Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 6
وَ لَكُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَ حِیْنَ تَسْرَحُوْنَ۪
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِيْهَا : ان میں جَمَالٌ : خوبصورتی۔ شان حِيْنَ : جس وقت تُرِيْحُوْنَ : شام کو چرا کر لاتے ہو وَحِيْنَ : اور جس وقت تَسْرَحُوْنَ : صبح کو چرانے لے جاتے ہو
ان میں تمہارے لیے جمال ہے جبکہ تم ان کو شام کو گھر واپس لاتے ہو اور جس وقت کہ ان کے چرنے کو چھوڑتے ہو۔
وَلَکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 6) (ان میں تمہارے لیے جمال ہے جبکہ تم ان کو شام کو گھر واپس لاتے ہو اور جس وقت کہ ان کو چرنے کو چھوڑتے ہو۔ ) اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتوں کا ذکر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے مختلف احساسات رکھے ہیں، کبھی اس کے اندر یہ احساس ابھرتا ہے کہ میرے پاس اس قدر طاقت کا سامان ہونا چاہیے کہ لوگ میری طاقت کے سامان کو دیکھ کر مجھ سے خوف کھائیں۔ اور کبھی اس کے نازک جذبات کو جنبش ہوتی ہے تو وہ اپنے جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لیے کچھ چیزوں کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ چناچہ سابقہ آیت کریمہ میں جہاں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار ہے وہیں یہ بات بھی ہے کہ تم میں سے کتنے لوگ ہیں جن کے بڑے بڑے اصطبل مختلف قسم کے جانوروں سے معمور ہیں۔ یہی ان کی قوت کے سامان بھی ہیں اور اسی سے ان کی غذائی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اب ان کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لیے فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے ان کو مختلف قسم کے چوپائے دیے ہیں اور بعض لوگوں کے پاس وہ اس قدر فراوانی کے ساتھ ہیں کہ جب وہ صبح و شام چراگاہ جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو عجیب خوبصورتی کا منظر ہوتا ہے۔ کیونکہ جس طرح مختلف اشیاء میں حسن ہے، اس طرح چوپایوں میں بھی تو حسن ہے۔ اگر چوپایوں میں حسن نہ ہوتا تو لوگ کبھی مختلف جانور شوق سے نہ پالتے۔ حتیٰ کہ انسانوں نے تو درندے تک پال کر اپنے شوق کو تسکین دی ہے۔ پنجاب کی دیہاتی زندگی میں خوبصورت بیل بڑے زمینداروں کی خوشحالی اور دولت کی علامت بھی تھے اور ان کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا باعث بھی۔ اس طرح عربوں میں ہر طرح کے جانور ان کے لیے باعث فکر بھی تھا اور باعث تسکین بھی۔ بعض جانوروں کے بڑے بڑے ریوڑ جہاں ان کی خوشحالی کا منہ بولتا ثبوت تھے وہیں پوری آبادی ان کے حسن میں ڈوب جاتی تھی۔ اسی طرح گھوڑوں کی بڑی تعداد ان کے رعب اور دبدبے اور قوت کی علامت تھی کیونکہ جس کے اصطبل گھوڑوں سے بھرے ہوئے ہوں اس کے سپاہیوں کی تعداد بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی تو عام قبیلہ ایسے قبیلے کیخلاف کسی اقدام کی جرأت کیسے کرسکتا ہے۔ اِ راحۃ کا معنی شام کو گلے کو چراگاہ سے گھر واپس لانے کے ہیں۔ اور سرح کہ معنی اس کو چرنے چکنے کے لیے صبح کو چھوڑنے کے ہیں۔ اندازِ بیان میں عام طور پر صبح کا ذکر پہلے ہوتا ہے اور شام کا بعد میں۔ لیکن اس آیت کریمہ میں شام کو گلے کے چراگاہ جانے کا ذکر پہلے ہے اور صبح کو گلے کے چراگاہ جانے کا ذکر بعد میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں جمالیاتی پہلو کے اظہار کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شام کو جب جانور گھر واپس آتے ہیں تو چونکہ پیٹ بھر کے لوٹتے ہیں اس لیے تازہ دم ہوتے ہیں اور ان کی خوبصورتی اور رعنائی میں صبح کی نسبت اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے شام کو لوٹنے کا ذکر پہلے کیا اور صبح کو جانے کا ذکر بعد میں فرمایا۔
Top