Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 19
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا
وَمَنْ : اور جو اَرَادَ : چاہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَسَعٰى : اور کوشش کی اس نے لَهَا : اس کے لیے سَعْيَهَا : اس کی سی کوشش وَهُوَ : اور (بشرطیکہ) وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ كَانَ : ہے۔ ہوئی سَعْيُهُمْ : ان کی کوشش مَّشْكُوْرًا : قدر کی ہوئی (مقبول)
اور جو شخص آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کے لیے پوری طرح جدوجہد کرتا ہے درآنحالیکہ وہ مومن بھی ہو، پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش مقبول ہوگی۔
وَمَنْ اَرَادَالْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَھَا وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُوْلٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 19) (اور جو شخص آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کے لیے پوری طرح جدوجہد کرتا ہے درآنحالیکہ وہ مومن بھی ہو، پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش مقبول ہوگی۔ ) دنیا کے طلبگار کے مقابلے میں اب آخرت کے طلبگار کی بات ہورہی ہے کہ جو شخص آخرت کا طلبگار ہوگا یعنی وہ زندگی کا وہ رویہ اختیار کرے گا جو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور اس کی آخری کتاب میں دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے تجویز کیا گیا ہے اور وہ پورے اخلاص کے ساتھ اسے اختیار کرے گا اور پیش نظر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگی۔ اور یہ صرف خواہش کی حد تک نہ ہو بلکہ اس کے لیے ہر ممکن مساعی کو بھی بروئے کار لائے گا۔ اور اس راستے میں جو مشکلات آئیں گی انھیں برداشت کرنے میں اسے کوئی تأمل نہیں ہوگا۔ اس راستے کا ہر کانٹا اسے پھول سے بڑھ کر عزیز ہوگا تو یہ وہ لوگ ہیں اللہ تعالیٰ جن کی زندگی کی کوششوں کو قبول فرماتا ہے۔ دنیا میں بھی انھیں آسودہ رکھتا ہے اور دل و دماغ کا سکون عطا کرتا ہے اور آخرت میں بھی اس کی جنت ان کی منتظر ہوگی۔ ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں کو وہ بات یاد دلائی گئی ہے جو قرآن کریم میں بار بار دہرائی گئی ہے کہ اگر تمہارے پیش نظر صرف یہی دنیا اور اس کی کامیابیاں اور خوشحالیاں ہوں تو یہ سب کچھ تمہیں مل سکتا ہے مگر اس کا آخری انجام بہت برا ہے۔ مستقل اور پائیدار کامیابی جو اس زندگی سے لے کر دوسری زندگی تک کہیں نامرادی سے داغدار نہ ہونے پائے ‘ تمہیں صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے ‘ جبکہ تم اپنی کوششوں میں آخرت اور اس کی باز پرس کو پیش نظر رکھو۔ دنیا پرستی کی خوشحالی بظاہر تعمیر کی شان رکھتی ہے مگر اس تعمیر میں ایک بہت بڑی خرابی کی صورت مضمر ہے۔ وہ اخلاق کی اس فضیلت سے محروم ہوتا ہے جو صرف آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھنے ہی سے پیدا ہوا کرتی ہے۔ یہ فرق تم دنیا ہی میں دونوں طرح کی آدمیوں میں دیکھ سکتے ہو۔ یہی فرق بعد کی منازل حیات میں اور زیادہ نمایاں ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ ایک کی زندگی سرا سر ناکامی اور دوسرے کی زندگی سراسر کامیابی بن کر رہے گی۔
Top