Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 111
وَ اِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
وَاِنَّ : اور بیشک كُلًّا : سب لَّمَّا : جب لَيُوَفِّيَنَّهُمْ : انہیں پورا بدلہ دیگا رَبُّكَ : تیرا رب اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا يَعْمَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں خَبِيْرٌ : باخبر
اور یقینا تیرا رب ان سب کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ جو کچھ یہ کررہے ہیں اس سے باخبر ہے۔
وَاِنَّ کُلاًّ لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَہُمْ ط اِنَّہٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۔ (سورۃ ہود : 111) (اور یقینا تیرا رب ان سب کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ جو کچھ یہ کررہے ہیں اس سے باخبر ہے۔ ) لَمَّاکی تحقیق آیت کی تشریح سے پہلے ” لَمَّا “ کی تحقیق ! بعض قراء نے اسے بغیر تشدید کے پڑھا ہے اور بعض نے تشدید کے ساتھ۔ پھر الگ الگ اس کی تعلیل اور توجیہ کی ہے، لیکن ہم تفصیل سے بچتے ہوئے صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ ” لَمَّا “ میں ’ ’ لام “ تا کید اور قسم کے لیے ہے اور ’ ’ مَا “ زائد ہے۔ عربی زبان میں بعض دفعہ صوتی آہنگ کی درستی کے لیے اس طرح الفاظ کا استعمال عام معمول ہے اور قرآن کریم میں بھی مختلف مقامات پر اس طرح الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ مشرکین کو تنبیہہ مشرکینِ مکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ یہ لوگ نبی کریم ﷺ کی مخالفت میں جس طرح بےروک بگٹٹ بھاگے جارہے ہیں اور انھیں اپنے انجام کی کوئی فکر نہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا ایک خدا بھی ہے جو ان کے ایک ایک عمل کی خبر رکھتا ہے۔ ان کے ہر عمل کو لکھا جارہا ہے۔ ان کے کندھوں پر بیٹھے ہوئے فرشتے ان کا نامہ عمل تیار کررہے ہیں۔ دنیا میں کسی محفوظ سے محفوظ دفتر میں بھی کوائف اس طرح محفوظ نہیں ہوں گے جیسے فرشتوں کے نوشتوں اور اللہ کے علم میں محفوظ ہیں۔ ان میں سے ہر شخص کو اس کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ خود تسلیم کرے گا کہ یہ ایسا نامہ عمل ہے جس میں کوئی جھوٹی بڑی بات چھوٹنے نہیں پائی۔ اس لیے مشرکین کو آج یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں اور جو کچھ کہہ رہے ہیں ان میں سے ہر بات اور ہر عمل کا ریکارڈ تیار ہورہا ہے اور قیامت کے دن اسی کے مطابق ان سے بازپرس ہوگی۔ آج یہ اپنے آپ کو قوت کی علامت سمجھتے ہیں اور انھیں گمان یہ ہے کہ انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں، لیکن قیامت کے دن ہم پورے اعمال کا حساب لیں گے۔ اور تمام اعمال پر جزاء اور سزا دیں گے۔ آیت کریمہ میں اگرچہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم ان کے اعمال پورے کے پورے انھیں دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریری شکل اور محفوظ حالت میں ان کے اعمال کا ریکارڈ انھیں دیا جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اعمال سے پہلے جزاء کا لفظ محذوف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے تمام اعمال کی جزاء و سزا دیں گے جو انھوں نے برسرعام یا برسر مجلس کیے یا گھروں میں چھپ کر سازشیں کیں یا باہمی مشاورت گاہوں میں آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف منصوبے باندھے۔ ان میں سے کوئی بھی عمل اس دن بغیر فیصلے کے نہیں رہے گا۔ جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
Top