Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 49
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
قُلْ : فرما دیں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنَا : میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : ڈرانے والا آشکارا
(کہہ دیجیے ( اے پیغمبر) ! اے لوگو ! میں تو تمہارے لیے بس ایک کھلا ڈرانے والا ہوں۔
قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَالَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔ (الحج : 49) (کہہ دیجیے ( اے پیغمبر) ! اے لوگو ! میں تو تمہارے لیے بس ایک کھلا ڈرانے والا ہوں۔ ) آنحضرت ﷺ کی حیثیت مشرکینِ مکہ کے سابقہ انکار اور تغافل کے باعث قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کی اصل حیثیت کو واضح فرمایا ہے۔ قریش مکہ اور دیگر مشرکین چونکہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے انھیں آنحضرت ﷺ کی حیثیت کو سمجھنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ آپ چونکہ اللہ کے دیئے ہوئے نور نبوت سے دیکھ رہے تھے کہ قریش کا کفر اور شرک پر اصرار انھیں بہت برے انجام کی طرف لے جارہا ہے۔ جس کا نتیجہ اللہ کے عذاب کا نزول بھی ہوسکتا ہے ورنہ قیامت کے بعد جہنم کی ہولناک سزا تو یقینی ہے۔ آپ نہایت ہمدردی اور غمگساری کے باعث انھیں باربار تنبیہ کرتے اور جب وہ تنبیہ سے بھی اثر قبول نہ کرتے تو پھر انھیں اللہ کی طرف سے آنے والے عذاب سے ڈراتے۔ لیکن قریش اور دیگر مخالفین اپنے عناد اور مخالفت میں اس حدتک اندھے ہوچکے تھے کہ بجائے آپ کی دعوت پر غور کرنے کے مخالفت اور ایذا رسانی میں تیزی پیدا کردیتے اور عذاب سے ڈرنے کی بجائے باربار اس کا مطالبہ کرتے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کو حکم دیا جارہا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے اپنی حیثیت واضح کردیں اور اس وضاحت کے لیے آپ کو جو تعبیر اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ اہل عرب کے اسلوب کے عین مطابق ہے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب کسی بستی کے رہنے والے یہ محسوس کرتے کہ دشمن کی طرف سے انھیں شب خون کا اندیشہ ہے یا سفر میں ان کا قافلہ جہاں کہیں پڑائو ڈالتا، تو کسی قریبی قبیلے کی طرف سے حملے کے اندیشہ سے وہ یہ انتظام کرتے کہ کسی بھی بلند ٹیلے پر ایک یا چند آدمیوں کو نگران مقرر کرتے تاکہ اگر کسی طرف سے وہ کسی خطرے کو محسوس کریں تو فوراً اپنی قوم کو اطلاع دیں۔ چناچہ ایسے مقرر کردہ نگران کا طریقہ یہ ہوتا کہ جیسے ہی وہ کسی خطرے کو دیکھتا یا کسی حملے کی بو سونگھتا تو اپنے کپڑے پھاڑ کر بالکل برہنہ ہوجاتا اور لوگوں کو حملے کے دفاع کے لیے پکارنا شروع کردیتا چونکہ ایسا شخص بالکل برہنہ ہو کر ایسا کرتا تھا اس لیے اسے ” نذیرٌ عریان “ کہا جاتا تھا۔ آنحضرت ﷺ کو بھی اسی تعبیر کے ذریعے اپنی حیثیت واضح کرنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن عریان کا لفظ چونکہ غیر مہذب اور ناشائستہ لفظ تھا جسے قرآن کریم کی متانت اور آنحضرت ﷺ کی شائستگی کسی طور برداشت نہیں کرسکتی تھی، اس لیے عریان کو مبین سے بدل دیا گیا۔ لیکن حیثیت کو واضح کرنے کے لیے اس سے بہتر تعبیر شاید اور کوئی ممکن نہ تھی۔ جس طرح قوم کا حقیقی خیر خواہ جس کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ ایک بلند جگہ کھڑے ہو کر دشمن سے اپنی قوم کی حفاظت کرے اور اگر کوئی خطرہ محسوس کرے تو جان پر کھیل کر اپنی قوم کو اس کی اطلاع دے۔ اسی طرح ایک نبی اور رسول بھی اللہ کی طرف سے ایسے ہی احساس اور ایسی ہی ذمہ داری کے ساتھ مبعوث کیا جاتا ہے۔ چونکہ اس پر وحی اترتی ہے اور اسے نور نبوت و رسالت سے سرافراز کیا جاتا ہے اس لیے جو کچھ وہ دیکھتا اور جانتا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ پھر اس کے دل میں خلق خدا کو عذاب الہٰی سے بچانے کے لیے جس درجہ کی ہمدردی اور غمگساری ہوتی ہے اس کا گزر بھی کسی اور کے دل میں ممکن نہیں۔ آغازِ نبوت میں بھی آنحضرت ﷺ نے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے اپنی اسی حیثیت کو واضح فرمایا تھا۔ آپ نے سب سے پہلے اپنی قوم سے استفسار کیا کہ میں تمہاری نگاہ میں سچا ہوں یا جھوٹا ؟ کیونکہ جھوٹا شخص اللہ کا نبی نہیں ہوسکتا۔ جب ساری قوم نے آپ کے سچا ہونے کی شہادت دی تب آپ نے فرمایا کہ دیکھو ! میں ایک بلند جگہ پر کھڑا ہوں تمہیں بھی دیکھ رہا ہوں اور پہاڑی کے پیچھے کے حالات بھی میرے سامنے ہیں۔ اس کے پیچھے اگر کوئی خطرہ مخفی ہے تو میں اسے دیکھ سکتا ہوں تم نہیں دیکھ سکتے۔ تو کیا تم میری بات پر اعتماد کروگے ؟ میں تم سے اگر یہ کہوں ؎ کہ فوجِ گراں پشت کوہ صفا پر پڑی ہے کہ لوٹے تمہیں گھات پا کر کہا تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امیں ہے اس طرح آپ نے ایک مثال سے اپنی حیثیت کو واضح کیا۔ پیش نظر آیت کریمہ میں بھی اپنی حیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ میں تمہارے خطرناک انجام کو دیکھ رہا ہوں۔ لیکن تم بےخوف ہو کر اس کی طرف بڑھ رہے ہو۔ میں تمہیں اس کی ہولناکی سے بچانا چاہتا ہوں۔ لیکن تم میری ہمدردی اور غمگساری کا مذاق اڑاتے ہو۔ شب وروز میری بےساختہ دعوت اصلاحِ احوال کے لیے، ہمت سے بڑھ کر مساعی، گالیوں کے جواب میں ہمدردی سے بھرپور نصیحتیں، وحشیانہ اذیتوں کے جواب میں صبرا ورعفو و درگزر ان میں سے ایک ایک بات میری حیثیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ جس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ میں تمہارے لیے عذاب لے کر نہیں آیا بلکہ عذاب سے بچانے کے لیے نذیرٌ مبین بن کر آیا ہوں۔ میں دنیوی اور اخروی نقصانات سے تمہیں بچانے کے لیے انذار کررہا ہوں۔
Top