Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 21
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ
لَقَدْ كَانَ
: البتہ ہے یقینا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
فِيْ
: میں
رَسُوْلِ اللّٰهِ
: اللہ کا رسول
اُسْوَةٌ
: مثال (نمونہ)
حَسَنَةٌ
: اچھا بہترین
لِّمَنْ
: اس کے لیے جو
كَانَ يَرْجُوا
: امید رکھتا ہے
اللّٰهَ
: اللہ
وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ
: اور روز آخرت
وَذَكَرَ اللّٰهَ
: اور اللہ کو یاد کرتا ہے
كَثِيْرًا
: کثرت سے
بلاشبہ تمہارے لیے (اے مومنو ! ) رسول اللہ میں بہترین نمونہ ہے (خصوصاً ) ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے اللہ کی ملاقات اور آخرت کے دن کے آنے کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کی یاد کثرت سے کرتے ہیں
تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ ایک بہترین نمونہ ہیں اگر تم ایمان رکھتے ہو 21) { اسوۃ } چال ، ڈھنگ ، نمونہ عمل ، اسم ہے غیر کی پیروی واتباع میں انسان جس چال پر ہوتا ہے اس کا نام اسوہ ہے خواہ وہ اچھی ہو یا بری ، منفعت پہنچانے والی ہو یا ضرر رساں ہو۔ { اسوۃ حسنۃ } کا لفظ قرآن کریم میں تین بار استعمال ہوا ہے ایک بار اس جگہ اور دو بار سورة الممتحنہ میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ذکر میں۔ زیر نظر آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ” بلا شبہ تمہارے لئے (اے مومنو ! ) رسول اللہ ﷺ میں بہترین نمونہ ہے “۔ آپ ﷺ کے اس ایک ہی وصف اسوہ حسنہ کے متعلق اگر تمام لکھنے والے لکھتے رہیں اور بیان کرنے والے بیان کرتے رہیں تب بھی رسول اللہ ﷺ کا یہ وصف مکمل طور پر بیان نہیں ہوسکتا۔ دفتر تمام گشت وبہ پایاں رسید عمر ماھچناں در اول وصف تو ماندہ ایم انسان جب کسی شعبہ حیات میں قدم رکھتا ہے تو اس کی فطری خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس نے زندگی کے جس شعبے کو اختیار کیا ہے اس کے سامنے اس میں کوئی اچھا نمونہ ہو تاکہ وہ اسے دیکھ کر اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بناسکے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارک کا کمال یہ ہے کہ دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ﷺ کی زندگی کی روشنی میں اپنی زندگی کو بہتر بناسکتا ہے اس لئے کہ ادب واخلاق کا کوئی سبق ایسا نہیں جو ہمیں آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں نہ ملتا ہو۔ اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ یہ آیت اپنے الفاظ کے اعتبار سے عام ہے یا خاص ؟ تو یہ کہنا چاہیے کہ آیت اپنے الفاظ کے اعتبار سے عام ہے۔ اسے زندگی کے کسی ایک شعبہ کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا لیکن جس موقع پر اس کا نزول ہوا اس نے اسکی اہمیت کو چار چاند لگادیئے ہیں۔ یہ آیت غزوہ خندق کے ایام میں نازل ہوئی جب کہ دعوت حق پیش کرنے والوں کے راستہ میں پشئ آنے والی ساری مشکلات اور آلام ومصائب پوری شدت سے رونما ہوگئے۔ دشمن سارے عرب کو ساتھ لے کر آدھمکا ہے اور یہ حملہ اتنا اچانک ہے کہ اس کو پسپا کرنے کے لئے جس تیاری کی ضرورت ہے اس کے لئے خاطر خواہ وقت نہیں ، تعداد کم ہے ، سامان رسد کی اتنی قلت ہے کہ کئی وقت فاقہ کرنا پڑتا ہے۔ مدینہ کے یہودیوں نے عین وقت پر دوستی کا معاہدہ توڑ دیا ہے۔ ان کی غداری کے باعث حالات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ دشمن سیلاب کی طرح بڑھا چلا آرہا ہے۔ اس کے پہنچنے سے قبل مدینہ طیبہ کی مغربی سمت کو خندی کھود کر محفوظ بنادینا ازحد ضروری ہے۔ ان حالات میں نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے دوش بدوش موجود ہیں ، خندق کھودنے کا موقع آتا ہے تو ایک عام سپاہی کی طرح خندق کھودنے لگتے ہیں ، مٹی اٹھا اٹھا کر باہر پھینک رہے ہیں ، دوسرے مجاہدین کی طرح فاقہ کشی کی تکلیف بھی برداشت فرماتے ہیں ، اگر صحابہ نے پیٹ پر ایک پیٹی باندھی ہے تو شکم رسالت میں تین پیٹیاں بندھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ مہینہ بھر سخت سردی میں میدان جنگ میں صحابہ کے ساتھ دن رات رہ رہے ہیں ، دشمن کے لشکر جرار کو دیکھ کر بھی ذرا پریشان نہیں ہوتے۔ بنو قریظہ کی عہدشکنی کا علم ہوتا ہے تب بھی جبین مبارک پر بل نہیں پڑتے ، منافقین طرح طرح کی حیلہ سازیوں سے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے لگتے ہیں تب بھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ان تمام ناگفتہ بہ حالات میں عزم و استقامت کا پہاڑ بنے کھڑے ہیں ، قدم قدم پر صحابہ کی دلجوئی فرماتے ہیں۔ منافقین سے صرف نظر کرتے ہیں۔ دشمن کو مرعوب کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا۔ یہ موقع محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے مگر اس کے الفاظ عام ہیں اور اس کے منشاء کو صرف اس معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ نہیں ہے کہ صرف اسی لحاظ سے ان کے رسول کی زندگی مسلمانوں کے لئے نمونہ ہے بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے اس لئے آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر زمانہ اور ہر معاملہ میں آپ ﷺ کی زندگی کو اپنے لئے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اسی کے مطابق اپنی سیرت وکردار کو ڈھالیں۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی زندگی ایک نہایت ہی سادہ زندگی تھی 1 ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی تمام زندگی دنیوی اعتبار سے اول سے آخر تک نشیب و فراز کا ایک عجیب مرقع ہے۔ آپ ﷺ کی ولادت بےباپ ہوئی تھی ، ابھی ہوش سنبھالنے بھی نہ پائے تھے کہ موت نے ماں کی آغوش محبت سے جدا کردیا پھر اس کے چند ہی دن بعد دادا کا سایہ شفقت بھی سر سے اٹھ گیا۔ مختصر یہ کہ آپ ﷺ کا بچپن یوں یتیمی اور بےکسی میں گزرا ، جوان ہوئے تب بھی ایک مدت عسرت وناداری رفیق رہی پھر یکایک قدرت نے دولت ظاہری کو قدموں پر ڈال دیا اور آخر کار چالیس برس کے سن میں خالق کون و مکاں اور صناع زمین و آسمان کی طرف سے آپ ﷺ کو وہ خلعت نبوت عطا ہوئی جس کے سامنے کائنات کی بڑی سے بڑی نعمت بھی کچھ وقعت نہیں رکھتی لیکن اس کے ساتھ ہی ہر چہار طرف سے دشمنیوں اور پریشانیوں کا بھی سامنا ہوا یہاں تک کہ آخری دس برس کی بیشمار تکلیفوں اور مصیبتوں کے بعد عزیزوں کی مخالفت نے وطن کی مفارقت پر مجبور کا ۔ اب پھر آہستہ آہستہ زمانے نے رنگ بدلا اور ایک عمر ناکامی کے بعد اللہ رب العزت نے اس منشاء عالیہ کی تکمیل کا سامان مہیا کیا جس کے لئے آپ ﷺ معبوث ہوئے تھے یہاں تک کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدائوں نے حدود عرب سے نکل کر قیصروکسریٰ کے ایوانوں میں غلغلہ ڈال دیا مگر ان سارے تغیرات اور انقلابات میں ایک بات جو سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ ایک ہی طور پر زندگی بسر فرمائی۔ جب کچھ نہیں تھا تب بھی دل غنی تھا ، جب اللہ رب ذوالجلال والا کرام کی عنایت سے سب کچھ ہوگیا تب بھی غرور یا نخوت یا تصنع یا نمائش مطلق چھو نہ سکی اور ایسا ہو بھی کیونکر سکتا تھا کہ اس شہنشاہ دو سرا کی نظروں میں ان وطام دنیوی کی وقعت ہی کیا تھی کہ اس سے طبیعت پر کچھ اثر پڑتا۔ آپ ﷺ کی سادگی کی مثال اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ ﷺ جس طرح بچپن میں بکریاں چرایا کرتے تھے ایسے ہی نبوت وسلطنت مل جانے کے بعد بھی بکریوں کا دودھ دوہیا کرتے تھے اور پھر دودھ دوہنے پر ہی کیا موقوف ہے آپ ﷺ نے کبھی اپنے ذاتی کاموں کے لئے اپنے خدام تک کو تکلیف نہیں دی اور ہمیشہ اپنا سب کام اپنے ہاتھوں سے کیا چناچہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنے آپ کو دنیوی کام کاج میں اوروں سے ممتاز نہیں کیا بلکہ جیسے تم سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں اپنا اپنا کام کرتے ہو ایسے ہی آپ ﷺ بھی کیا کرتے تھے۔ آپ خود ہی اپنی بکریوں کا دودھ دوہتے تھے ، خود ہی اپنے کپڑوں پر پیوند لگا لیا کرتے تھے اور خود ہی اپنا جوتا گانٹھ لیتے غرض اپنے سب کام خود ہی کرلیتے تھے۔ (بحاری وترمذی) نبی اعظم وآخر ﷺ حسن معاشرت اور خوش خلقی میں بےمثال تھے 2 ۔ آپ ﷺ کا حسن معاشرت اور خوش خلقی بھی بےمثال تیں یہ مثل عام ہے کہ کوئی شخص اپنے خدمت گار کی نظروں میں ہیرو نہیں ہوسکتا کیونکہ بیرونی دنیا میں غیروں کے روبرو خواہ کوئی شخص اپنے آپ کو کتنا ہی کیوں نہ لیے دیئے رہے تاہم گھر کی خلوت اور تنہائی میں یہ وضع قائم رکھنا نہایت مشکل ہوتا ہے کیونکہ نوکروں اور گھر والوں کے سامنے چھوٹی چھوٹی باتوں میں آدمی کی بدمزاجی ، درشت خوئی ، ، زور رنجی اور اس قسم کے بیسیوں عیب کچھ نہ کچھ کھل ہی جاتے ہیں بلا شبہ یہ درست ہے مگر ہم اس معیار کو پیش نظر رکھ کر نبی کریم ﷺ کی طرز معاشرت کو لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس طرح کی کوئی بات کبھی کسی نے نہیں دیکھی۔ حضرت انس ؓ آپ ﷺ کے خادم خاص تھے ، ان کا بیان ہے کہ آٹھ برس کا تھا جب خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور برابر دس برس تک شرف یاب ملازمت رہا مگر اس تمام مدت میں نبی کریم ﷺ نے کبھی مجھے اف تک نہ کہا اور نہ ہی کبھی یہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا یا یہ کام کیوں نہیں کیا۔ (مشکوٰۃ ص 441) وہ کہتے ہیں کہ ایک بار ایسا ہوا کہ آپ ﷺ نے مجھے کہیں جانے کا حکم دیا ، میں وہاں جانے کے لئے نکلا لیکن راستے میں بچے کھیل رہے تھے اور میں کھیل میں مصروف ہوگیا ، میں وہیں کھیل رہا تھا کہ پیچھے سے آکر رسول اللہ ﷺ نے میری گردن پکڑی ، میں نے مڑ کر دیکھا تو آپ ﷺ مسکرا رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا انس میں نے تجھے کہاں بھیجا تھا ؟ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ﷺ میں جارہا ہوں۔ (مشکوٰۃ ص 441) انس ؓ ہی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے کبھی کوئی فحش بات نہیں نکلی تھی اور نہ ہی آپ ﷺ کسی پر لعنت کرتے تھے۔ عربوں کے خاص رواج میں ” تیری ناک خاک آلود ہو “ کے الفاظ کہے جاتے تھے اور زیادہ سے زیادہ کبھی ہوا تو یہ بات آپ ﷺ نے فرمائی ہوگی۔ (بخاری ص 893) آپ ﷺ نے خانگی تعلقات آدمی کی نیکی اور خوش خوئی کا معیار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ خیر کم خیر کملاھلہ (مشکوٰۃ ص 227) آپ ﷺ خود طبعا اور فطرتاً اس اصول کی بہترین مثال تھے۔ آپ ﷺ اپنے اہل بیت پر نہایت مہربان اور بےانتہا شفیق تھے ، عین عفوان شباب میں آپ ﷺ کی شادی خدیجہ ؓ سے ہوئی اس وقت سیدہ خدیجہ ؓ کی عمر 40 سال سے زائد ہورہی تھی اور آپ ﷺ 25 برس کے جوان تھے پھر آپ ﷺ پچیس سال سیدہ ؓ کے ساتھ رہے اور یہ حسن معاشرت کا ایک بےمثال نمونہ ہے اس تمام مدت میں کوئی خفیف سے خفیف بات بھی ایسی پیش نہیں آئی جو ذرا دیر کے لئے بھی کسی قسم کی شکر رنجی کا باعث ہوتی ۔ خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد مختلف ضرورتوں کے تحت آپ ﷺ نے نو دس شادیاں کیں اور جب یہ مثال اپنی جگہ قائم ہی رہی اور سیدہ خدیجہ ؓ کے رشتہ داروں اور ان کی سہیلیوں وغیرہ سے ساری زندگی بہت اچھا سلوک کیا بالکل اسی طرح جس طرح ان کی زندگی میں کیا کرتے تھے بہر حال حسن معاشرت کا ذکر ابھی آگے آئے گا کیونکہ قرآن کریم کی آیات اس سلسلہ میں اس سورة الاحزاب میں آنے والی ہیں۔ آپ ﷺ کو بچوں سے بھی بہت محبت تھی۔ آپ ﷺ کے اپنے نواسے نواسیاں جو سیدہ زینب ؓ کی اولاد تھیں اور سیدہ فاطمہ ؓ کی جیسے امامہ ، علی اور حسین ؓ ان سب کا نماز کے اندر ہی آپ ﷺ کے کندھوں پر سوار ہونا ، گود میں آجانا ، نماز میں آپ ﷺ کا ان کو اٹھا لینا وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔ جب لیٹتے تو ان میں سے جو بھی پاس ہوتا اس کو اپنے سینے پر بٹھا لیتے۔ اسامہ کی ناک صاف کرنا اور اس کا پاخانہ صاف کرنا ، ہاتھ منہ دھونا اور اسی طرح کے چھوٹے بچوں کے جو دوسرے کام ہوتی ہیں ان کے کرنے کا عام ذکر احادیث میں موجود ہے بلکہ چھوٹے بچوں سے جو پانچ چھ سال کی عمر کے ہوں ان سے کبھی بیٹھے بیٹھے کھیل بھی لیتے اور کھیل کی باتیں بھی کیا کرتے۔ انس ؓ کے چھوٹے بھائی عمیر ؓ تھے اور انس ؓ کہتے ہیں کہ ان سے کھیلتے اور کہتے یا عمیر مافعل النعیر اے عمیر نعیر کیسی ہے ؟ نعیر بلبل کے بچے کو کہا جاتا ہے اور عمیر ؓ نے ایک بلبل کا بچہ پال رکھا تھا اور اس کی خیرت آپ ﷺ اس سے پوچھتے اور اس طرح کی بیشمار مثالیں کتب احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی شجاعت وبہادری بھی بےمثل تھی 3) شجاعت بھی نبی کریم ﷺ میں بدرجہ اتم موجود تھی اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بہت مشکل کام ہے کہ کسی ایک صفت کو اوروں پر مقدم کیا جائے کیونکہ آپ ﷺ مجسمہ بھلائی اور خیر تھے اور ہر بھلائی اور خیر آپ ﷺ میں بدرجہ اتم موجود تھی اور شجاعت وبہادری بھی انہی میں سے ہے ۔ بات یہ ہے کہ سب کا ذکر یکبارگی نہیں کیا جاسکتا اس لئے ایک کے بعد ہی دوسری کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ اس جگہشجاعت کا ذکر پہلے کیا جارہا ہے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دوسرے جتنے مذاہب ہیں ان میں اپنے اپنے مقتدائوں کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں ان میں کسی جگہ کسی قوم کے مقتدا کا ذکر بھی شجاعت کے لحاظ سے نہیں کہا گیا اس لئے لوگ اس کو غیر ضروری سمجھنے لگے حالانکہ اسلام میں یہ صفت غیر ضروری نہیں بلکہ بہت ضروری ہے حالانکہیہ خیال بالکل غلط ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہ عرف عام میں شجاعت صرف تہوار اور بےباکی کا نام ہے اور اس کی نمائش فقط میدان کارزار میں سمجھی جاتی ہے حالانکہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ حقیقت میں سچی اور صحیح شجاعت وہ ہے جو مجاہدہ نفس اور مجادلاً ہوا و ہوس میں ظاہر کی جائے ، جو عفو اور حلم کی شان میں نمایاں ہو ، جو ثبات و استقلال کی صورت میں آشکارا ہو یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا لیس الشدید بالصرعۃ انما الشدید من یملک نفسہعند الغضب (صحیحین بحوالہ مشکوٰۃ ص 369) ” پہلوان وہی نہیں ہیجولوگوں کو پچھاڑ دے بلکہ اصل پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کا مالک ہو “۔ لیکن شجاعت کو اس کے عرفی معنوں میں لیا جائے تب ہی بلاشبہ وہبہت پسندیدہ اور ایک نہایت ہی پاکیزہ خوبی ہے کہ جو طبیعت اس صفت سے متصف نہ ہو وہ کس طرح بھی اخلاق انسانی کا بہترین اور کامل ترین نمونہ ہونے کے قابل نہیں کہی جاسکتی۔ بہرحال رسول عربی ﷺ میں صفت شجاعت اعلیٰ درجہ میں موجود تھی۔ انس ؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ اشجع الناس یعنی انتہا درجہ کے بہادر اور شجاع تھے چناچہ ایک رات کا ذکر ہے کہ لوگ مدینہ میں یکایک گھبرائے ہوئے اٹھے تو لوگ اس آواز کی طرف نکلے اور جب لوگ اس طرف جا رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ اس طرف سے واپس آرہے تھے کیونکہ آپ ﷺ سب آدمیوں سے پہلے تناہ ہی اس آواز کی طرف بڑھ گئے تھے ، آپ ﷺ نے لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو مت ، گھبرائو مت ، آپ ﷺ اس وقت برہنہ گھوڑے پر سوار تھے اور آپ ﷺ کے گلے میں تلوار حمائل تھی۔ (بخاری ص 426) آپ ﷺ کی یہ شجاعت ہر غزوہ میں بھی دیکھی گئی اور خصوصاً احد وحنین ، فتح مکہ اور الاحزاب میں۔ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ جب لڑائی کی شدت کم ہوتی تھی اور جوش و محنت سے آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں تو ہم نبی کریم ﷺ کی آڑ لیتے تھے اور ہم میں سے کوئی آدمی بھی دشمن سے اتنا قریب نہ ہوتا تھا جتنا آپ ﷺ ہوتے تھے ، جتنی لڑائی سخت ہوتی آپ ﷺ کا دل اتنا ہی زیادہ مضبوط ہوتا اور اطمینان کے ساتھ دیکھے جاتے خصوصاً غزوہ احد میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور اتنے نازکترین حالات میں بھی آپ ﷺ زخمی ہونے کے باوجود گھوڑے پر نہایت ہی دلیری کے ساتھ سوار ہو کر لوگوں کو پکار رہے تھے کہ انا النبی لاکذب۔ انا ابن عبدالمطلب کی صدا بلند کر رہے تھے اور لوگوں کو آواز دے رہے تھے کہ میں ادھر ہوں تم کہاں بھاگے جا رہے ہو۔ اس طرح آپ ﷺ نے لوگوں کو دوبارہجمع کیا اور وہ جمع ہوگئے ، ان کو ساتھ لے کر کفار مکہ پر حملہ کیا تو آپ ﷺ سب سے آگے تھے ۔ جس جنگ میں بھی آپ ﷺ شریک ہوتے سالار لشکر کی حیثیت سے آپ ﷺ ہمہشت قلب میں ہوتے تھے اور بلا شبہ آپ ﷺ ہی کی شجاعت لوگوں کی پشت پناہی کرتی تھی باوجود اس طرح لشکر میں آگے آگے رہنے کے آپ ﷺ کے ہاتھ سے صرف ابی بن خلف اور ایک اور آدمی کی ہلاکت ہوئی اس لئے خاموش شجاعت لوگوں کو بہت عجیب معلوم ہوتی ہوگی لیکن یہ رحمت للعالمین کی شان ہے جو دوسرے انسانوں میں کہاں پائی جاتی تھی۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کا ثبات و استقلال واضح تھا 4) ثبات اور شجاعت حقیقت میں ایک ہی صفت کی دو مختلف صورتیں ہیں اور دونوں میں فرق ہے تو صرف یہ کہ شجاعت میں قوت مدافعت کا پہلو زیادہ نکلتا ہے اور ثبات میں طاقت برداشت کا گویا ایک میں کیفیت فاعل غالب ہے اور دوسری میں قوت انفعالی لیکن بہرحال وہی شخص شجاع اور ثابت قدم ہوسکتا ہے جو مصائب وآلام میں پریشان نہ ہو ، جو تکلیفوں اور سختیوں سے نہ گھبرائے ، جو حادثوں کو سکون اور سکوت سے برداشت کرے اور جو شدت خوف وخطر میں مطمئن اور مستقل رہے اور جب تک کسی میں یہ باتیں جمع نہ ہوں تب تک اس میں شجاعت ہوسکتی ہے اور نہ ثبات اس لئے حقیقت میں یہ دونوں ایک ہی شے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی ایک دو مثالیں آپ نے شجاعت کی دیکھ اور پڑھ لیں اب آپ ﷺ کے ثبات و استقلال کی ایک دو مثالیں بھی ملاحظہ کرلیں تفصیل آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی اس جگہ ممکن ہی نہیں اس کے لئے الگ کتابیں درکار ہیں۔ آپ ﷺ کے ثبات و استقلال کی ایک مثال آپ ﷺ کی تبلیغ اور تعلیم اسلام ہے ، ہجرت کے بعد کے زمانہ کو ابھی آپ چھوڑ دیں تب بھی وہ گیارہ سال جو آغاز رسالت سے ہجرت تک مکہ مکرمہ میں وقت گزارا اس کو دیکھیں کہ جو دل شکن مخالفتیں اور جان کا ہ مصیبتیں دعوت حق میں وہاں پیش آئیں وہ ثبات و استقلال کیا یسی داستان ہیں جس کی نظیر دنیا کی تاریخ نہیں دکھا سکتی۔ آپ غور کریں کہ کوئی بڑی سے بڑی دنیوی غرض اور سخت سے سخت قوت ارادی بھی اتنی مسلسل ناکامیوں اور متواتر مایوسیوں کے مقابلہ میں نہیں رہ کستی جب تک کہ تائید غیبی اور امداد ربانی اس کے ساتھ نہ ہو۔ جب آپ ﷺ نے توحید کا بیان اور بت پرستی کی مذمت شروع کی تو اہل قریش نے آپ ﷺ کے چچا ابوطالب سے شکایت کی اور چاہا کہ وہ آپ ﷺ کہ کہہ سن کر اس سے روک دیں۔ ابو طالب نے خاندان کے لوگوں کو کئی بار ٹالا لیکن انجام کار جب انہوں نے مجبور کرلیا تو اس نے آپ ﷺ کو بلایا اور آپ ﷺ سے خاندان کی یہ ساری بات کہہ دی اور اپیل کی کہ میری اور اپنی جان پر رحم کرو اور کچھ خاندان کی بات کو مان لو۔ آپ ﷺ نے چچا کا تفصیلی بیان سنا اور نہایت ثبات و استقلال سے جواب دیا کہ اے چچا ! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لاکررکھ دیں کہ میں اس بات کو چھوڑ دوں تب بھی اللہ گواہ ہے کہ میں اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ اللہ اسے پورا نہ کرے یا میں خود ہلاک نہ ہوجائوں یہ کہہ کر آپ ﷺ آبدیدہ ہوگئے اور اٹھ کر چل دیئے۔ (سیرت ابن ہشام ص 140) اہل مکہ جب ابو طالب کی طرف سے مایوس ہوئے تو ایک دن شام کے وقت قریش مکہ نے ایک مجلس بلائی اور آپ ﷺ کو بھی مجلس میں آنے کی دعوت دی ، آپ ﷺ تشریف لے آئے ، انہوں نے بہت کچھ کہنے سننے کے بعد آخر الکلام کہا کہا گر تو نے یہ نئی نئی باتیں اس لئے پھیلانا شروع کی ہیں کہ تو دولت مند ہوجائے تو ہم نے آپس میں مشورہ کرکے تیرے لئے اتنا روپیہ جمع کرلیا ہے کہ تو ہم سے زیادہ مالدار ہوجائے۔ اگر ہمیں سرداری چاہتا ہے تو ہم تجھے اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں۔ اگر تجھے آسیب ہوگیا ہے تو ہم اپنے خرچ سے تیرا علاج کرانے پر آمادہ ہیں یہ اور اسی طرح کی بہت سی باتیں سن کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ میں ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہیں ہے نہ ہی میں مال چاہتا ہوں ، نہ بزرگی ، نہ اقتدار اور نہ ہی میں دیوانہ ہوں اللہ نے مجھے تمہاری ہدایت کے لئے مبعوث کیا ہے اور میں اللہ کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوں اگر تم مان لوگے تو فلاں پائو گے اگر نہیں مانوگے تو میں اللہ کے حکم پر صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ مجھ میں اور تم میں فیصلہ کردے جو اس کو منظور ہو۔ اس پر وہ لوگ جزبز ہوئے اور کہنے لگے اچھا اگر تو خدا کا رسول ہے تو ہمارے ملک سے ان پہاڑوں کو ہٹا دے اور عراق وعجم کی طرح یہاں نہریں بہادے اور ہمارے بزرگوں کو زندہ کردے ؟ آپ ﷺ نے نہایت ثبات و استقلال سے فرمایا مجھے اللہ نے ان باتوں کے لئے نہیں بھیجا ! مجھے جو حکم دیا گیا ہے وہی کرتا ہوں اور جو پیغام اس نے مجھے پہنچایا ہے اسے میں تم تک پہنچاتا ہوں اور اس کو ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔ وہ دوبارہ بولے کہ اچھا تو ہمارے لئے کچھ نہیں کرتا تو اپنے ہی واسطے ایک باغ اور محل اور سونے چاندی کے خزانے مانگ لے جس سے تیری ناداری اور تنگ دستی دور ہوجائے اور ہم اس طرح تیری رسالت کو مان لیں۔ اس طرح ایک بہت بڑی لمبی گفتگو ہوئی لیکن لا حاصل۔ آپ ﷺ وہاں سے اٹھے اور چل دیئے اور ادھر مکہ والوں نے مخالفت تیز سے تیز کردی۔ نبی کریم ﷺ کے استقلال وثبات میں کچھ فرق نہ آیا تا آنکہ آپ ﷺ کو ہجرت کا حکم ہوا اور آپ ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے اور دوران ہجرت بھی استقلال وثبات کے کتنے مظاہرے ہوئے۔ نبی اعظم وآخر ﷺ میں حلم و تحمل وافرموجود تھا 5) گزشتہ واقعات واشارات تو عرفی شہادت اور ظاہری بہادری سے تعلق رکھتے ہیں لیکن آپ ﷺ کی طبیعت کا اصل میلان اور آپ ﷺ کے خلق کریم کا صحیح نمونہ شجاعت کے دوسرے مفہوم یعنی ضبط نفس ، بردباری اور حلم کے موقعوں پر نظرآتا ہے۔ آپ سن چکے ہوں گے کہ جنگ احد میں آپ ﷺ کا دانت مبارک عتبہ بن ابی وقاص کے مارنے کے صدمہ سے شہید ہوگیا اور چہرہاقدس عبداللہ بن شہاب کے حملہ سے مجروح اور خون آلود ہوگیا تو آپ ﷺ کے صحابہ کرام آپ ﷺ کی اس تکلیف سے نہایت ملول اور رنجیدہ ہوئے اور ان پر یہ حادثہ بہت ہی شاق گزرا ، انہوں نے ان حالات میں عرض کیا کہ کاش آپ ﷺ ان لوگوں کے حق میں ان کی ہلاکت کی دعا فرمائیں تاکہ یہ اس ظلم کے نتیجہ سے دو چار ہوجائیں۔ آپ ﷺ نے ان کا جواب دیا کہ میں لعنت اور بددعا کے لئے نہیں آیا خصوصاً جبکہ میری ذات اس صدمہ متاثر ہوئی اور میں اپنی ذات کے لئے ان کے حق میں بددعا کیسے کرسکتا ہوں جبکہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے مجھے رحمت للعالمین بنا کر بھیجا ہے ، اپنی قوم کی تکلیف کا باعث اور دوسروں پر ظلم کی وجہ سے تو میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے ایسی اپیل کرسکتا ہوں لیکن اپنی ذات کے لئے میرے لئے یہ کیونکر جائز ہوسکتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے اپیل کی کہ اے بار الہ ! میری قومکو بخش دے اور ان کو راہ راست کی ہدایت کر کیونکہ وہ جانتے نہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ (شفا 47) حلم و تحمل کی یہ مثال کہیں سے مل سکتی ہے اور ہے کوئی مائی کا لال جو حلم و تحمل کا اس طرح مظاہرہ کرسکے۔ سبحان اللہ ! یہ خیر طلبی ، یہ عذر خواہی کس حال میں ، کن لوگوں کی طرف سے کی گئی اس وقت جب دہان اقدس سے خون جاری تھا ، خود کے دو حلقے رخسار گلگوں میں ایسے گہرے اتر گئے تھے کہ ابو عبیدہ بن الجراح نے دانتوں سے پکڑ کر بمشکل ان کو نکالا تو اس سے ان کا دانت گر گیا اور ان لوگوں کے لئے جو شروع سے آپ ﷺ کے درپے آزار ہی تھے ، جن کے مظالم گوناگوں نے آپ ﷺ کو ترک وطن اور مفارقت احباب پر مجبور کیا ، جن کے تشدد وتعذیب سے آپ ﷺ کے بیسیوں رفیق اور دوست تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہوگئے اور جن کی روز افزوں زیادتیوں سے آخر آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی طبعی مروت اور رحم دلی کے برخلاف تلوار اٹھانی پڑی اور جس کا خونریز اور جانکاہ صدمہ اس وقت جو دوسروں پر نہیں پڑا بلکہ فوراً آپ ﷺ کی ذات بابرکات پر اتنی شدت سے پڑا ایسی حالت میں ایسے لوگوں کے لئے ایسی دعا اس سے بڑھ کر بردباری ، تحمل اور حلم کی کیا مثال ہوسکتی ہے۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک بار طفیل بن عمرو نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا یارسول اللہ ﷺ قبیلہ دوس نافرمانی اور سرکشی کرتا ہے اور اسلام لانے سے انکاری ہے ، آپ ﷺ ان کے حق میں بددعاکیجئے۔ آپ ﷺ نے طفیل کی بات سنی تو ہاتھ اٹھائے لوگ حیران تھے کہ اب تو آپ ﷺ بددعا کریں گے مگر آپ ﷺ نے زبان سے جو الفاظ ادا کئے وہ کیا تھے ؟ ” اے بارالٰہی ! دوس کو ہدایات عطا فرما اور ان کو راہ راست دکھلا اور ان کو دائرہاسلام میں لے آ ۔ “ غزوہ ذات الرقاع 4 ھ کا واقعہ ہے نبی کریم ﷺ احباب واصحاب سے الگ ہو کر ایک درخت کے نیچے دوپہر کے وقت آرام فرما رہے تھے کہ دشمنوں میں سے ایک شخص غورث بن حارث اس جگہ پہنچا اور اس نے آپ ﷺ کو تنہا سوتا ہوا پاکر آپ ﷺ کے قتل کے ارادہ سے تلوار کھینچی کہ اتنے میں آپ ﷺ کی آنکھ کھل گئی ، دیکھا تو دشمن ننگی تلوار لئے سر پر کھڑا تھا۔ اس نے آپ کو بیدار دیکھ کر کہا کہ اب بتائیے آپ ﷺ کو میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ؟ آپ ﷺ نے ذرا زور دار آواز سے فرمایا ” اللہ “ اب اسے اللہ کی قدرت کہئے یا رعب نبوت سمجھئے کہ وہ اس لفظ اللہ کی گرج دار آواز سے کانپ گیا اور آپ ﷺ نے فوراً جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے تلوار کھینچ لی اور تلوار سونت کر فرمایا اب تو بتا کر تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ اس نے کہا کوئی نہیں مگر ہاں ! تو ہی عمدہ بدلہ دینے والا ہے۔ آپ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور اس سے کسی طرح کا کوئی بدلہ نہیں لیا اور نہ ہی اس کو کوئی گزند پہنچائی۔ اس نے واپس جاکر اپنے لوگوں میں جو بیان دیا وہ یہ تھا کہ میں بہترین خلق کے پاس سے آیا ہوں اور اسی وجہ سے وہ بعد میں مسلمان ہوگیا۔ نبی اعظم وآخر ﷺ میں عفو ورحم کمال درجہ کا تھا 6) غور سے دیکھا جائے تو حلم اور عفو ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں وہی شخص دوسروں کی لغزشوں اور غلطیوں سے چشم پوشی کرسکتا ہے جسے اپنے نفس پر اختیار اور اپنی طبیعت پر اقتدار ہو ورنہ جس میں حلم نہیں ہے اس میں رحم ممکن ہی نہیں ہے۔ مغلوب الغیظ آدمی کو تو اوروں سے درگزر کرنے کی جگہ اکثر خود اپنی تیز مزاجی اور زود رنجی پر ان سے معافی مانگنے اور معذرت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ حقیقت میں جس طرح حلم شجاعت کے ایک خاص اور زیادہ اعلیٰ درجہ کا نام ہے ویسے ہی رحم حلم کی ایک مخصوص اور زیادہ پاکیزہ صورت سمجھنی چاہیے کیونکہ حلم تو یہ ہے کہ آدمی ناپسندیدہ حالات اور خلاف طبیعت واقعات کو سنجیدگی اور متانت سے برداشت کرے اور ان کے ناگوارہونے کی وجہ سے از خود رختہ نہ ہوجائے اور رحم یہ ہے کہ وہ ان حالات کے باعث اور ان واقعات کے موجب شخص پر دسترس رکھنے کے باوجود بھی اسے معاف کردے اور اس کی قابل سرزنش حرکتوں پر اسے کچھ نہ کہے۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ { والکاظمین………… المحسنین } (آل عمران 134:3) اور غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور اللہ بھلائی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے “۔ یہی وجہ ہے کہ سچی شجاعت کے لئے حلم اور رحم جزو لازم سمجھے گئے ہیں اور اسی وجہ سے یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ جس طبیعت میں اتنا اعلیٰ درجہ کا حلم اور رحم جزو لازم سمجھے گئے ہیں اور اسی وجہ سے یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ جس طبیعت میں اتنا اعلیٰ درجہ کا حلم موجود ہو جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا اس میں عفو ورحم کی صفات حسنہ علیٰ وجہ کمال نہ پائی جائیں۔ چناچہ واقعات شاہد ہیں کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نہایت ہی رحیم المزاج واقع ہوئے تھے اور حتی المقدور اپنے بڑے سے بڑے دشمنوں کو بھی معاف فرمادیتے تھے۔ قریش مکہ سے زیادہ دشمن آپ ﷺ کے اور کون تھے ؟ اور ان سے زیادہ کس کے ہاتھوں آپ ﷺ کو تکلیفیں پہنیس تھیں۔ اسی لئے فتح مکہ کے وقت ان سب کو یقین تھا کہ ان کی ایک ایک بات کا ان سے بدلہ لیا جائے گا اور ان کی سابقہ جفائیں ہی ان کی تباہی اور بربادی کا سبب بن جائیں گی لیکن آپ ﷺ جب تشریف لائے تو آپ ﷺ نے کسی کو بھی کچھ نہیں کہا بلکہ سب کو اعلاناً معاف کردیا پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ آپس میں کیا کہتے تھے کہ میں تم سے کیا برتائو کروں گا ؟ انہوں نے کہا کہ ہم مخمصہ میں تھے ایک یہ کہ جو ہم نے کیا وہی ہم سے ہوگا اور دوسرا یہ کہ آپ ﷺ اچھا ہی سلوک کریں گے کیونکہ آپ ﷺ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ ﷺ نے یوسف (علیہ السلام) کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے بھائی یوسف کی طرح اپنے بھائیوں کو معاف کردینے کا اعلان کرتا ہوں کہ آج تم پر کوئی الزام نہیں ، اللہ تم کو معاف کردے بلاشبہ وہ تمام رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ خیبر کی ایک یہودی عورت زینب بنت حارث نے آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی بکری پیش کی جس میں اس نے زہر ملا دیا تھا اور آپ اور صحابہ کرام اس میں سے کھانے لگے کہ اتنے میں آپ ﷺ نے سب کو ہاتھ روکنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ گوشت مسموم ہے پھر آپ ﷺ نے اس عورت کو بلا کر اس سے پوچھا تو اس نے یہ عذر کیا کہ میں آپ ﷺ کے دعویٰ نبوت کی تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ اگر آپ ﷺ پیغمبر ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو آگاہ کردے اور آپ ﷺ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا کہ آپ ﷺ اس کو نہیں کھائیں گے۔ آپ ﷺ نے اس عورت کو معاف کردیا حالانکہ آپ ﷺ کے صحابہ میں سے ایک صاحب اس زہر کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور خود آپ ﷺ پر بھی اس زہر کا اثر ہوا کہ وہ زہر بہت ہی سخت قسم کا تھا کہ زبان پر رکھتے ہی وہ نفوذ کر گیا… سلمہ کہتے ہیں کہ ایک روز میں مدینہ سے نکلا اور غابہ کی طرف چلا ، جب میں جنگل کے پاس پہنچا تو مجھے عبدالرحمن بن عوف کا غلام آتا ہوا ملا اور اس نے مجھ سے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی اونٹنیاں چور لے گئے ہیں ، میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ تھے ؟ اس نے کہا غطفان اور فزارہ کے لوگ تھے میں نے وہیں تین نعرے لگائے یا صباحایا صباحا یا صباحا اتنے زور سے کہ جنگل گونج اٹھا۔ پھر میں ان کے تعاقب میں بھاگا تو میں نے تھوڑی دور پر ان کو جالیا ، وہ پانی پینے کو ٹھہرے تھے میں نے ان پر تیر برسانے شروع کیے اور رجز پڑھنے لگا یہاں تک کہ وہاونٹنیاں چھوڑ کر بھاگ گئے اور میں ان اونٹنیوں کو گھیر لایا اور راستے میں مجھے آپ ﷺ آتے ہوئے ملے میں نے آپ ﷺ کو سارا قصہ کہہ سنایا اور عرض کی کہ وہ لوگ ابھی پیاسے ہیں اگر ان کے پیچھے کچھ آدمی بھیج دیئے جائیں تو غالباً وہ گرفتار ہوسکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے ابن الاکواع ! اب تم نے اپنا مال پالیا اب ان کو جانے دو وہ اپنے ساتھیوں سے جاملے ہوں گے۔ (بخاری ص 427)… ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوار بھیجے وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو پکڑ لائے اور اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا ، جب آپ ﷺ وہاں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے اس سے کہا اے ثمامہ اب تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ اس نے جواب دیا اے محمد ! ﷺ میرا ارادہ بھلائی کا ہے ، اگر تو مجھے قتل کردے گا تو مجھ پر بہت سے خون ہیں یعنی میرا قتل حق بجانب ہوگا اور اگر تو احسان کرے گا تو وہ ایک شخص کے ساتھ ہوگا جو شکر گزار رہے گا اور اگر تو مجھ سے کچھ مال وصول کرنا چاہتا ہے تو جو تیرا جی چاہے مانگ لے۔ آپ ﷺ نے ایک دو دن کے بعد اسے چھوڑ دیا۔ رہا ہو کر وہ مسجد کے باہر چلا گیا وہاں سے ذرا دیر میں نہا دھو کر پھر آیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور کہنے لگا یارسول اللہ ! ﷺ دنیا میں مجھے آپ ﷺ سے زیادہ عداوت اور آپ ﷺ کے مذہب سے زیادہ نفرت کسی چیز سے نہ تھی مگر اب مجھے آپ ﷺ سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہے اور آپ ﷺ کا مذہب جو اب میرا بھی مذہب ہے سب سے زیادہ مرغوب ہے۔ (بخاری ص 627)… اس سے بھی زیادہ رحم وعفو کا واقع حاطب ابن ابی بلتعہ کا ہے۔ حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے اور زبیر اور مقداد کو روضہ خاج کی طرف روانہ کیا اور فرمایا کہ وہاں ایک شتر سوار عورت ہے اور اس کے پاس ایک خط ہے وہ لے آئو ۔ ہم چلے اور جب اس باغ میں پہنچے تو وہاں وہی عورتملی ہم نے اس سے خط مانگا تو اس نے انکار کیا مگر ہمیں یقین تھا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان بھی غلط نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ ﷺ کو یہ اطلاع یقینا اللہ تعالیٰ نے دی ہوگی اس لئے ہم نے اس سے کہا کہ یا تو تو خود ہی خط دے دے ورنہ ہم تیری تلاشی لیں گے ، ہمارا یہ اصرار ویقین دیکھ کر اس نے اپنے جوڑے میں سے خط نکالا اور ہم وہ لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے دیکھا تو وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کا تھا جو اس نے بعض مشرکین کے نام لکھا تھا اور اس نے ان کو نبی کریم ﷺ کے ارادوں اور تجویذوں وغیرہ کی اطلاع دی تھی۔ آپ ﷺ نے حاطب بن ابی بلتعہ سے پوچھا اے حاطب ! یہ کیا ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! ذرا ٹھہرئے میں آپ ﷺ کو بتاتا ہوں کہ میں اہل قریش میں سے تو ہوں نہیں کہ ان کو میری قرابت داری کا پاس ہو اور مہاجرین کے تو ان کے ساتھ رشتہ داری کے تعلقات ہیں اور ان کے اعزہ مکہ میں ہیں جوان کے اہل و عیال اور مال ومنال کی حفاظت کرتے ہیں مگر میرا تو وہاں کوئی بھی نہیں اس لئے میں نے یہ جاسوسی اور خیررسانی اس خیال سے کی تاکہ میرا بھی قریش پر کوئی احسان ہوجائے اور وہ میرے اہل و عیال کو کچھ نہ کہیں ورنہ میں نے یہ فعل کفر و ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر صحابہ کرام سے فرمایا کہ اس نے سچ کہہ دیا ہے۔ حضرت عمر ؓ بولے یارسول اللہ ﷺ اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن ماردوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ عمر یہ شخص جنگ بدر میں شریک تھا ، یہ سن کر حضرت عمر ؓ کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے اور کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ (بخاری ص 567) عفو ورحم کے واقعات اتنے ہیں کہ اگر ان کو تحریر کرنا شروع کردیا تو پھر بات بہت ہی لمبی ہوجائے گی ایک دو اشارات سے زیادہ کچھ نہیں لکھا جاسکتا۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کا صبر وشکر کمال کو پہنچا ہوا تھا 7 ۔ صبروشکر دنیا میں انسان کے لئے نہایت ہی ضروری اور مفید صفت ہے ، اس کا تعلق ایک طرف تو حلم سے ہے اور دوسری طرف تسلیم ورضا سے۔ حلم اس حال میں ممدوح ہے جب کہ آدمی قدرت ہوتے ہوئے بھی بجا غصے کو دبا لے لیکن صبر کے قابل تعریف ہونے میں قدرت اور استطاعت کی شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی آدمی انسانی یا آسمانی خلاف طبع بات کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرلیتا ہے اور اس پر جزع وفزع اور داد وفریاد کرنے سے باز رہتا ہے تو وہی صبر ہے بلا شبہ آپ ﷺ شدئد پر صبر کرتے تھے مگر آپ ﷺ کی تسلیم ورضا ناخوش آئندہ باتوں کی امکانی مدافعت میں مانع نہ تھی۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین تھا لیکن یہ توکل آپ ﷺ کی سعی و کوشش میں مخل نہ تھا۔ شیرازی کہتے ہیں کہ گفت پیغمبر بہ آواز بلند بر توکل زانوئے اشتربہ بند آپ ﷺ بےانتہا صابر تھے ، کفار مکہ کے ہاتھ سے آپ ﷺ کو جو ایذائیں پہنچیں ان کو کون نہیں جانتا بلاشبہ ان کو برداشت کرنا آسان کام نہ تھا۔ آپ ﷺ ہی کا جگر تھا کہ آپ ﷺ نے ان پر صبر کیا اور کبھی اپنے فرض کی بجالانے میں اضطرار اور اضطراب کو دخل نہ دیا حالانکہ یہ فطری چیزیں ہیں۔ آپ ﷺ کے وعظ ونصیحت پر تمسخر اور استہزاء تو شروع ہی سے کیا جاتا تھا پھر نوبت سب و شتم پر پہنچی۔ وہ لوگ کبھی آپ ﷺ کو دیوانہ اور مجنون کہتے تھے ، کبھی ساحر اور عیار قرار دیتے تھے ، کبھی آپ ﷺ کی ناداری اور بےکسی پر آوازے کستے تھے۔ جب ان باتوں سے کچھ نتیجہ نہ نکلا تو انہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ اور زیادتیاں ، گستاخیاں اور بےحرمتی کا برتائوشروع کیا۔ آپ ﷺ کے راستے میں ہر طرح کے کانٹے بچھائے۔ جب آپ ﷺ کعبہ میں نماز ادا فرماتے تھے تو کفار آپ ﷺ کو ہر طرح چھیڑتے اور پریشان کرتے تھے چناچہ ایک دفعہ ایک شخص نے آپ ﷺ پر خاک ڈال دی اور آپ ﷺ اس حال میں گھر تشریف لائے تو آپ ﷺ کی صاحبزادی نے مٹی جھاڑ دی اور سر دھلایا اور وہ روتی جاتی تھیں۔ آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا تو فرمایا بیٹی رو مت ! بلا شبہ اللہ تیرے باپ کا محافظ ونگہبان ہے۔ (ابن ہشام ص 327)… ایک روز اسی طرح آپ ﷺ سایہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے ، اس دن کعبہ کے نزدیک اونٹ ذبح کئے گئے تھے ، ابوجہل نے اپنے گماشتوں کو حکم دیا کہ وہ ایک اونٹ کا اوجھراٹھالائیں اور جب نبی کریم ﷺ عنہ سجدہ کی حالت میں ہوں ان پر وہ اوجھر ڈال دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ، اتفاق سے حضرت علی ؓ وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے اس اوجھر کو آپ ﷺ سے کھینچ کر اتارا۔ بعض روایت میں سیدہ فاطمہ ؓ کا ذکر بھی آیا ہے کہ اس اوجھر کو کھینچ کر اتارنے والی وہ تھیں۔ (بخاری ص 74)… ایک بار عروہ بن زبیر نے عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جو بدسلوکیاں کیں ان میں بڑی بدسلوکی کون سی تھی جو آپ ﷺ کو معلوم ہو ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک روز آپ ﷺ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط ادھر آنکلا اس نے عین قیام کی حالت میں آپ ﷺ کی گردن پر ایککپڑا لپیٹ کر نہایت سختی سے اس کپڑے کو بٹ ڈالنا شروع کیا اور آپ ﷺ کا گلا بہت ہی سخت سے گھونٹا اگر اس وقت ابوبکر صدیق ؓ اس طرح نہ آگئے ہوتے تو معلوم نہیں کیا ہوتا ؟ ابوبکر ؓ نے آکر عقبہ کو کندھوں سے پکڑا اور دور دھکیل دیا اور کہا کہ کیا تم اس شخص کو اس طرح مار ڈالنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔ (بخاری 59)… اسی طرح بیسیوں نہیں سینکڑوں تکلیفیں آپ ﷺ کو دی گئی تھیں لیکن آپ ﷺ ان کو اس طرح برداشت کرتے رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں نہ تو کبھی حرف شکایت زبان پر لائے اور نہ اس طرح کی ذلیل حرکتیں کرنے والوں کو کوئی بددعا دی ، نہ بدزبانی کی اور یہ وہ صبر ہے جس کی مثال کسی اور جگہ سے نہیں جاسکتی لیکن غور کیجئے کہ آخر آپ ﷺ کا قصور کیا تھا جو آپ ﷺ کو اس طرح کے حالات پیش آئے ؟ قصور صرف اور صرف یہ تھا کہ آپ ﷺ وہ بات کہتے تھے جو اس زمانے میں کم از کم کوئی دوسرا نہیں کہتا تھا اور جو کہتا تھا وہ آپ ﷺ ہی سے سن کر کہتا تھا ، وہ بات کیا تھی ؟ یہی کہ لوگو ! اللہ کے سوا تمہارا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں ، کوئی الٰہ اور معبود نہیں ، کوئی نہیں جس کے نام کی تم نذر ونیاز دو اور کوئی نہیں جو تم کو اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے قریب کردے اور کوئی نہیں جو انپی مرضی سے تمہاری اللہ رب العزت کے ہاں سفارش کرے۔ یہ جتنے الٰہ اور معبود تم نے بنارکھے ہیں جن کے بت بنابنا کر تم پرستش کرتے ہو یہ سب اللہ کے بندے تھے اور ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو تمہاری بگڑی کو سنوار سکے ۔ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے ساتھ کسی اور کو شریک مت ٹھہرائو۔ لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی نہکرو۔ آپس میں مت لڑو ، یادرکھو کہ یہ جو کچھ تم کر رہے ہو ایک دن تم کو اس کیے کا حساب دینا ہے اور اگر اس روز تم پھنس گئے تو تم کو کوئی چھڑانے والا نہیں ہوگا یہ اور اس طرح کی بیسیوں باتیں تھیں جن سے آپ ﷺ ان کو روکتے تھے لیکن وہ ان باتوں کو سن کر برداشت نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ شخص پاگل ہوگیا ہے اور اس نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے یا اس پر کسی نے جادو کردیا ہے اس لئے یہ بہکی بہکی باتیں کررہا ہے۔ وہ اس طرح دکھ پہنچا کر ثابت کرتے تھے کہ یہ جو کہتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اگر فی الواقع یہ اللہ کا رسول ہوتا تو ہم جس طرح اس کے ساتھ کر رہے ہیں اس کا اللہ اگر ایسا ہی دانا وبینا اور ایسا ہی طاقتور ہے جیسا کہ یہ کہتا ہے تو وہ ہم پر عذاب کیوں نہیں کرتا اور اس کو ہماری ان تکلیفوں سے کیوں نہیں بچاتا اور اکثر اوقات وہ یہ مطالبہ بھی کرتے تھے کہ تم اپنے اس رب کو بلاتے کیوں نہیں اور وہ ہم کو ہمارے کیے کی پاداش میں کیوں نہیں پکڑتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کی خیالی باتیں ہیں جو یہ کرتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ایسی باتیں پیش کرنے سے باز آجائے اور ہم اس کا راستہ چھوڑ دیں… آپ ﷺ کے ساتھ تو خیر ہوا جو ہوا اس کا اتنا غم آپ ﷺ کو نہیں تھا لیکن آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کو آپ ﷺ سنتے تو آبدیدہ ہوجاتے اور آپ ﷺ کو بہت تکلیف پہنچتی تھی۔ آپ ﷺ کے صحابہ کرام کو جو جو اور جس جس طرح تکلیفیں دی گئیں ان کی داستان بہت طولانی ہے اور اس جگہ اتنی گنجائش نہیں کہ ان کا ذکر کیا جائے۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی سخاوت کا درجہ بہت بلند تھا 8 ۔ فضائل انسانی میں دوسروں کی نفع رسانی کے لحاظ سے سخاوت کا درجہ سب سے مقدم ہے کیونکہ علی العموم عوام کو جتنا عملی فائدہ بظاہر اس سے پہنچتا ہے اتنا اور کسی سے نہیں پہنچتا۔ سخاوت کے لئے یہی ضروری نہیں ہے کہ آدمی دولت مند ہی ہو اور ہزاروں لاکھوں روپے خیرات کرے ، بلکہ سچی سخاوت اور فیاضی یہ ہے کہ آدمی مقدور بھردوسروں کو فائدہ پہنچانے میں دریغ نہ کرے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جو نعمتیں اس کو عطا فرمائی ہیں ان میں مستحقین کو شریک کرنے میں بخل سے کام نہ لے اس کے لئے دولت کی اتنی ضرورت نہیں جس قدر نیک دل کی حاجت ہے کیونکہ یقینا وہ غریب آدمی جو اپنا پیٹ کاٹ کر کسی بھوکے کو اپنی روکھی سوکھی روٹی میں سے ایک ٹکڑا دے دیتا ہے اس کروڑ پتی سے بدر جہا قابل ستائش اور مستحق آفرین ہے جو اپنے حد و حساب دولت میں سے چند لاکھ روپیہ خیراتی کاموں میں یا قومی چندوں میں خرچ کردیتا ہے۔ نہیں اگر یہ شخص اپنی ساری دولت بھی خیرات کردے پھر بھی بمشکل اس غریب کے برابر ہوسکتا ہے کیونکہ اگر اس کی یہ سخاوت نمود ونمائش کے شائبہ سے پاک ہو تب بھی دنیا میں اس کی فیاضی اور حوصلگی کا غلغلہ اور اس کے ابنائے قوم کا اس کی دادو دہش پر تشکر وامتنان ہی اس کی جو دوعطا کافی معاوضہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں وہ غریب آدمی غالباً خود بھی اپنی فیاضی کو بھول جاتا ہے اور اس بھوکے کو بھی اس حسان یاد نہیں رہتا اور دنیا کو تو اس عالی ہمتی اور فراغ حوصلگی کی خبر تک بھی نہیں ہوتی۔ بلا شبہ دولت دنیا کے لحاظ سے نبی اعظم وآخر ﷺ کا مقابلہ دنیا کے ان دولت مندوں میں نہیں کیا جاسکتا جن کی دولت کا ان کا بھی کچھ حساب نہ تھا کہ کتنی ہے لیکن جس طرح حقیقی جود وسخا کے واقعات آپ ﷺ کی روز مرہ زندگی میں ایسی کثرت سے پیش آتے تھے کہ کسی کو ان خیال تک نہ رہتا تھا اس کی مثال ملنا آسان نہیں بلکہ آپ یوں کہیں کہ ممکن ہی نہیں۔ آپ ﷺ کی طبعی فیاضی کا اندازہ صرف اس بات سے ہوسکتا ہے کہ بروایت جابر بن عبداللہ ؓ کبھی زبان فیض ترجمان سے کسی سائل کے لئے بھی ” نہیں “ نہیں نکلا۔ (صحیحین از مشکوٰۃ ص 442) اور بروایت انس ؓ آپ ﷺ نے کبھی کسی چیز کو آئندہ کے لئے نہیں رکھا۔ (مشکوٰۃ ص 443) حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے بکریاں مانگیں اور وہ اتنی تھیں کہ وہ پہاڑوں کے درمیان میدان میں وہ بھری ہوئی تھیں تو آپ ﷺ نے وہ سب اس کو دے دینے کا حکم دیا۔ وہ شخص اپنی قوم میں جاکرکہنے لگا اے قوم کے لوگو ! اسلام لے آئو کیونکہ خدا کی قسم محمد ﷺ اس قدر دیتا ہے کہ فقر کا خوف ہی نہیں رہتا (مشکوٰۃ ص 443) حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے آپ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ ﷺ نے ان کو دے دیا ، انہوں نے اور مانگا آپ ﷺ نے ان کو اور دے دیا اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس کچھ بھی نہ بچا سب کا سب دے ڈالا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا پاس جو کچھ مال آتا ہے میں اسے تم لوگوں سے بچا کر جمع نہیں رکھتا اور بلا شبہ جو شخص اللہ سے مانگتا ہے کہ وہ اسے سوال کی ذلت سے بچائے اللہ اسے اس بےبچا لیتا ہے اور جو استغنا چاہتا ہے اللہ اسے غنی کردیتا ہے اور جو شخص صبر اختیار کرتا ہے اللہ اسے صابر بنادیتا ہے اور کسی شخص کو عطا یائے الٰہی میں سے کوئی عطیہ صبر سے زیادہ اچھا نہیں دیا گیا۔ (بخاری ص 198) بلا شبہ صبر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے بنی اعظم وآخر ﷺ سے کچھ سوال کیا۔ آپ ﷺ نے اس کو پورا کردیا ، میں نے پھر سوال کیا تو آپ ﷺ نے پورا کردیا ، میں نے پھر سوال کیا تو آپ ﷺ نے پورا کردیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا حکیم ! بلا شبہ یہ مال پاکیزہ اور پسندیدہ ہے جو شخص اس کو بلا حرص ضرورت کے لئے لیتا ہے تو اس میں برکت ہوتی ہے اور جو کوئی اسے لالچ سے لیتا ہے تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اس کی حالت اس شخص کی سی ہوتی ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا اور یاد رکھو کہ اوپر کا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ میں نے کہا یارسول اللہ ! ﷺ اللہ کی قسم میں آپ ﷺ کے سوا مرتے دم کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا۔ پھر اس کی وضاحت آثار میں موجود ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ نے اپنے اپنے عہد خلافت میں حکیم کو کچھ دینا چاہا مگر اس نے قبول نہیں کیا اور برابر اپنے قول پر ثابت قدم رہا۔ (بخاری ص 384) آپ ﷺ کے جودوسخا کے ایسے واقعات جتنے چاہیں جمع کیے جاسکتے ہیں اور وہ سینکڑوں سے متجاوز ہیں کیونکہ آپ ﷺ کی فیاضی ازل کی بخشش وعطا تھی جو ہمیشہ اور ہر حال میں جاری رہتی تھی چناچہ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بارہا فرمایا کہ اگر میرے پس کوہ احد کے برابر سونا ہوتا تو بھی مجھے خوشی اسی وقت ہوتی کہ میں تین گزرنے سے پہلے ہی سب کا سب بانٹ دیتا اور اس میں کوئی چیز بھی روک نہ رکھتا۔ (بخاری ص 321)… یہ محض آپ کی تمنا ہی نہ تھی بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے آپ ﷺ نے اس کو کئی بار کر دکھایا اور جو کچھ آپ ﷺ کی زبان صدق سے نکلا تھا وہ کئی بار عملاً پورا ہوا۔ آپ ﷺ کے پاس بڑی بڑی رقمیں آئیں مگر آپ ﷺ وہاں سے اٹھے تو خالی ہاتھ اٹھے چناچہ عامل بحرین نے آپ ﷺ کی خدمت میں ایک لاکھ دس ہزار درہم بھیجے لیکن آپ ﷺ نے سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے سب بانٹ دیئے اور ایک بار آپ ﷺ کے پاس نوے ہزار درہم آئے تو آپ ﷺ نے ان کو چٹائی پر رکھ دیا اور جو سائل آیا اسے دیئے گئے یہاں تک کہ وہ سب تقسیم ہوگئے۔ (شفاص 50)… خیال رہے کہ آپ ﷺ کا یہ جو دبے جا کبھی نہیں ہوتا تھا اول تو علی العلوم تمام کے تمام ہی مسلمان تھے ہی غریب اور نادار کیونکہ مہاجرین کا تو تمام سامان معتش مکہ ہی میں رہ گیا تھا اور وہ بمشکل جان بچا کر وہاں سے نکلے تھے رہے انصار تو وہ بھی کچھ زیادہ متمول نہ تھے کیونکہ جہاں یہودی مھاجن اور سود خور ہوں وہاں کوئی دوسری قوم کیسے متمول اور دولت مند ہوسکتی ہے۔ بلا شبہ آپ ﷺ کے پاس ضرورت مند آتے تھے اور آپ ﷺ ان کی بےدریغ اعانت ودستگیری فرماتے تھے اور آپ ﷺ کی طرف سے یہ اعلان تھا کہ انما انا ما سم و خازن واللہ یعطی (بخاری) بلاشبہ میں خزانچی اور بانٹنے والا ہوں اور دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے انما انا قاسم و خازن واللہ یعطی۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کا ایثار اور حسن سولک ” ماشاء اللہ “ 9 ۔ ایثار کیا ہے ؟ ایثار بھی ایک سخاوت کی صورت ہے لیکن فرق یہ ہے کہ سخاوت کے مفہوم میں و عموماً کسی کو کچھ دینا پایا جاتا ہے اور ایثار کے لئے اس کی ضرورت نہیں بلکہ جہاں کہیں آدمی کسی دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دے اور اس کے حق کو اپنے نفس پر مقدم سمجھے وہیں ایثار ہوگا اگرچہ عملاً اس نے کسی کو کچھ بھی نہ دیا ہو مثلاً ایک خواستگار ملازمت یہ دیکھ کر اپنی درخواست واپس لے لیتا ہے کہ ایک اور امیدوار اس سے زیادہ اس خدمت کا اہل اور حاجت مند ہے بلا شبہ یہ اس کا ایثار ہوگا گو یہ فعل سخاوت کے ضمن میں نہیں آتا ۔ ایثار کو سخاوت پر اس وجہ سے ایک گونہ فضیلت حاصل ہے کہ سخاوت میں اس بات کا امکان ہے کہ معطی کی ذات پر اس کا کچھ اثر نہ پڑے لیکن ایثار تب ہوسکتا ہے جب کہ اپنے جائز حقوق اور بجا خواہشات کو دبا کر ان سے غیروں کو مستفید کیا جائے۔ بلا شبہ نبی اعظم وآخر ﷺ کی زندگی کا اصل اصول ہی ایثار تھا کیونکہ آپ ﷺ کا سب سے بڑا کام یعنی دعویٰ نبوت تھا ہی اس بات کا مستلزم کہ آپ ﷺ اپنے تمام اسباب آسائشی اور سامان راحت سے دست بردار ہو کر ہر قسم کی دنیوی مصلحتوں اور ظاہری منفعتوں کو اپنی قوم اور ملک اور نوع کی دائمی اصلاح اور ابدی بہبود پر نثار کردیں یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کو وعظ ونصیحت سے باز رکھنے کے لئے اہل قریش نے دولت و حشمت کا لالچ دینا چاہا تو آپ ﷺ نے اس سے قطعاً انکار کردیا اور اپنی نوع کی بہتری کے لئے اپنی ذات پر دنیا بھر کی تکلیفیں گوارا کرنے میں ذرا بھی تامل نہ کیا اس سے بڑھ کر اور کیا ایثار ہوسکتا ہے۔ لیکن اس ایک عام مثال کے علاوہ بھی آپ ﷺ کے ایثار کے واقعات بکثرت ملتے ہیں چناچہ روایت ہے کہ ایک عورت جناب نبی کریم ﷺ کے پاس ایک بنی ہوی چادر لے کر آئی جس کور بہت ہی خوبصورت تھی۔ اس نے کہا میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور میں اسے خود لے کر آئی ہوں تاکہ آپ ﷺ کو پہنائوں ، آپ ﷺ کو اس وقت چادر کی ضرورت بھی تھی اور ویسے بھی آپ ﷺ کسی کا ہدیہ وتحفہ رد نہیں فرماتے تھے اور جس طرح ہدیہ وتحفہ فراغ دلی سے قبول کرتے تھے اس سے زیادہ فراخ دلی سے وہ تحفے وہدایا پیش بھی کرتے تھے بہرحال آپ ﷺ نے وہ چادر لے لی اور آپ ﷺ اس کو بطور تہبند باندھ کر باہر تشریف لائے تو ایک شخص نے اس کو دیکھ کر اس چادر کی بہت ہی تعریف کی اور انجام کار یہ کہ آپ ﷺ سے وہ چادر اس نے مانگ ہی لی تو آپ ﷺ نے فوراً وہ چادر اس کے حوالے کردی پھر لوگوں نے اس شخص پر بہت طعن کیا اور کہا کہ تو نے کیسا کام کیا ؟ رسول اللہ ﷺ کو اس کی ضروت تھی اور ابھی آپ ﷺ نے اس کو زیب تن فرمایا تھا اور تو جانتا بھی تھا کہ وہ سوال کو رد نہیں کرتے تو تو نے یہ حرکت کیا کی ؟ اس نے کہا اللہ رب ذوالجلال والا کرام گواہ ہے کہ میں نے پہننے کے لئے نہیں مانگی بلکہ اس لئے لی ہے کہ یہ میرا کفن ہے ، چناچہ پھر ایسا ہی ہوا۔ (بخاری ص 170)… ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ! ﷺ میں بھوکا ہوں ، آپ ﷺ نے اپنی اہلیہ کے ہاں کہلا بھیجا مگر جواب آیا کہ کسی کے گھر اس وقت کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے یہ بات سنی تو فرمایا کہ لوگو ! ہے کوئی تم میں سے جو کوئی اس شخص کو آج کی رات مہمان رکھے اور اللہ کی رحمت کا مستحق ہو۔ یہ سن کر انصار میں سے ایک شخص اٹھا اور اسے نے کہا یارسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں چناچہ وہ ان صاحب کو ساتھ لے کر گھر گئے اور اپنے گھر والوں سے کہا یہ رسول اللہ ﷺ کا بھیجا ہوا مہمان ہے تو اس کی اچھی خدمت کرو اور کوئی چیز باقی اٹھا نہ رکھو۔ گھر والوں نے کہا کہ اللہ جانتا ہے کہ اس وقت بچوں کے لئے کچھ کھانا رکھا ہے اور اس کے سوا تو کچھ بھی گھر میں موجود نہیں ہے تو ان صحابی نے کہا خیر ہے بچوں کو تھپک تھپک کر سلادیں گے ۔ آپ چراغ گل کردیں اور کھانا مہمان کو بھیج دیں چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا دوسرے روز جب وہ شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اس کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خبر سنائی اور یہ آیت پڑھی { ویوثرون…………… خصاصۃ } (الحشر 9:59) (بخاری 725) گویا آپ ﷺ کے ایثار کا اثر صحابہ کرام کی زندگیوں میں بھی دیکھا گیا… حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ جنگ یرموک میں میرے چچا زاد بھائی زخمی ہو کر گرے تو میں تھوڑا سا پانی لے کر ان کو تلاش کرنے چلا تاکہ ان کے منہ میں پانی ڈالو ، ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کو پایا اور اس وقت وہ جان بلب تھے ، میں نے اشارے سے دریافت کیا کہ پانی پلائوں ، انہوں نے کہا ہاں ! میں پانی پلانے لگا تو قریب سے آہ کی آواز آئی تو میرے بھائی نے اشارہ سے کہا کہ پہلے انہیں پلائو۔ میں ادھر گیا تو دیکھا کہ ہشام بن العاص مجروح پڑے ہیں ، میں نے چاہا کہ ان کو پانی پلائوں ، اتنے میں ایک اور طرف سے آہ کی آواز آئی ، ہشام نے مجھے اشارہ سے کہا کہ پہلے انہیں پلائو ، میں وہاں گیا تو وہ اب تک جاں بحق ہوچکے تھے میں لوٹ کر ہشام کی طرف آیا تو وہ بھی انتقال فرما چکے تھے پھر اپنے بھائی کے پاس آیا تو ان کی روح بھی جسد عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ (کلید القرآن ص 64 ماخذ حمایت الاسلام) نبی اعظم وآخربنی اعظم وآخر ﷺ کی محبت و شفقت کی داستان بھی طولانی ہے 10 ۔ دنیا میں حسن معاشرت کے قیام اور نظام تمدن کی بقا کا مدار سب سے زیادہ محبت پر ہے بعینہ جس طرح تمام اجرام فلکی کشش ثقل میں جکڑے ہوئے ہیں ویسے ہی افراد انسانی بھی محبت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اور ان کو خواہ مسئلہ ارتقاء معرکہ ہستی میں باہم کتنا ہی مخالف اور برسرپیکار کیوں نہ بنائے اور اصول انا وہ ان کو آپس کے تعلقات میں کیسا ہی خود غرض اور نفس پرست کیوں نہ بتائے اس سے کوئی تنگ خیال سے تنگ خیال فلسفی بھی نہیں انکار کرسکتا کہ دنیا کا سارا لطف اور زندگی کا پورا مزہ محبت ہی سے ہے اور محبت بھی خواہ خود غرض ہی کی ایک خوش نما صورت کیوں نہہو تاہم یہ نہ ہو تو جینا وبال ہوجائے اور اس عالم رنج ومحن میں حیات مستعار کے چند دن کاٹنے بھی دوبھر ہوجائیں کیونکہ محبت ہی کی چاشنی ہے جو یہاں کی تکلیفوں اور مصیبتوں کی تلخی کو خوشگوار بنادیتی ہے اور اس پر مزہ یہ ہے کہ اصول افادہ خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ بہرحال مسلم ہے کہ محبت جس قدر شائبہ غرض سے پاک ہو اتنی ہی زیادہ قابل تعریف ہے کیونکہ وہ جتنی بےغرضانہ ہوگی اسی قدر اس کا دائرہ اثر بھی زیادہ وسیع ہوگا اور اسی قدر اس کے احباب واصحاب بھی کثیر التعداد ہوں گے ۔ مگر یہ کشادہ دلی اور فراخ حوصلگی کچھ آسان نہیں ہے۔ انسانی فی الواقع اپنے ذاتی فائدوں اور نفسانی خواہشوں کے جال میں ایسا پابند ہوتا ہے کہ اس کی محبت کو خود غرضی پر محمول کرنا کچھ بےجان اور خلاف قیاس نہیں ہے یہ امر واقعی ہے کہ اول تو اہل و عیال کی محبت جو بالکل فطری اور طبعی سمجھی جاتی ہے وہ بھی غرضوں سے ملوث ہوتی ہے اور گھر کی چار دیواری سے نکل کر تو دنیا میں بہت ہی کم ایسے تعلقات پائے جاتے ہیں جو محبت کے پاک نام کے مستحق ہوں اور ان سے بھی زیادہ کم یاب یہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر ان تعلقات کا اثر ہو یوں کہنے کو اپنے قوم کے دوست اور اپنے ملک کے بہی خواہ اور اپنی نوع کے ہمدرد بہت سے ہوں گے مگر ان کے مخلصانہ دعو وں کو بقا جب ہی تک ہے جب تک ان کی محبوب قوم اور ان کا پیارا وطن ان عاشقان معشوق خو کی ناز برداری کیے جاتا ہے لیکن اگر کہیں اتفاق سے ان کے عزاز واحترام میں کچھ فرق آئے یا کوئی بات ان کے خلاف مزاج ہو تو پھر ان کے تمام قومی ایثار و محبت کے جذبات ہوا ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی اس بےغرضانہ محبت پاش کے لئے کوئی اور تشنہ لب ڈھونڈلیتے ہیں۔ بہر حال ہم کو کسی سے کیا سروکار ہم کو تو صرف یہ دکھانا تھا کہ محبت جس قدر زیادہ عام اور بےغرضانہ ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ محمود لیکن ساتھ ہی اس قدرزیادہ مشکل اور نادر الوجود بھی ہوتی ہے اور ایسی محبت صرف ان نفوس قدسیہ ہی میں پائی جاتی ہے جن کو محبوب حقیقی نے اصلاح و ارشاد خلق کے لئے مامور فرمایا ہو اور ان میں بھی اس کے مختلف درجے تھے ہمارے عقیدے کے مطابق نبی اعظم وآخر ﷺ ہی ہوسکتے ہیں کیونکہ آپ ﷺ کی سچی محبت اور خالص شفقت کا دائرہ قبیلے ، شہر ، قوم اور ملک ہی تک محدود نہیں رہا بلکہ تمام دنیا پر حاوی اور محیط ہوگیا لیکن یہ محض عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ آپ کی حیات بابرکات کا ہر ایک واقعہ اس کا شاہد ہے جو تکلیفیں آپ ﷺ کو ابنائے وطن کے ہاتھوں پہنچیں ان کے ایک دو مختصر واقعات آپ ﷺ کے صبروثبات کے ضمن میں بیان کرچکے ہیں اس جگہ ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں لیکن انہی باتوں کو پیش نظر رکھ کر ہم پوچھتے ہیں کہ آخر آپ کو اس قدر حوصلہ فرما قوت برداشت کے اظہار کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ اہل مکہ آپ ﷺ سے چاہتے ہی کیا تھے ؟ یہی کہ آپ ﷺ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور شرک وبت پرستی سے نہ روکیں تو پھر آپ ﷺ نے ایسا ہی کیوں نہ کیا ؟ مانا کہ آپ ﷺ جو کچھ فرماتے تھے سچ فرماتے تھے اور انہیں کے فائدے کے لئے فرماتے تھے لیکن جب وہ لوگ خود ہی اسے سننا نہ چاہتے تھے تو آپ ﷺ کو کیا پڑی تھی کہ خواہ مخواہ ان کے لئے اپنے آپ آپ کو بلا میں ڈالنے اور پریشان ہوتے۔ مخالف کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی یہ تمام جدوجہد صرف دولت و ثروت اور شوکت و حکومت حاصل کرنے کے لئے تھی مگر یہ ان کی نادانی اور کو رباطنی ہے۔ یہ سب چیزیں تو شیوخ مکہ خود ہی آپ کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور عالم بےکسی میں آپ ﷺ کو یہ کیونکر یقین ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو بعد میں اس سے زیادہ دولت و حکومت عطا کردے گا۔ اگر ان کی تمام تگ ودو کی غرض وغایت یہی ہوتی تو اس وقت کی تنگ دستی وناداری میں تو اہل مکہ کی پیش کردہ دولت و حکومت ہی آپ کے لئے نعمت غیر مترقبہ تھی اور آپ کو وہی غنیمت سمجھنی چاہیے تھی۔ اس سے مکہ کی پیش کردہ دولت و حکومت ہی آپ کے لئے نعمت غیر مترقبہ تھی اور آپ کو وہی غنیمت سمجھنی چاہیے تھی۔ اس سے قطع نظر کیجئے اور یہ دیکھئے کہ آپ ﷺ نے ان باتوں کو حاصل کرنے کے بعد بھی ان سے ذاتی کیا فائدہ اٹھایا۔ آپ ﷺ کی سادہ زندگی کے واقعات ہم سن چکے ، آپ ﷺ کے ایثار اور سخاوت کے حالات ہم نے دیکھ ہی لئے تو کیا آپ ﷺ کو دولت دنیا کی ہوس اس لئے تھی کہ آپ ﷺ بےچھنے جو کو روٹی کھائیں ، جو اپنی جوتیاں اپنے ہاتھوں سیئیں۔ آپ ﷺ کے اہل بیت نے خود چکیاں پیسیں اور فقط یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ نے ہمیشہ کے لئے اپنی اولاد پر زکوٰۃ اور صدقات کو بھی حرام فرما دیا حالانکہ قیاس یہ چاہتا ہے کہ جس دولت کے حاصل کرنے میں آپ نے اتنی تکلیفیں اٹھائی تھیں اول تو خود ہی اس سے فائدہ اٹھاتے اور خود کسی وجہ سے اسے استعمال نہ کیا تھا تو کم از کم اپنی دولت کو تو اس سے مستفید ہونے دیتے مگر صورت حال بالکل اس کے برعکس ہے اور ہم جس پہلو سے چاہیں غور کریں آپ ﷺ کے تمام افعال آلائش ، ریا اور آمیزش غرض سے بالکل پاک اور مبرا ثابت ہوتے ہیں بشرطیکہ انصاف کو ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ حقیقت میں نبی کریم ﷺ کی نسبت ایسی بدگمانی ہی غلط اور مہمل ہے کیونکہ آپ ﷺ کی سعی و کوشش کی وجہ ہی تھی تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ۔ یہ آپ ﷺ کی سچی اور بےغرضانہ محبت ہی تھی جو آپ ﷺ کو اتنی مخالفتوں اور ایسی مصیبتوں کے باوجود بھی اصلاح بین الناس سے دست کش نہیں ہونے دیتی تھی اور آپ ﷺ ان لوگوں کو اس قدر ایذا اور آزار رسانی پر بھی ان کو صداقت کی طرف بلانے اور حقیقت کا رستہ دکھانے سے باز نہیں رہ سکتے تھے بعینہ جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کی نافرمابرداری اور رنج دہی پر صبر کرتے ہیں مگر پھر بھی ان کی بھلائی اور بہتری میں کوشاں رہتے ہیں لیکن ماں باپ کی محبت کی ایک انتہا ہوتی ہے اور جب حقوق حد برداشت سے گزر جاتا ہے تو وہ بھی اس سے کنارہ کرجاتے ہیں مگر آپ ﷺ کی محبت و شفقت کی کوئی انتہا ہوتی ہے اور جب حقوق حد برداشت سے گزر جاتا ہے تو وہ بھی اس سے کنارہ کرجاتے ہیں مگر آپ ﷺ کی محبت و شفقت کی کوئی انتہا نہ تھی وہ لوگ جس قدر آپ ﷺ سے سرکشی کرتے تھے آپ ﷺ اتنی ہی ان کے ساتھ اور رعایت فرماتے تھے وہ جس قدر آپ ﷺ کو تکلیف دیتے تھے آپ ﷺ اتنی ہی ان سے مہربانی کرتے تھے۔ غرض جس طرح ان کی عدوات و دشمنی بےپایاں تھی ویسے ہی آپ ﷺ کی شفقت اور محبت غیر محدود تھی اور بلا شبہ آپ ﷺ اس وعدہ صادقہ کی مجسم تصدیق تھے { وما ارسلنک…… لعالمین } (الانبیاء 107:21) ” اور ہم نے تجھے تمام عالموں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے “۔ لیکن اس کے لئے بیحد طاہر اور طیب دل کی ضرورت ہے اس کا اندازہ وہی شخص کرسکتا ہے جس نے خود کبھی اپنی محبت کو بےغرض اور مخلص بنانے کی کوشش کی ہے ورنہ عام طور پر انسانی طبیعت اس کی مشکلات کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ذرا غور کرو کہ جو شخص دشمنوں تک کا دوست ہوگا وہ دوستوں سے کیسی کچھ محبت نہ کرتا ہوگا۔ آپ ﷺ بھی اپنے اصحاب پر بےانتہا شفیق اور مہربان تھے چناچہ اس کی مثالیں ہم آپ ﷺ کے حسن سلوک ، ایثار ‘ رحم اور صبر وغیرہ میں دیکھ چکے ہیں اور اسی طرح دوسرے مختلف اخلاق حسنہ کے ضمن میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ بات یہ ہے کہ محبت کا اثر کسی خاص فعل میں محدود نہیں ہوتا بلکہ جہاں محبت ہو وہاں اس کا رنگ ہر ایک بات میں نمایاں ہوتا ہے کیونکہ اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تعلقات انسانی میں تمام صفات حسنہ محبت ہی کی پیدا کردہ ہیں البتہ یہ ضروری بات ہے کہ ہر ایک کی محبت کے اظہار کی جداگانہ صورت ہوتی ہے مثلاً دولت مند کی محبت سخاوت بن کر ظاہر ہوتی ہے ، حاکم کی محبت انصاف اور حلم کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ طبیب اپنے محبوب مریض کو مفید سے مفید اور خوش ذائقہ سے خوش ذائقہ دوا پلاتا ہے ، پیر اپنے پیارے مرید کو سب سے جلدی منازل سلوک طے کرانا چاہتا ہے غرض ہر ایک کا الگ الگ رنگ ہوتا ہے لیکن کامل ترین محبت وہی ہے جو ہر تعلق میں ہویدا اور ہر شان میں نمایاں ہوں ۔ نبی کریم ﷺ کی بےانتہا شفقت اور غیر محدود محبت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آپ ﷺ امت مرحومہ پر عبادات کا بار بھی حتیٰ المکان بہت ہی کم ڈالنا چاہتے تھے چناچہ آپ ﷺ خود اسی خیال سے نوافل پر مداومت نہیں فرماتے تھے کہ کہیں لوگ ان عبادتوں کو اپنے اوپر لازم نہ کرلیں اور یوں تکلیف مالایطاق میں نہ پڑجائیں اس لئے ہم کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو چلے کشیاں اور اسی طرح کی دوسری ریاضتیں کرتے ہیں اور بتاتے ہیں دراصل وہ محبت انسانی سے کوسوں دور ہیں… عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک روز آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم رات بھر نماز پڑھتے ہو اور دن کو روزہ رکھتے ہو ، میں نے کہا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا جاگو بھی اور سوئو بھی ، روزہ بھی رکھو اور افطار بھی یعنی فصل بھی کرو کیونکہ تمہارے اوپر تمہارے جسم کا بھی حق ہے ، تمہاری آنکھوں کا بھی ، تمہارے دوستوں اور بھائیوں کا بھی اور اسی طرح گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے۔ (بخاری ص 154) اس کی مثالیں احادیث میں کثرت سے ملتی ہیں جو آپ ﷺ کی امت سے محبت کی علامت ہیں۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کا عدل و انصاف بھی بےمثال ہی تھا 11 ۔ اگر ذرا غور وتعمق سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انصاف سچی محبت کی عمومیت اور اغراض نفسانی سے بریت کا نام ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ جس معاملہ میں قاضی کی کوئی ذاتی غرض پوشیدہ نہیں ہے اور اس کو فریقین سے یکساں تعلق اور یکساں محبت ہے تو اس میں اسے کسی طرح کی زیادتی یا بےانصافی کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے اور جب کوئی شخص اپنے سب ابنائے نوع پر یکساں مہربان ہوگا اور اس میں کسی قسم کی نفسانیت اور خود غرضی نہ ہوگی تو اس کے پورے طور پر عادل اور منصف نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں بلا شبہ ظلم صرف اسی حالت میں کیا جاسکتا ہے جب اس سے ہمارا یا تو کوئی ذاتی فائدہ ہو یا جب ہمارا دو آدمیوں میں سے ایک کی طرف زیادہ میلان ہو اور ہم دوسرے کے مقابلہ میں اسے فائدہ پہنچانا چاہتے ہوں مگر جس طبیعت میں یہ باتیں نہیں اس میں بےانصافی کا خیال تک آنا محال ہے ۔ آپ نبی کریم ﷺ کی بےعرضانہ محبت اور مخلصانہ شفقت کا حال دیکھ چکے ہیں اگر وہ واقعات سچے ہیں اور ہمارا استدلال درست ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ آپ ﷺ نہایت اعلیٰ درجہ کے منصف مزاج اور عدل پرور ہوں اور کبھی کسی پر آپ ﷺ کے ہاتھ سے کوئی زیادتی نہ ہوئی اگر واقعات سے اس بات کی تصدیق ہوجائے تو اول اس سے ہمارے مذکورہ بالا استدلال کی صحت پائی جائے گی اور دوسرے آپ ﷺ کی یہ انصاف پسندی آپ ﷺ کی رحمتہ لعالمین ہونے کی نہایت قوی اور معقول دلیل بن جائے گی۔ آئیے دیکھیں کہ آپ ﷺ کے حالات حیات اس بارہ میں کیا کہتے ہیں جیسا کہ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں اس جگہ آپ ﷺ کی مکمل سیرت نہیں لکھی جارہی بلکہ سیرت کے وہ پہلو صرف اشاروں سے اجاگر کیے جا رہے ہیں جن کی قوم مسلم کو انتہائی ضرورت ہے اور تفصیلات کا یہ مقام نہیں اس کے لئے سیرت ہی کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ بلا شبہ ہم پورے وثوق اور دلجمعی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ شروع ہی سے آپ ﷺ کو اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے امتیاز خاص حاصل تھا یہاں تک کہ آپ ﷺ ظاہری دولت و ثروت نہ ہونے کے باوجود بھی اکثر اختلافات قریش میں حکم بنائے جاتے تھے اور اسی لئے آپ ﷺ کا لقب ” الامین “ ہوگیا تھا۔ بعثت کے بعد آپ ﷺ کی اوصاف حمیدہ کے اظہار کے مواقع صد چند ہوگئے اور آپ ﷺ کے منصف مزاجی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہود مدینہ میں اپنی ذاتی خصومتوں میں آپ ﷺ ہی سے تصفیہ چاہتے تھے حالانکہ ان کو آپ ﷺ کی نبوت سے انکار تھا تب بھی بالاتفاق آپ ﷺ ہی کا فیصلہ چاہا تھا اور کبھی کسی کو آپ ﷺ کے انصاف پر شائبہ بھی نہیں ہوا پھر یہ بھی نہ تھا کہ فقط غیروں ہی میں آپ ﷺ کا انصاف مسلم ہو نہیں آپ ﷺ کا انصاف اتنا یقینی تھا کہ اگر کبھی مسلمان اور غیر مسلم کا باہم جھگڑا ہوجاتا تھا تب بھی موافق اور مخالف سب ہی آپ ﷺ کے پاس آتے تھے چناچہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی اور ایک نام کے مسلمان بشیر میں جھگڑا تھا یہودی نے کہا چلو محمد ﷺ کے پاس چلیں ، بشیر نے کہا نہیں کعب بن الاشرف سردار یہود کے پاس چلیں کیونکہ وہ لوگ رشوت وغیرہلیتے تھے مگر اس سے یہودی نے انکار کیا اور آخر کار دونوں ہی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہودی حق بجانب تھا ، آپ ﷺ نے اس کے حق میں فیصلہ کیا ، جب وہ دونوں باہرنکلے تو بشیر نے کہا یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہوا چلو عمر ؓ کے پاس چلیں ، اسے یہ خیال تھا کہ شاید ان کا تعصب مذہی انصاف پر غالب آجائے۔ یہودی آپ ﷺ کے فیصلے سے قوی دل ہوگیا اس لئے اس نے مان لیا اور پھر دونوں حضرت عمر ؓ کے پاس آئے مگر یہودی نے آتے ہی حضرت عمر ؓ کو یہ سنادیا کہ یہ معاملہ نبی اعظم وآخر ﷺ کے سامنے پیش ہوچکا ہے اور آپ ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا ہے مگر یہ شخص اس پر راضی نہیں ہوا اور اب یہاں آپ کے پاس آیا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے بشیر سے اس کی تصدیق چاہی اس نے بھی کہا ہاں ! صورت واقعہ تو یہی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا دونوں ذرا ٹھہرو میں ابھی فیصلہ کیے دیتا ہوں یہ کہ کر وہ اندرگئے اور تلوار لاکر منافق بشیر کی گردن اڑا دی اور کہا جو شخص مسلمان کہلا کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے کو نہیں مانتا میں اس کا فیصلہ اسی طرح کرسکتا ہوں اس پر اس کے ساتھ کے دوسرے منافقوں نے بہت غل مچایا مگر اللہ تعالیٰ نے وحی سے عمر ؓ کے فعل کی تائید فرمادی اور اسی دن سے ان کا لقب فاروق ہوگیا۔ (تفسیر خازن ، تفسیر سورة النساء آیت 66 , 65)… انصاف کی انتہا یہ ہے کہ یہ لوگ ذرا ذرا سی بات میں خود آپ ﷺ پر تشدد اور تقاضا کرتے تھے مگر آپ ﷺ اپنے علم اور انصاف کی وجہ سے ہمیشہ ان کے مطابق فیصلہ فرماتے تھے۔ ابوہریرہ ؓ سے روایات ہے کہ نبی کریم ﷺ پر کسی کا ایک اونٹ قرض تھا ، ایک روزوہ تقاضا کرتا ہوا آیا (حالانکہ ابھی اس کو تقاضا کرنے کا حق نہیں تھا کہ مقررہ تاریخ نہیں آئی تھی) اور آتے ہی سخت سست کہنے لگا اس کی ہرزہ گوئی صحابہ کرام کو پسند نہ آئی تو انہوں نے اس کو روکنا چاہا مگر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو کیونکہ قرض خواہ کو تقاضا کا حق ہے پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ ایک اس کے اونٹ جیسا اونٹ لا کر اسے دے دو اتفاق سے ویسا اونٹ موجود نہیں تھا لوگوں نے آکر عرض کیا کہ اس کے اونٹ سے بہتر موجود ہے مگر ویسا اونٹ موجود نہیں۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ اس کو دے دیا جائے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں بہتر شخص وہ ہے جو بہتر ادائیگی کرے۔ (بخاری ص 309) افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان جو اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ نادہندہ اور بدمعاملہ سمجھے جاتے ہیں اگر آپ ﷺ کی طرف اسی ایک سنت کی پیروی کریں تو ان کے مباحث قوی میں سے مسئلہ سود از خود غائب ہوجائے اور وہ یقینا ناداری اور حاجت مندی کی قعرمذلت سے نکل کر دولت حشمت کے اوج عزت پر پہنچ جائیں کیونکہ دولت کی کنجی تجارت ہے اور تجارت کا مدار ساکھ اور اعتبار پر ہے جو ہم من حیث القوم موجود نہیں ہے اور اس فقدان کا نتیجہ ہے اس سنت نبوی کے ترک کا اگر ہم صرف آپ ﷺ کی ایک سنت پر چلتے ہوتے تو یقینا ہم دولت اور تجارت کے مالک ہوتے اور غالباً ہم کو آج اپنی ان مٹی ہوئی سلطنتوں کا ماتم بھی نہ کرنا پڑتا جن کو گردش فلک اور انقلاب لیل ونہار نے نہیں بلکہ خود ہماری بدعملیوں ، بداطواریوں نے ہماری دست مرتعش سے لے کر ان ہاتھوں میں دے دیا جن میں ہمارے ہادئی صادیق ﷺ کے اسوہ حسنہ کے تتبع نے عنان حکومت تھامنے کی طاقت وقوت پیدا کردی۔ افسوس کہہمکو کیا ہونا چاہیے تھا اور ہم کیا ہوگئے۔ کبھی خاقان تھے کبھی قیصرو کسری ہم تھے اب تو کچھ یاد نہیں یہ بھی کہ کیا کیا ہم تھے احادیث میں ہے کہ جب ابوعبیدہ بن الجراح بحرین سے جزیہ وصول کرکے لائے تو ان کے واپس آنے کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی تمام انصار صبح کی نماز میں آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ ﷺ نماز کے بعد واپس چلے تو وہ پھر راستے میں آپ ﷺ کے سامنے آئے ۔ آپ ﷺ ان کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا شاید تم سے سنا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں ؟ انہوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا خوش ہوجائو اور اس چیز کی امید رکھو جو تم کو مسرور کرے گی ، اللہ گواہ ہے کہ مجھے تمہاری تہی دستی اور حسرت سے کچھ اندیشہ نہیں ہے لیکن مجھے ڈر یہ ہے کہ تمہارے سامنے بھی دنیا پیش کی جائے جیسے کہ تم سے پہلوں کے سامنے پیش کی گئی تھی پھر وہ اس میں محو ومہمک ہوگئے جیسا کہ واضح ہے اور پھر یہ حرص وحوص اور عیش و عشرت تم کو بھی ہلاک کردے جیسے کہ اس نے ان کو برباد کردیا۔ (بخاری ص 447) نبی اعظم وآخر ﷺ کی تواضح اور انکساری کا حال بھی عجیب تھا 12 ۔ تواضع عالی مرتبہ اور بلند پایہ شخص کے لئے اتنی ہی مشکل ہے جس قدر ادنیٰ مرتبے اور پست حالت کے آدمی کے واسطے خودداری اور پابندی وضع لیکن جس شخص کے دل میں اپنے ابنائے نوع کی محبت ہو یہ ممکن ہی نہیں کہ اس میں تواضع اور انکساری نہ ہو کیونکہ محبت مساوات کی مستلزم ہے اور مساوات میں کبر ونخوت کی گنجائش نہیں یہ کیونکرہوسکتا ہے کہ ایک آدمی اور سب لوگوں سے محبت بھی کرے ، ان پر شفیق بھی ہو ، ان کا ہمدرد بھی رہے اور پھر اپنے آپ ان سے افضل بھی نہ سمجھے اور ان سے غرور بھی نہ کرے ، اس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو کسی پر فضیلت ہی نہیں ہے لیکن فضیلت ہونا اور اپنی فضیلت سمجھنا ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے فضلنابعضکم بعضا بالکل صحیح اور درست ہے مگر کسی کا افضل ہونا اور بات ہے اور اس کا اپنے آپ کو افضل سمجھنا بالکل ایک دوسری بات ہے۔ کیونکہ فی الواقع جو لوگ اوروں سے بہتر ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو ایسا نہیں سمجھتے اور جو لوگ اپنے آپ کو اوروں سے بہتر سمجھتے ہیں وہ اصل میں ایسے نہیں ہوتے کاش کہ یہ بات ہمارے علماء کرام کی سمجھ میں بھی آجاتی اور اس طرح ہمارے سیاسی لیڈر بھی حقیقت کو سمجھتے تو آج ہماری حالت یقینا یہ نہ ہوتی اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ چونکہ سب برابر ہیں اس لئے حفظ مراتب کی ضرورت نہیں ، نہیں ہرگز نہیں بڑے خواہ کیسے ہی منکسر المزاج اور متواضع کیوں نہ ہوں چھوٹوں کو کبھی اپنی حد سے گزرنا اور سررشتہ ادب کے ہاتھ سے دینا نہ چاہیے حقیقت میں تعلقات کی خوبی یہی ہے کہ ایک طرف سے محبت و شفقت ہو اور دوسری طرف سے عقیدت و اطاعت ، ایک طرف سے تواضع و انکسار ہو اور دوسری طرف سے ادب اور عزت اس احسن مراعات کا بہترین مرقع ہم کو خیرالانام سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی تعلقات میں نظر آتا ہے۔ یہ تو پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ آپ ﷺ کیونکر ہر ایک کام میں اپنے صحابہ کے شریک ہوتے تھے اور کسی طرح اپنے آپ کو ان میں ممتاز نہ ہونے دیتے تھے لیکن علاوہ ازیں یوں اپنے صحابہ کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور کسی طرح اپنے آپ کو ان میں ممتاز نہ ہونے دیتے تھے لیکن علاوہ ازیں یوں بھی آپ ﷺ نہایت ہی متواضع اور منکسر المزاج تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنے متبعین کو اس بات کی بھی اجازت نہ دیتے تھے کہ وہ آپ ﷺ کو کسی گزشتہ پیغمبر سے افضل سمجھیں چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اور جس کسی نے یہ کہا کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے غلط کہا۔ (بخاری ص 709) حالانکہ یونس بن متی اولوالعزم اور صاحب کتاب رسولوں میں سے نہیں تھے اور آپ ﷺ خود یعنی نبی اعظم وآخر ﷺ خاتم النبیین تھے تاہم آپ ﷺ نے انکساراً یہ ارشاد فرمایا اس لئے ہم کو بھی حق نہیں کہ ہم انبیاء کرام میں مقابلہ شروع کردیں اور اس میں مبالغہ سے کام لیتے جائیں اور سمجھیں کہ شاید اسی چیز کا نام محبت ہے… ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا تم میری تعریف میں زیادہ مبالغہ مت کرو جیسے مسیحیوں نے عیسیٰ ابن مریم کے حد سے زیادہ بڑھا دیا میں تو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں اس لئے مجھے ” عبدہ ورسولہ “ کہا کرو … ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آپ ﷺ تشریف فرماتے تھے کہ اتنے میں ایک یہودی آیا اور اس نے کہا اے ابوالقاسم ! ﷺ تیسیری رفیقوں میں سے ایک نے میرے منہ پر طمانچہ مارا ، آپ ﷺ نے پوچھا کس نے ؟ اس نے کہا انصار میں اسے فلاں شخص نے ۔ آپ ﷺ نے اسے بلوایا اور اس سے پوچھا کیا تو نے اسے مارا ؟ اس نے کہا ہاں ! میں نے اسے بازار میں یہ قسم کھاتے سنا کہ قسم اس ذات کی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام نوع بشر میں سے سب پر فضیلت دی تو اس پر مجھے غصہ آیا اور میں نے کہا اے ناپاک کیا محمد رسول اللہ ﷺ پر بھی ؟ تو اس نے کہا ہاں ! تو میں نے اس کو طمانچہ رسید کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ مجھے پیغمبروں پر برتری مت دو ۔ (بخاری ص 325) اس کے آگے اس کا ذکر نہیں کہ آپ ﷺ نے اس کے طمانچہ کا بدلہ دلوایا یا نہیں لیکن الفاظ خود اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ ضرور آپ ﷺ نے بدلہ دلوایا… اگر انسانی طبیعت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ علی العموم خواہ کوئی شخص کتنا ہی متواضع اور منکسر المزاج کیوں نہ ہو پھر بھی کم ازکم یہ ضرور چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کی عزت اور اس کی صفات حسنہ کی تعریف کریں اور خاص کر جس بات میں وہ اوروں سے خاص طور پر ممتاز ہے اس میں اس کی فضیلت مسلم رہے مگر نبی کریم ﷺ کو دیکھئے کہ آپ ﷺ کی وجہ امتیا زنبوت ہی تھی اور یہ احتمال ہوسکتا تھا کہ آپ ﷺ پر فضیلت دینے سے آپ ﷺ کے متبعین کی نظروں میں شاید آپ ﷺ کی وقعت کم ہوجائے لنکک آپ ﷺ کی حقیقی عظمت اور فضیلت کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ آپ ﷺ کو اس کا خیال تک بھی نہیں آیا اور آپ ﷺ نے اپنے آپ کو نبوت میں بھی دوسرے نبیوں پر مرجح اور افضل نہیں رکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ کو خود اپنے صحابہ کی اقتداء کرنے میں بھی تامل نہ ہوتا تھا چناچہ غزوہ تبوک کے سفر کا واقعہ ہے کہ آپ ﷺ صبح اٹھ کر کہیں باہر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی جب آپ ﷺ واپس آئے تو جماعت کھڑی ہوگئی تھی اور عبدالرحمن بن عوف پہلی رکعت پڑھا چکے تھے آپ ﷺ کے ساتھ مغیرہ بن شعبہ تھے انہوں نے عبدالرحمن بن عوف کو اطلاع دینی چاہی تو آپ ﷺ نے منع فرمادیا اور انہی کے پیچھے نماز میں شریک ہوگئے۔ (خصائل الکبریٰ للسیوطی ص 276) لیکن آپ ﷺ کی تواضع فقط اس پر موقوف نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ کا ہر ایک فعل آپ ﷺ کے انکسار کا عملی ثبوت ہے ، آپ ﷺ کو یہ بھی گوارانہ تھا کہ آپ ﷺ کے صحابہ آپ ﷺ کی تعظیم کے لئے آپ ﷺ کی آمد پر اٹھ کر کھڑے ہوجائیں (یا جھک کر سلام کریں) چناچہ حدیث میں ہے کہ ایک بار آپ ﷺ باہر سے تشریف لائے اور آپ ﷺ اس وقت ایک عصا پر سہارا کئے ہوئے تھے تو سب صحابہ تعظیماً کھڑے ہوگئے اس پر آپ ﷺ باہر سے تشریف لائے اور آپ ﷺ اس وقت ایک عصا پر سہاراکئے ہوئے تھے تو سب صحابہ تعظیماً کھڑے ہوگئے اس پر آپ ﷺ نے فرمایا جیسے عجمی آپس میں ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اس طرح تم کو کھڑا نہ ہونا چاہیے۔ (شفا قاضی عیاض ص 58)… آپ ﷺ نے فرمایا بیشک میں بھی ایک بندہ ہوں جیسے اور لوگ کھاتے ہیں ویسے ہی میں بھی کھاتا ہوں جیسے اور لوگ بیٹھتے ہیں ویسے ہی میں بھی بیٹھتا ہوں۔ (شفا ص 58) قرآن کریم میں آپ ﷺ کے متعلق بیان فرمایا گیا کہ { قل سبحان…… رسولا } (93:17) ” اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ کہہ دیں کہ سبحان اللہ میں تو ایک انسان پیغمبر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوں۔ “ حالی مرحوم نے اس آیت اور آپ ﷺ کے فرمان کو ملا کر خوب ترجمہ کردیا ہے ؎ نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم بنانا نہ تربت کو میری صنم تم نہیں بندہ ہونے میں مجھ سے کم تم کہ بیچارگی میں برابر ہیں ہمتم مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی کہ بندہ بھی ہوں کا اور ایلچی بھی (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر ملاحظہ ہو ۔۔۔ اگلی آیت کے ذیل میں)
Top