Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 50
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ
فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : پس جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : بخشش وَّ : اور رِزْقٌ : رزق كَرِيْمٌ : باعزت
سو جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے مغفرت بھی ہے اور عزت والی روزی بھی۔
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ۔ (الحج : 50) (سو جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے مغفرت بھی ہے اور عزت والی روزی بھی۔ ) ایک کوتاہ فہمی کا ازالہ آنحضرت ﷺ کی حیثیت نذیرٌ مبین کے طور پر بیان کرنے کے بعد ان لوگوں پر انعام کا ذکر کیا جارہا ہے جو ایمان اور عمل صالح کی دولت سے مشرف ہیں حالانکہ نذیرٌ مبین کی حیثیت سے انعام کی بجائے انذار کے کسی پہلو کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا یہ ہماری کوتاہ فہمی ہے ورنہ یہ انعام بھی انذار ہی کا ایک حصہ ہے کیونکہ انذار کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس بات سے کسی کو روکنا مقصود ہو اس کا مخالف پہلو جو اپنے اندر اپیل اور کشش رکھتاہو اسے ذکر کیا جائے تاکہ اسے محسوس ہو کہ اگر میں نے اپنا طرز عمل نہ بدلا تو میں زندگی کے اس حسن سے محروم رہوں گا، جو میرے طرز عمل کے مخالف پہلو میں موجود ہے۔ اس طرح سے اس کے قلب ونظر کو ایک ٹھوکر سی لگتی ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میں اپنے مستقبل کی جن بہاروں کو اپنے اندر معمولی سی تبدیلی پیدا کرکے حاصل کرسکتا ہوں۔ میں نے اسے یکسر کیوں چھوڑ رکھا ہے ؟ مغفرت اور رزق کریم کا مفہوم دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں جن لوگوں کے لیے مغفرت اور رزق کریم کی نوید سنائی جارہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اکثریت طبقہ غربا سے تعلق رکھنے کے باعث ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جنھیں اشرافِ قریش کبھی اپنی مجلسوں میں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ بیٹھنا اور ان کی بات سننا اپنی توہین سمجھتے تھے۔ چناچہ جب وہ اس حال میں ان کے سامنے سے گزرتے کہ کسی کا جو تاٹوٹا ہوا ہوتا اور کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے تو وہ ان پر پھبتیاں کستے اور مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ ماشاء اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو قیصر وکسریٰ پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کے لیے اس انعام کا ذکر کیا جارہا ہے۔ جس کی قدروقیمت اور وسعت احاطہ تصور میں سما نہیں سکتی۔ چناچہ جب اس طرح کی آیات اشرافِ قریش کے سامنے پڑھی جاتی تھیں انھیں ایک آگ لگ جاتی تھی اور ان کے نخوت اور تکبر کے احساس پر ایک چوٹ لگتی تھی اور اس طرح سے ان کے اندر کی دنیا میں ایک حشر برپا ہوجاتا تھا کہ اگر واقعی ایسا ہوگیا جیسا قرآن کریم کہہ رہا ہے تو پھر ان کے سامنے ہماری کیا حیثیت ہوگی۔ چناچہ اس تصور سے احساس کا ایک شعلہ ساپھوٹتا جو ان کے لیے انذار کا حکم رکھتا تھا۔ شائد اسی لیے انذار کے حوالے سے سب سے پہلے صاحب ایمان لوگوں پر جو انعامات ہونے والے ہیں ان کا ذکر کرنا ضروری سمجھا گیا۔ قرآن کریم نے جہاں کہیں بھی ایمان کا ذکر کیا ہے۔ جو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان ہے تو ساتھ ہی عمل صالح کا ذکر ضرور فرمایا۔ اس سے یہ تأثر دینا مقصود ہے کہ ایمان ایک بیج ہے جس سے اعمالِ صالحہ کی فصل وجود میں آتی ہے یا ایک درخت ہے جس سے اعمالِ صالحہ کے شگوفے پھوٹتے اور اسلامی زندگی کے رسیلے پھل لگتے ہیں۔ لیکن جس ایمان سے کوئی عمل ظہور پذیر نہیں ہوتا اور اس سے اسلامی زندگی کا کوئی شگوفہ نہیں پھوٹتا اور حقوق و فرائض کے احساس کی ٹھنڈی چھائوں وجود میں نہیں آتی اس ایمان کی حقیقت اور اصلیت میں یقینا کوئی خرابی ہے۔ اندیشہ ہے کہ ایسا ایمان اللہ کے یہاں مغفرت کا باعث نہیں بن سکے گا۔ جبکہ مغفرت وہ چابی ہے جس سے جنت کے دروازے کھلتے ہیں اور فوزوفلاح کا وہ وثیقہ ہے جو جنت میں داخلے کا باعث بن سکتا ہے۔ جن خوش نصیب لوگوں کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائیں گے انھیں رزق کریم سے نوازا جائے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رزق کریم جنت اور جنت کی نعمتوں کی ایک جامع تعبیر ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ اہل جنت کو ایسی نعمتوں سے نوازا جائے گا جنھیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ ایسی صدائیں آویزہ گوش بنیں گی جنھیں کسی کان نے نہیں سنا۔ انبساط اور اہتزار کی وہ دولت نصیب ہوگی جس کا کسی دل میں کبھی گزر نہیں ہوا۔ ایسی تمام نعمتیں جنھیں بیان کرنے کے لیے الفاظ کا دامن تنگ ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے رزق کریم کی ایک جامع تعبیر اختیار کی ہے۔
Top