Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا، اور دارآخرت ہی ہے جو اصل زندگی کی جگہ ہے، کاش یہ لوگ اس کو جانتے
وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَھْوٌ وَّلَعِبٌ ط وَاِنَّ الدَّارَالْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ م لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۔ (العنکبوت : 64) (اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا، اور دارآخرت ہی ہے جو اصل زندگی کی جگہ ہے، کاش یہ لوگ اس کو جانتے۔ ) کفار کی گمراہی کا اصل سبب اس آیت کریمہ میں کفار کی گمراہی کے اصل سبب کو منکشف فرمایا گیا ہے۔ جس طرح ایک بچہ اپنے ہمجولیوں کے ساتھ کھیل کود کا کوئی ذریعہ تلاش کرلیتا ہے اور پھر اس میں ایسا مگن رہتا ہے کہ اسے کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ بچوں میں سے ایک بادشاہ بن جاتا ہے اور باقی درباری بن جاتے ہیں۔ حالانکہ نہ وہ بادشاہ ہے اور نہ دوسرے لڑکے درباری ہیں۔ لیکن وہ اسی کو ایک حقیقت سمجھ کر اس میں کھوئے رہتے ہیں۔ اور جب کھیل کود سے فارغ ہوتے ہیں تو جیسے گھر سے خالی ہاتھ آئے ہوتے ہیں ویسے ہی لوٹ جاتے ہیں۔ انسان بھی دنیائے فانی کی دلفریبیوں میں اس طرح کھو جاتا ہے کہ اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ دنیا میں میرا قیام چند دنوں یا چند سالوں سے زیادہ نہیں۔ حالانکہ ان کے سامنے بڑے بڑے حوادث گزرتے ہیں جو یہاں کی ہر چیز کی بےثباتی کو نمایاں کردیتے ہیں۔ لیکن انسان اپنی بےبصیرتی اور کم نگاہی سے کبھی دستبردار نہیں ہوتا۔ ٹھیک کہا شاعر نے : جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بو نے انسان جن مفادات کے لیے زندگی بھر دیوانوں کی طرح محنت کرتا اور پسینہ بہاتا ہے اسے خوب معلوم ہے کہ وہ مفادات ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں۔ جس عہدہ و منصب اور مالداری کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دیتا اور بعض دفعہ انسانیت کو تماشا بنا دیتا ہے اسے خوب معلوم ہے کہ یہ چار دن کی چاندنی ہے اس کے بعد اندھیری رات ہے۔ جس طرح لہو ولعب وقتی طور پر دل کے بہلاوے کا سامان مہیا کرتے ہیں اسی طرح دنیا کی نیرنگیاں اور دلفربیاں بھی دل کے بہلاوے کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں کسی کو پائیداری اور ثبات حاصل نہیں۔ یہ دنیا قدروقیمت والی چیز اس صورت میں بن سکتی ہے جب آخرت کو نصب العین بنا کر گزاری جائے۔ اور ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول، انسانیت کی بھلائی اور اللہ تعالیٰ کے دین کی بالادستی کے لیے کیا جائے۔ اس صورت میں انسان اس چند روزہ زندگی کے بدلے میں ابدی پادشاہی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ نصب العین اگر نگاہوں سے اوجھل ہوجائے اور انسان اسی زندگی سے دل لگا کر اسی کی دلفریبیوں کو اپنی منزل بنا لے۔ اور یہیں کا عیش و عشرت اور شوکت و حشمت کا سامان اس کا مقصد ٹھہرے تو نتیجہ اس کا اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ جس طرح بچے کھیل کود کر خالی ہاتھ گھروں کو چلے جاتے ہیں، یہ بھی دس بیس یا ساٹھ ستر سال دل بہلا کر موت کے دروازے سے خالی ہاتھ گزر کر اس عالم میں پہنچے گا جہاں جاکر یہ راز کھلے گا کہ ہم نے زندگی کو بچوں کی طرح لہو و لعب سمجھا اور انھیں کی طرح اسی کو ساری زندگی سمجھ کر اپنی زندگی اور اس کی ساری توانائیاں اس میں کھپا کے آخرت میں پہنچے ہیں اور ان بچوں کی طرح ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ نتیجہ معلوم ہے کہ اس خودفریبی کے نتیجے میں انسان کو پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں لے گا۔ اور انجام اللہ تعالیٰ کا عذاب ہوگا۔ آخر میں فرمایا کہ کاش یہ لوگ جانتے کہ دنیا کی موجودہ زندگی صرف ایک مہلت امتحان ہے اور انسان کے لیے اصل زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے آخرت کی زندگی ہے۔ تو وہ دنیا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ لہو ولعب میں ضائع کرنے کی بجائے ان کاموں میں استعمال کرتے جو ابدی زندگی میں کامیابی و کامرانی کی ضمانت بن سکے۔
Top