Ruh-ul-Quran - An-Naml : 47
قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَ١ؕ قَالَ طٰٓئِرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ
قَالُوا : وہ بولے اطَّيَّرْنَا : برا شگون بِكَ : اور وہ جو وَبِمَنْ : اور وہ جو مَّعَكَ : تیرے ساتھ (ساتھی) قَالَ : اس نے کہا طٰٓئِرُكُمْ : تمہاری بدشگونی عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : ایک قوم تُفْتَنُوْنَ : آزمائے جاتے ہو
انھوں نے کہا ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بدشگونی کا نشان پایا ہے، حضرت صالح نے جواب دیا تمہارا نصیبہ اللہ کے پاس ہے بلکہ تم آزمائے جارہے ہو
قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَ ط قَالَ طٰٓیِٔرُکُمْ عِنْدَاللّٰہِ بَلْ اَنْـتُمْ قَوْمٌ تُفْتَـنُوْنَ ۔ (النمل : 47) (انھوں نے کہا ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بدشگونی کا نشان پایا ہے، حضرت صالح نے جواب دیا تمہارا نصیبہ اللہ کے پاس ہے بلکہ تم آزمائے جارہے ہو۔ ) اِطَّیَّرْنَاکی تحقیق اِطَّیَّرْنَا … طیر سے ہے، طیر چڑیوں اور پرندوں کو کہتے ہیں۔ چونکہ توہم پرستوں میں چڑیوں اور پرندوں کے اڑنے سے فال لینے کا عام رواج رہا ہے۔ اس وجہ سے تطیرکا لفظ فال لینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ پھر اس کا غالب استعمال فالِ بد کے معنی میں ہوگیا۔ اسی مادے سے طائر کا لفظ بھی ہے جو اس چیز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس سے کوئی نیک یا بد فال لی جائے۔ اور پھر اسی مفہوم سے ترقی کرکے قسمت اور نصیب کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ قوم کا بیہودہ ردعمل عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول دنیا میں سایہ حق بن کر آتے ہیں۔ ان کا وجود جسدِ قوم میں روح کی مانند ہوتا ہے۔ ان کی دعوت کو قبول کرلینے کے نتیجے میں انسانیت کو شباب کی دولت ملتی ہے۔ اور انسان کے گھر میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اترنے لگتی ہے۔ لیکن اس کے دعوت کے قبول اور عدم قبول کے نتیجے میں چونکہ دو گروہ بن جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ خلیج گہری ہوتی جاتی ہے۔ نتیجتاً ہر گھر میں حق و باطل کی کشمکش چھڑ جاتی ہے اور قبیلے کی شیرازہ بندی جن تعصبات کے بل بوتے پر ہوتی ہے ان تعصبات کی موت سے قبیلے ٹوٹنے لگتے اور امت مسلمہ کی تشکیل شروع ہوجاتی ہے۔ اور اس ڈھلتے ہوئے سائے کے پجاری یہ کہنے لگتے ہیں کہ اس شخص کی دعوت نے ہمارے قومی شیرازہ کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ ہر گھر میں ایک لڑائی برپا ہے، اپنے، اپنوں سے الجھ رہے ہیں اور ہم بیگانوں میں ایک تماشا بن کے رہ گئے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی تکذیب اور اس کی دعوت کے انکار کے نتیجے میں بعض دفعہ اس قوم پر ہلکے پھلکے حوادث بھی آتے ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے میں آمادہ ہوں۔ کبھی بارش روک کر قحط سالی پیدا کردی جاتی ہے، کبھی سیلاب آنے لگتے ہیں، کبھی زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے لگتے ہیں، کبھی وبائیں پھیل جاتی ہیں، یہ سب جھنجھوڑنے کے اسباب ہیں جس کا مقصد قوم میں انکار کے جذبات کو کم اور آمادگی کے جذبات کو انگیخت کرنا ہوتا ہے۔ لیکن پروپیگنڈا کرنے والے ایسی ہی باتوں کا حوالہ دے دے کر لوگوں کو یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ تم پر یہ ساری مصیبتیں اس پیغمبر کی وجہ سے آئی ہیں۔ نعوذباللہ من ذلک یہ شخص تمہارے لیے نحوست کا باعث بن کے آیا ہے۔ اور اگر انھیں یہ کہا جائے کہ یہ سب کچھ تمہارے کفر، شرک اور ناشکری کا نتیجہ ہے تو ان کے دانشور ہمیشہ ان کو اس مغاطے میں مبتلا رکھتے ہیں کہ اس طرح کے نرم و سخت دن تو قوموں پر آیا ہی کرتے ہیں ان کو کسی کی تصدیق و تکذیب سے کیا تعلق۔ لیکن عام لوگ ان مصائب کو رسول اور اس کے ساتھیوں کی بت پرستی سے برگشتگی کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے معبودوں اور ہمارے باپ دادا کے دین کے مخالف بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے معبودوں اور بزرگوں کی مار ان پر پڑی ہے۔ اور ان کی لائی ہوئی آفت میں ہم بھی حصہ پا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ تمہیں جو آزمائشیں اور آفتیں پیش آرہی ہیں یہ کسی کی نحوست کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کا سررشتہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ تم میں انابت الی اللہ کے جذبات پیدا کرنے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی دعوت کی طرف مائل کرنے کے لیے تمہیں ان آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے۔ وہ اس طرح سے تمہیں آزمانا چاہتا ہے کہ تم میں قبول حق کی اگر کچھ بھی صلاحیت ہے وہ ان آزمائشوں سے ابھر کر سامنے آجائے۔ اور یا بصورت دیگر یہ ثابت ہوجائے کہ تم قبول حق کے جذبات سے بالکل محروم ہوچکے ہو اور اس قابل ہوگئے ہو کہ دھرتی تمہارا بوجھ مزید برداشت نہیں کرسکتی۔
Top