Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
(اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِوَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ۔ (البقرۃ : 8) (اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں) الناس سے کون لوگ مراد ہیں ؟ اس آیت کریمہ میں الناس کا لفظ اگرچہ عام ہے جس میں سب لوگ شامل ہیں۔ لیکن ترکیبِ کلام سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں پر ایسے لوگوں کا تذکرہ ہورہا ہے جو نہ تو ان لوگوں میں سے ہیں جن کا سب سے پہلے ذکرہوا اور نہ ان میں سے ہیں جن کا ذکرسابقہ دو آیتوں میں ہوا۔ البتہ سابقہ دو آیتوں میں جن کافروں کا ذکر ہوا ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اب جن کا ذکر ہورہا ہے ان کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے : وَمَاھُمْ بِمُوْمِنِیْنَ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو شخص ایمان نہ رکھتاہو اور پھر بھی ایمان رکھنے کا دعویٰ کرے یقینا ایسے شخص کو منافق کہتے ہیں، اس لیے ان کے منافق ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ نفاق کی مختلف شکلیں البتہ ! جیسے جیسے ہم ان آیات کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو ہر آیت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نفاق کی کوئی ایک شکل نہیں۔ کہیں تو نفاق ایسا ہے جس کو علم و دانش کا نفاق کہتا چاہیے کہ علم و دانش کے زور سے اپنے نفاق پر پردہ ڈال کر اسے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کو ایمان نہیں کہتے تو وہ دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج کے دور میں ایمان کا یہی ماڈل ہے جو قابل قبول ہوسکتا ہے اور کبھی نفاق کی شکل یہ ہوتی ہے کہ آدمی سرے سے اللہ کے رسول کی دعوت کا منکر ہے۔ لیکن بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتا ہے۔ جس کا سبب یہ ہے کہ اپنے قبیلے کے لوگوں کی اکثریت کے ایمان لانے کے باعث وہ اپنے آپ کو ایمان کے دعوے کے لیے مجبور پاتا ہے اور کبھی نفاق کی صورت یہ رہی ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اور آپ ﷺ کی دعوت سے متاثر ہو کر آپ کی صداقت کا قائل تو ہوگیا لیکن ایمان کے نتیجے میں قربانی اور ایثار کی جن منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے اس کے لیے وہ اپنے اندر حوصلہ نہیں پاتا اس لیے کبھی اس کا قدم آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹتا ہے اور کبھی نفاق کی یہ صورت بھی رہی ہے کہ ایک آدمی دل میں اسلام کی صداقت کا قائل ہے۔ لیکن غیرمسلموں سے اپنے تعلقات کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔ نفاق کی ان تمام صورتوں کو ذہن میں رکھ کر جب ان آیات کو پڑھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کے ماحول میں منافقین کی جتنی قسمیں تھیں اور آئندہ بھی ہوسکتی ہیں ان آیات میں ان سب کی طرف اشارے موجود ہیں۔ اس لیے ہماری ان گذارشات کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو پھر یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ ان آیات میں منافقین ہی کا ذکر کیا جارہا ہے۔ البتہ اس سے کوئی خاص گروہ مراد نہیں بلکہ اس سے وہ تمام منافقین مراد ہیں جو چاہے تو یہود میں سے ہوں اور چاہے اوس و خزرج میں سے۔ پہلی آیت کریمہ میں معلوم ہوتا ہے کہ ان منافقین کا ذکر کیا جارہا ہے جو علم و دانش کے زور سے نہ صرف اپنے نفاق پر پردہ ڈال رہے تھے بلکہ مسلمانوں کو اس بات کے لیے قائل کرنے کی کوشش رہے تھے کہ تم جس ایمان پر اصرار کررہے ہو اس سے مدینہ کے معاشرے میں بڑے مسائل پید اہوں گے مدینہ کی وحدت اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ ہماری بات کو قبول کرلیا جائے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور آخرت کے دن پر بھی ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ ہمارا ایک ہی خدا ہے، وہی ہمارا سب کچھ ہے، اور اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قیامت آئے گی اور ہم اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کریں گے۔ لیکن جہاں تک تعلق ہے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا تو چونکہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے اور ہم موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں نئے نبی اور نئی کتاب پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے۔ تم حالات کو دیکھتے ہوئے ہماری دلیل کے وزن کو محسوس کرو، ہم تمہیں صاحب ایمان سمجھتے ہیں تم ہمیں صاحب ایمان گروہ کے طور پر قبول کرلو۔ نبی کی دعوت کا مقصود بندوں کو اللہ سے جوڑنا اور اللہ کے سامنے اعمال کی جواب دہی کے لیے تیار کرنا ہے۔ تو جب ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ تو گویا اس مقصود کے ساتھ ہم پہلے سے وابستہ ہیں اگر ہم درمیانی واسطے یعنی تمہارے پیغمبر کو اس لیے تسلیم نہ کریں کہ ہم پہلے ہی ایک پیغمبر کو مانتے ہیں تو اس سے آخر کیا فرق پڑتاہے
Top