Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 146
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَؔ
اَلَّذِيْنَ : اور جنہیں اٰتَيْنٰھُمُ : ہم نے دی الْكِتٰبَ : کتاب يَعْرِفُوْنَهٗ : وہ اسے پہچانتے ہیں كَمَا : جیسے يَعْرِفُوْنَ : وہ پہچانتے ہیں اَبْنَآءَھُمْ : اپنے بیٹے وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان سے لَيَكْتُمُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں الْحَقَّ : حق وَھُمْ : حالانکہ وہ يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں
جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں البتہ ان میں ایک گروہ ہے جو حق کو چھپاتا ہے اور وہ جانتا بھی ہے۔
اَلَّذِیْنَ اٰتَـیْنٰـھُمُ الْـکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَـہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَ ھُمْ ط وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْھُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَـلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ ۔ (البقرۃ : 146 تا 147) (جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں البتہ ان میں ایک گروہ ہے جو حق کو چھپاتا ہے اور وہ جانتا بھی ہے۔ یہی حق ہے جو آپ کے رب کی جانب سے ہے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ بنو) اس آیت کریمہ میں غور کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتاب جو ایک امی پر نازل ہوئی وہ تاریخ کے بعض ایسے گوشوں کو بےنقاب کر رہی ہے اور بعض ایسی خیانتوں سے پردہ سرکا، رہی ہے۔ جہاں تک مورخ کی نگاہ بھی شاذونادر ہی پڑتی ہے۔ سابقہ آیت کریمہ میں آپ نے دیکھا کہ اہل کتاب کا ذکر الذین اوتوالکتب کہہ کر کیا گیا ہے اور یہاں اَلَّذِیْنَ اٰتَـیْنٰـھُمُ الْـکِتٰبکہہ کر۔ معلوم ہوتا ہے یہود میں پوری قوم کے لوگ خیال وعمل کے لحاظ سے یکساں نہیں تھے۔ اگرچہ اس قوم کا غالب حصہ گمراہ ہوچکا تھا لیکن ایک محدود تعداد ایسی بھی تھی جو ابھی تک اللہ کی کتاب کی قدرومنزلت کو جانتی اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ اس آیت کریمہ میں اسی قلیل اور مختصر طبقہ کا ذکر ہے کہ ان میں سے وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب عنایت کی تھی اور وہ اس کا حق بھی پہچانتے تھے۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اس کو پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ باقی پوری قوم نے تو اس کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہے اور اگر جانتے بھی ہیں تو کتمانِ حق سے کام لیتے ہیں۔ لیکن یہ مختصر سا گروہ ایسا ہے، جسے اہل حق کا گروہ کہنا چاہیے۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے یعرفونہ ” اس کو پہچانتے ہیں “۔ سوال یہ ہے ضمیر کا مرجع کیا ہے یعنی کس کو پہچانتے ہو ؟ متقدمین میں عام خیال یہ رہا کہ وہ اس بات کو جانتے اور پہچانتے ہیں کہ بیت اللہ ہی اصل قبلہ ہے اور یہی آخری نبی اور آخری امت کا قبلہ ہوگا۔ تورات میں چونکہ یہ بات پوری طرح واضح ہے اس لیے انھیں اس کے قبلہ ہونے کا اس حد تک یقین ہے جس حد تک انھیں اپنے بیٹوں کی پہچان کا یقین ہے۔ جو بچہ سالوں تک ماں باپ کی گود اور نگاہوں میں پلتا ہے اس کی پہچان میں ماں باپ کبھی غلطی نہیں کرتے۔ اسی طرح جو بات کتاب اللہ نے قطعی انداز میں بتائی ہے اس کی پہچان تو اس سے زیادہ قطعی ہونی چاہیے۔ متوسطین اور متاخرین، عام طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت میں ضمیر کا مرجع رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے کہ یہود میں اہل حق کا یہ طبقہ آنحضرت ﷺ کی پہچان میں کبھی غلطی نہیں کرتاکیون کہ آپ کی علامات سے تورات کے صفحات معمور ہیں۔ ضمیر کا مرجع قبلہ کو قرار دیا جائے یا آنحضرت ﷺ کو، مفہوم کے تعین میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو لوگ آنحضرت ﷺ کو پہچانتے ہیں کہ آپ اللہ کے آخری نبی ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ آخری نبی کا قبلہ بیت اللہ ہوگا، بیت المقدس نہیں۔ ان دونوں آیتوں کو غور سے پڑھ لیجئے تو کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ تحویلِ قبلہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر پہلی آسمانی کتابیں بھی پوری طرح شاہد ہیں۔ ان کتابوں کا جاننے والا کتمانِ حق کرے تو اور بات ہے، ورنہ اس کے لیے یہ حقیقت تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ اس قدر مؤکد انداز میں بیت اللہ کی حقیقت کو واضح کرنے کے بعد ہر غیر جانب دار آدمی سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جو کچھ کہا گیا ہے یہی بات حق ہے تیرے رب کی جانب سے۔ یہاں مبتدا محذوف ہے اصل عبارت اس طرح ہے ھذا ھوالحق پس تمہیں شک کرنے والوں میں سے نہیں ہونا چاہیے۔ حق آجانے کے بعد شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور یہ حق تو ایسا ہے جس میں عقل اور نقل دونوں متفق ہیں۔
Top