Ruh-ul-Quran - An-Naml : 90
وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ١ؕ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَمَنْ : اور جو جَآءَ : آیا بِالسَّيِّئَةِ : برائی کے ساتھ فَكُبَّتْ : اوندھے ڈالے جائیں گے وُجُوْهُهُمْ : ان کے منہ فِي النَّارِ : آگ میں هَلْ : کیا نہیں تُجْزَوْنَ : بدلہ دئیے جاؤگے تم اِلَّا : مگر۔ صرف مَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور جو لوگ برائی لے کے آئیں گے تو وہ اوندھے منہ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے، تمہیں بدلہ میں وہی دیا جائے گا جو تم کرتے رہے ہو
اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ ھٰذِہِ الْبَلْدَۃِ الَّذِیْ حَرَّمَھَا وَلَـہٗ کُلُّ شَیْ ئٍ زوَّاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ جفَمَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ جوَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ۔ (النمل : 91، 92) (مجھے تو صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اس گھر کو عزت و حرمت والا بنایا ہے اور ہر چیز اسی کے اختیار میں ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداری کرنے والوں میں سے بنوں ۔ نیز یہ بھی کہ میں قرآن پڑھ کر سنائوں، تو جو ہدایت کی راہ اختیار کرے گا وہ اپنے ہی فائدے کے لیے اختیار کرے گا، اور جو گمراہی اختیار کرے گا تو آپ کہہ دیجیے کہ میں تو صرف ڈرانے والوں میں سے ہوں۔ ) آنحضرت ﷺ کے مشن کی وضاحت سورة کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ آپ فیصلہ کن انداز میں اپنے مشن کی وضاحت کردیں۔ اور قریش پر یہ بات اچھی طرح کھول دیں کہ میں شب و روز جس مقصد کی طرف تمہیں دعوت دے رہا ہوں وہ یہ مقصد ہے۔ دوسری آیت کے آخر میں ” قُلْ “ کا لفظ آیا ہے۔ یہ قرینہ ہے اس بات کا کہ آیت کے شروع میں بھی ” قُلْ “ کا لفظ محذوف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنی تبلیغ و دعوت کا مقصد اپنے طور پر متعین نہیں کیا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ گھر اہل عرب جس کی انتہائی تعظیم کرتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا وہ گھر ہے جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ اور اس گھر کو توحید کا مرکز بنایا گیا تھا۔ اور اسی گھر کے صحن میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کے دو عظیم بندوں نے ایک پیغمبر کی بعثت کے لیے دعائیں مانگی تھیں اور یہیں سے ایک امت مسلمہ کے اٹھائے جانے کی التجا کی تھی۔ وہ پیغمبر جس کے لیے حضرت خلیل اللہ نے دعا مانگی، وہ میں ہوں۔ اور جس امت کے اٹھائے جانے کے لیے التجا کی تھی وہ امت وہ ہے جو میری دعوت کے قبول کرنے سے وجود میں آئے گی۔ اور پھر حضرت خلیل نے آنے والے آخری نبی کے جن فرائض کا ذکر کیا تھا میں انھیں فرائض کی ادائیگی کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ چناچہ انھیں فرائض کی ادائیگی کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوتا ہے۔ تو میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کروں یعنی اسے پڑھ کر تمہیں سنائوں۔ اور یہ پڑھنا ایسا نہیں جیسے ایک قاری پڑھتا ہے، بلکہ یہ پڑھنا ایسا ہے جیسے شہنشاہِ عالم کا حکم وائسرائے پڑھ کے سناتا ہے۔ اور پھر یہ حکم نامہ ایسا نہیں کہ صرف سننے والوں پر لاگو ہوتا ہو، میرے لیے بھی ضروری ہے کہ میں اس کا فرمانبردار بن کے رہوں کیونکہ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میری فرمانبرداری کا طریقہ میری امت کے لیے حجت اور سنت ٹھہرایا گیا ہے۔ چناچہ میرے مشن کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص نے اس کو سنا اور اس پر عمل کیا تو اس کا فائدہ اسی کو حاصل ہوگا، یعنی اس کی دنیا سنور جائے گی اور آخرت میں وہ فائزالمرام ہوگا۔ اور جو شخص اس کے بعد بھی گمراہی پر جما رہا تو اس سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ میں تو صرف خبردار کرنے والا ہوں۔ اس کا جو نقصان ہوگا وہ اس کی ذات کو ہوگا۔ اس کی دنیا بھی دکھوں سے معمور ہوگی اور اس کی آخرت ابدی ناکامیوں کی آماجگاہ ہوگی۔
Top