Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 39
لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَ لَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
لَوْ يَعْلَمُ : کاش وہ جان لیتے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) حِيْنَ : وہ گھڑی لَا يَكُفُّوْنَ : وہ نہ روک سکیں گے عَنْ : سے وُّجُوْهِهِمُ : اپنے چہرے النَّارَ : آگ وَلَا : اور نہ عَنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : انکی پیٹھ (جمع) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُنْصَرُوْنَ : مدد کیے جائیں گے
کاش یہ کفر کرنے والے جان لیتے اس وقت کو جب وہ روک نہ سکیں گے اپنے چہروں سے عذاب نار کو، نہ اپنی پشتوں سے اور نہ ان کی کسی طرف سے مدد کی جائے گی۔
لَوْیَعْلَمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا حِیْنَ لاَ یَکُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْھِھِمُ النَّارَ وَلاَ عَنْ ظُہُوْرِ ھِمْ وَلاَ ھُمْ یُنْصَرُوْنَ ۔ بَلْ تَاْ تِیْھِمْ بَغْتَۃً فَتَبْھَتُھُمْ فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّھَا وَلاَ ھُمْ یُنْظَرُوْنَ ۔ (الانبیاء : 39، 40) (کاش یہ کفر کرنے والے جان لیتے اس وقت کو جب وہ روک نہ سکیں گے اپنے چہروں سے عذاب نار کو، نہ اپنی پشتوں سے اور نہ ان کی کسی طرف سے مدد کی جائے گی۔ بلکہ وہ اچانک ان پر آدھمکے گی، سو انھیں بدحواس کردے گی پھر وہ نہ اسے رد کرسکیں گے اور نہ ہی انھیں مزید مہلت دی جائے گی۔ ) مخالفین کے رویئے پر اظہارِ حسرت نہایت حسرت کے انداز میں فرمایا جارہا ہے کہ ایک طرف انسان کی بیخبر ی ہے جو گمراہی تک جا پہنچی ہے اور دوسری طرف اس کی جسارت ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے نبردآزما ہے۔ انسان کچھ نہیں جانتا کہ اس کا پروردگار اس سے کیا چاہتا ہے۔ وہ اگرچہ اپنے معاملات میں عقل و شعور سے بہرہ ور ہے لیکن زندگی کے اجتماعی معاملات، اخلاقی مسلمات، انسانی فطرت کے مقتضیات، عالم برزخ اور عالم آخرت کے اسرار اور اللہ تعالیٰ کی شریعت کی تفصیلات کو جاننے کے لیے اس کی عقل کافی نہیں۔ اس کے لیے وحی الٰہی کی ضرورت ہے جس کے حامل بن کر اللہ تعالیٰ کے رسول تشریف لاتے ہیں۔ اب انسان کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی دعوت کو قبول کرے، ان پر نازل کی جانے والی کتابوں کی رہنمائی کو زندگی کا رہنما بنائے۔ اور اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے رسول کے اتباع کو اپنے اوپر لازم ٹھہرا لے۔ لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ وہ اس رہنمائی کو قبول کرنے کی بجائے اپنی جہالت پر اصرار کرتا ہے اور جب پیغمبر اس کے طرز عمل کی پاداش میں پیدا ہونے والے خطرات کو اس کے سامنے ذکر کرتا ہے تو وہ اس کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے انکار کی صورت میں جو کچھ اس پر بیتنے والی ہے جب اسے اس سے آگاہ کیا جاتا ہے تو بجائے قبول کرنے کے اس سے آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ چناچہ اس پوری صورتحال پر اظہارِتأسف کرتے ہوئے بہ اندازِ حسرت فرمایا جارہا ہے کہ کاش انکار کرنے والوں کو یہ معلوم ہوتا کہ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے تو انسان اس کے سامنے کس قدر بےبس ہوتا ہے آج تو یہ منہ پھاڑ پھاڑ کر نہ صرف اس کا مطالبہ کررہے ہیں بلکہ پیغمبر کا مذاق اڑا رہے ہیں، لیکن جب وہ عذاب آئے گا اور اس سے جو آگ برسے گی اسے یہ اپنے جسم کے کسی حصے سے روک نہیں سکیں گے۔ وہ ان کے چہروں کو جلائے گی، ان کے پہلوئوں کو داغے گی۔ اور اس وقت یہ مدد کے لیے چیخیں گے اور ان لوگوں کا نام لے لے کر دہائی دیں گے جنھیں انھوں نے بزعم خود معبود بنا رکھا ہے، لیکن کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا۔ انھیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں کہ جب وہ عذاب آتا ہے تو وہ بتا کے نہیں آتا۔ اس سے پہلے ایسے آثار ظاہر نہیں ہوتے کہ آدمی اپنے بچائو کی کوئی تدبیر کرسکے۔ وہ اچانک آتا ہے اور انسانوں کو بدحواس کردیتا ہے۔ تمام وسائل دھرے رہ جاتے ہیں، مدافعت کی ہر قوت دم توڑ جاتی ہے، لوگ رحم کے لیے فریاد کرتے ہیں لیکن مزید مہلت نہیں دی جاتی۔ کاش یہ لوگ آج اس کی شدت اور ہولناکی کا کچھ اندازہ کرلیں تو شاید ان کے لیے بہتر ہو۔
Top