Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 9
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ عَلٰي : پر۔ کی صَلَوٰتِهِمْ : اپنی نمازیں يُحَافِظُوْنَ : حفاظت کرنے والے ہیں
اور وہ اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں
وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰ تِھِمْ یُحَافِظُوْنَ ۔ (المومنون : 9) (اور وہ اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ ) ایک اور صفت کا بیان اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کی ایک اور صفت کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ ان صفات کا ذکر نماز ہی سے شروع ہوا تھا اور نماز ہی پر ختم کیا جارہا ہے۔ البتہ ! فرق یہ ہے کہ پہلے نماز کی روح یعنی نماز کے اندر خشوع کا ذکر کیا گیا تھا اور اب نماز کی محافظت یعنی اس کی دیکھ بھال اور اس کے اہتمام کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اور دوسرا فرق یہ ہے کہ پہلے صلوٰۃ کے لفظ کو واحد لایا گیا تھا اور اس آیت میں جمع لایا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں جنسِ نماز مراد تھی اور یہاں ایک ایک وقت کی نماز فرداً فرداً مراد ہے۔ نماز جہاں بھی ہو اور جب بھی ہو اگر اس میں خشوع نہیں تو وہ روح سے خالی نماز ہے۔ جس سے نما زکی صورت تو وجود میں آسکتی ہے نماز کی حقیقت نہیں اور صرف کسی چیز کی صورت حقیقت کے بغیر دیر تک باقی نہیں رہا کرتی۔ اور یہ صورت سے حقیقت کا سفر تب ممکن ہوتا ہے جب صورت اور سیرت دونوں کی محافظت کی جائے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ جیسے جیسے صورت بہتر ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے حقیقت کی طرف دھیان بڑھتا جاتا ہے اور جیسے جیسے حقیقت کی طرف دھیان بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے صورت کے اہتمام میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس لیے اصل توجہ سب سے پہلے صورت پر ہوتی ہے جس کے اندر سے حقیقت وجود میں آتی ہے۔ اس لیے اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی گئی کہ وہ اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں یعنی اس کے ایک ایک پہلو کی نگہداشت کرتے ہیں۔ وہ اوقاتِ نماز، آدابِ نماز، اور ارکان و اجزائِ نماز، غرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی پوری طرح نگہداشت کرتے ہیں۔ نماز کی تیاری کے لیے صاف کپڑوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ جسم کی پاکیزگی کا خیال کرتے ہیں۔ وضو، سنن، مستحبات اور آداب کے اہتمام کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ نماز کبھی وقت ٹال کر نہیں پڑھتے۔ جب تک ایک رکن کی ادائیگی نہیں ہوجاتی دوسرے رکن کی طرف انتقال نہیں کرتے۔ یعنی تعدیلِ ارکان کا اہتمام رکھتے ہیں۔ نماز میں جو کچھ پڑھتے ہیں اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرتے ہیں۔ اس کے معنی اور مفہوم پر توجہ دیتے اور اپنے دل میں اسے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حتی الامکان نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ وقت سے پہلے مسجد میں پہنچتے ہیں اور نہایت اطمینان سے نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے نکلتے ہیں۔ دل ان کا مسجد میں اٹکا رہتا ہے۔ جب تک نماز میں رہتے ہیں یقین رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے سامنے ہیں۔ ان کے دل پگھلتے اور آنکھوں سے آنسو برستے ہیں۔ اس طرح سے خشوع کی طرف ان کا سفر جاری رہتا ہے اور یہ سب کچھ وہ اس لیے کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ نماز باغ جنت کا پودا ہے اس کی طرف سے ذرا سی غفلت اور ناقدری اس کے بےثمر ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر اسے پورے اہتمام سے قائم رکھا گیا تو دین کا ایک ایک ستون باقی رہے گا اور اگر اس کی طرف سے لاپرواہی برتی گئی تو دین کی عمارت کو کسی وقت بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : اَلصَّلٰوۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ مَنْ اَقَامَھَا فَقَدْ اَقَامَ الدِّیْنِ وَمَنْ ھََدَمَھَا فَقَدْ ھَدَ مَ الدِّیْنِ ” نماز دین کا ستون ہے جس نے اسے قائم رکھا اس نے دین کو قائم رکھا اور جس نے اسے گرا دیا اس نے دین کو ڈھا دیا “۔
Top