Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 21
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ
لَقَدْ كَانَ : البتہ ہے یقینا لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْ : میں رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُسْوَةٌ : مثال (نمونہ) حَسَنَةٌ : اچھا بہترین لِّمَنْ : اس کے لیے جو كَانَ يَرْجُوا : امید رکھتا ہے اللّٰهَ : اللہ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ : اور روز آخرت وَذَكَرَ اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کرتا ہے كَثِيْرًا : کثرت سے
بلاشبہ تمہارے لئے (اے لوگوں ! ) بڑا ہی عمدہ نمونہ ہے رسول اللہ (کی زندگی) میں یعنی ہر اس شخص کے لئے جو امید رکھتا ہو اللہ (سے ملنے) کی اور وہ ڈرتا ہو قیامت کے دن (کی پیشی) سے اور وہ یاد کرتا ہو اللہ کو کثرت سے2
40 پیغمبر کے اسوئہ حسنہ کو اپنانے کی ہدایت و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بلاشبہ تمہارے لیے اے لوگو ایک بڑا ہی عمدہ نمونہ تھا رسول اللہ ۔ کی زندگی ۔ میں "۔ اور جب رسول اس جنگ کے دوران ہر محاذ پر پیش پیش تھے تو پھر تمہارے لئے پیچھے رہنا اور حیلے بازیاں کرنا کس طرح روا ہوسکتا ہے ؟ یہ آیت کریمہ اگرچہ نازل اس خاص سیاق وسباق اور پس منظر میں ہوئی مگر اس کا مفہوم عام ہے اور الفاظ و کلمات کے عموم کے ساتھ یہ زندگی کے تمام ادوار کو شامل اور عام ہے۔ اور یہ ایک اہم اصولی اور جامع ہدایت ہے کہ اہل ایمان کو زندگی کے ہر موقع و مقام اور ہر موڑ پر پیغمبر کے اسوئہ حسنہ کو اپنے سامنے رکھنا چاہیئے کہ یہی وہ کامل اور عمدہ نمونہ ہے جس میں کسی غلطی اور قصور کا کوئی خدشہ و اندیشہ نہیں۔ لیکن اللہ کے رسول کی پیروی کرنا اور آپ ﷺ کے اسوئہ حسنہ کو اپنانا اور اختیار کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں بلکہ اس سے وہی لوگ مشرف ہوسکتے ہیں جن کے اندر یہ تین بنیادی صفات پائی جاتی ہوں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید رکھتے ہوں۔ اور دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے دن کی حاضری اور اس کی پیشی سے ڈرتے ہوں۔ اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ کی یاد دلشاد سے اپنے دلوں کی دنیا کو آباد و شاداب رکھتے ہوں۔ سو ایسے ہی لوگ اس راہ کی آزمائشوں سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں اور ایسوں ہی کو راہ حق میں عزیمت و استقامت نصیب ہوسکتی ہے۔ سو اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ان منافقین کے اندر نہ خدا اور آخرت پر ایمان تھا اور نہ ہی یہ خدا کو یاد رکھنے والے تھے۔ اسی لیے ان کے خوف اور ڈر کا یہ عالم تھا کہ دشمنوں کے پسپا ہوجانے کے باوجود ان کے دلوں سے ان کی ہیبت نہیں گئی تھی اور یہ ابھی تک یہی سمجھتے تھے کہ وہ واپس نہیں گئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top