Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 28
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا یَشْفَعُوْنَ١ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَ هُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ
يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھوں میں (سامنے) وَ : اور مَا خَلْفَهُمْ : جو ان کے پیچھے وَ : اور لَا يَشْفَعُوْنَ : وہ سفارش نہیں کرتے اِلَّا : مگر لِمَنِ : جس کے لیے ارْتَضٰى : اس کی رضا ہو وَهُمْ : اور وہ مِّنْ خَشْيَتِهٖ : اس کے خوف سے مُشْفِقُوْنَ : ڈرتے رہتے ہیں
اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر صرف اس کے لیے جسے وہ پسند فرمائے اور وہ اللہ کی خشیت سے لرزاں رہتے ہیں۔
یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلاَ یَشْفَعُوْنَ لا اِلاَّ لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ ۔ (الانبیاء : 29) (اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر صرف اس کے لیے جسے وہ پسند فرمائے اور وہ اللہ کی خشیت سے لرزاں رہتے ہیں۔ ) شفاعت کون کرے گا ؟ انسان دنیا میں اس طرح زندگی گزارتا ہے کہ وہ جیسے جیسے آگے بڑھتا جاتا ہے گزرا ہوا زمانہ اور گزشتہ اعمال اس کا ماضی بنتے جاتے ہیں اور آنے والا زمانہ جو اس کا مستقبل ہے کبھی اس کو امیدیں دلاتا ہے اور کبھی اس کے لیے ڈرائونا خواب بن جاتا ہے۔ اس کا حال ہر لمحہ ماضی بنتا جا رہا ہے اور ہر آنے والا لمحہ حال میں پہنچنے سے پہلے اس کا مستقبل ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے شناسا کے ” حال “ سے کسی حد تک واقف ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ماضی اس کے سامنے نہیں گزرا تو وہ اس سے بالکل بیخبر ہوتا ہے اور مستقبل کے بارے میں نہ وہ اپنے بارے میں جانتا ہے اور نہ دوسرے کے بارے میں۔ تاوقتیکہ مستقبل حال سے گزرتا ہوا ماضی میں غروب نہیں ہوجاتا لیکن اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ اس کے لیے ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی تقسیم نہیں۔ جو گزر چکا وہ بھی اس کے سامنے ہے، جو گزر رہا ہے وہ اس سے بھی باخبر ہے اور جو ابھی پردہ اخفاء میں ہے وہ اس سے بھی پوری طرح آگاہ ہے۔ کیونکہ جس طرح وہ ماضی میں جھانک سکتا ہے اسی طرح وہ مستقبل کو بھی دیکھتا ہے۔ بنابریں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی فرشتہ یا کوئی اور شخص کسی سے متعلق اس کے علم میں اضافہ کرسکے۔ جو شخص کسی کے حال کو جانتا ہے وہ بھی اس کی گہرائی اور گیرائی کو نہیں جانتا۔ اور جہاں تک ماضی اور مستقبل کا تعلق ہے وہ اس کے احاطہ علم سے بالکل خارج ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ اگر کسی شخص کے بارے میں کوئی فیصلہ فرمائے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ اس کے بارے میں جانتا ہوں۔ اس لیے جن قوتوں یا فرشتوں کے بارے میں مشرکین یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ بھی کریں وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچا لیں گے۔ آخر وہ کس بنیاد پر سمجھتے ہیں۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے سامنے بالکل بےبسی کی تصویر ہیں اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کرسکتے اور وہ اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں بیخبر ِمحض ہیں، تو وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں کوئی مشورہ کیسے دے سکتے اور اس کے علم میں اضافہ کیسے کرسکتے ہیں ؟ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک اعزاز ضرور رکھا ہے کہ وہ کسی کی شفاعت کریں۔ لیکن وہ شفاعت اس کے لیے کریں گے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرمائیں اور جس کے لیے شفاعت کرنے کی اجازت دیں۔ اس تمام احتیاط اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام عنایات کے باوجود ان کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں کہ کہیں بیخبر ی میں بھی ان کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہو۔
Top