیسے جیسے یہ تجربہ آگے بڑھتا گیا وہ جزیرہ عرب جہاں کبھی نفرتوں اور عداوتوں کے کانٹے اگتے تھے اور جہاں کسی کی جان و مال اور آبرو کو کوئی پناہ نہیں تھی اسی جزیرے میں محبت و الفت اور امن و آشتی کے پھول کھلنے لگے۔ حتیٰ کہ صرف 23 سال کے عرصہ میں 12 ؍لاکھ مربع میل علاقے میں ایک ایسا کوثر و تسنیم میں دھلا ہوا معاشرہ پروان چڑھا جس کی نظیر چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ تجربہ اور اس کے نتیجے میں پیش آمدہ انقلاب وہ تھا جسے آج سے 1400 سال پہلے سرکارِدوعالم ﷺ نے برپا فرمایا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ اس انقلاب میں علم کی طاقت بھی تھی اور انسانی اختیاج کے دور کرنے کو بھی مناسب جگہ دی گئی تھی۔ اس میں قانون کو بالادست بھی بنایا گیا تھا، اس میں کسی حد تک احتسابی ادارے بھی اپنا کام کررہے تھے لیکن اس میں سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا گیا تھا وہ اس حقیقی مرض کو دور کرنا تھا جس کی وجہ سے ہمیشہ انسان بگڑتا ہے اور پھر اس بگاڑ سے نہ اسے تعلیم روکتی ہے اور نہ دولت مندی اس کا ہاتھ روکتی ہے۔ ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن جو شاہی خاندان کا فرد اور اپنے ملک میں وزیر دفاع بھی رہا اور پھر لارڈ ہونے کی وجہ سے مالی استحکام بھی رکھتا تھا۔ بایں ہمہ یہ چیزیں اس کو جرم کرنے سے نہ روک سکیں اور وہ اپنے ڈیری فارم میں دودھ میں پانی ملاتے ہوئے پکڑا گیا اور عدالت نے اسے جرمانہ کی سزا بھی دی۔ اس کے پاس دولت تھی، علم تھا وہ سب کچھ تھا جو انسان کو بظاہر انسان بننے کے لیے کافی ہے لیکن چونکہ اس کے حقیقی مرض کا علاج نہیں کیا گیا تھا تو وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک صالح انسان نہ بن سکا۔ اقبال مرحوم نے ٹھیک کہا تھا : زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے زندگی سوز جگر ہے علم ہے سوز دماغ اسلام نے یہی سوز جگر دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جرائم کا اصل سبب نہ فقر و افلاس ہے نہ ناخواندگی نہ احتسابی محکموں کی قلت اور نہ قانون سے بےشعوری بلکہ ان جرائم کا اصل سبب وہ بیمار ذہنیت ہے جس نے افق سے افق تک پھیلی ہوئی اس دنیا کو اپنا سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔ جو اس مادی دنیا کے اس طرف جھانکنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور جس کے نزدیک صرف چند روزہ زندگی کے مادی منافع اور نفسانی لذتیں ہی انسان کی معراج ہیں۔ انسان کے ذہن میں جرم کا بیج دراصل اس وقت پڑتا ہے جب وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ میرے نفع و ضرر کی ساری کائنات صرف اسی دنیاوی زندگی میں سمٹی ہوئی ہے اور میری لذت و راحت اور رنج و تکلیف کی انتہا قبر کے کنارے ہونے والی ہے۔ لہٰذا اگر میں نے یہاں زیادہ سے زیادہ دولت زیادہ سے زیادہ شہرت اور زیادہ سے زیادہ لذت و آسائش حاصل نہ کی تو گویا اپنی ساری عمر برباد کردی اور ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ محرومی کا یہ خوف ہی دراصل سارے جرائم کی بنیاد ہے اور یہ خوف اس آخرت ناآشنا ذہنیت سے پیدا ہوتا ہے جو مرنے کے بعد کسی ابدی زندگی کی قائل نہیں۔ جو یہ سمجھتی ہے کہ جب موت میری آنکھیں بند کردے گی تو پھر وہ کبھی نہیں دیکھ سکیں گی۔ جسے آخرت کی پیش گوئیاں معاذاللہ محض افسانہ معلوم ہوتی ہیں یہی خیالات ہیں جو انسان کی ہوس کو بھڑکا بھڑکا کر ایک نہ مٹنے والی بھوک اور نہ بجھنے والی پیاس میں تبدیل کردیتے ہیں پھر انسان کو لذت و راحت کی کسی منزل پر قرار نہیں آتا۔ وہ عیش و آرام کے کسی درجے پر قانع نہیں ہوتا۔ دنیاوی محرومی کا خوف ایک بھوت کی طرح اس کے اعصاب پر مسلط ہوجاتا ہے اور اسے دنیا طلبی کے جنون میں مبتلا کرکے اس مقام پر لے آتا ہے جہاں اپنی اور صرف اپنی ہوس کے تسکین کے سوا زندگی کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے اسے بدتر سے بدتر راستہ اختیار کرتے ہوئے بھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ لہٰذا جب تک یہ بیمار ذہنیت ختم نہ ہو اس وقت تک انسانوں کی کوئی تہذیب جرائم کو ختم نہیں کرسکتی۔ قانون اور اس کی تنفیذ کے ادارے خواہ کتنے ترقی یافتہ ہوجائیں لیکن اگر انسان میں یہ آخرت فراموش ذہنیت باقی ہے تو وہ ان کی ہر چال کا جواب اور ہر تدبیر کا توڑ ایجاد کرتی رہے گی۔ موجودہ دنیا کا تجربہ شاہد ہے کہ جو انسانی ذہانت جرائم کی تحقیق و تفتیش کے ترقی یافتہ طریقے دریافت کرسکتی ہے وہ ارتکابِ جرائم کے نئے نئے ڈھنگ نکالنے پر بھی قادر ہے اور جب آگے بڑھنے کی رفتار دونوں طرف برابر ہو تو مجرم اور اس کا تعاقب کرنے والے کے درمیان ہمیشہ ایک ہی فاصلہ برقرار رہے گا اور اس میں کبھی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ مختصر یہ کہ انسانی سیرت و کردار کی اصلاح کے لیے اگر کوئی نسخہ کامیاب ہوسکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں آخرت کا تصور راسخ کیا جائے اور اسے یقین دلادیا جائے کہ یہاں کی دنیا اصل دنیا نہیں، یہاں کا رنج و راحت ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ ایک ابدی اور پائیدار زندگی آگے آنے والی ہے جسے آخرت کہتے ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیشی ہوگی اور دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اگر آج اس حقیقت کا ادراک نہ کیا گیا اور زندگی من مرضی سے گزاری اور خواہشات نفس کے اتباع کو اپنا معمول بنائے رکھا تو یہ زندگی بھی دکھوں اور مصیبتوں میں گزرے گی اور آخرت میں جہنم ٹھکانا ہوگا۔
Top