Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
بیشک اللہ نے آدم اور نوح اور خاندانِ ابراہیم اور خاندانِ عمران کو سارے دنیا جہان پر برگزیدہ کیا ہے
اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔ لا ذُرِّیَّۃً م بَّـعْـضُہَا مِنْ م بَـعْـضٍ ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ ج (بیشک اللہ نے آدم اور نوح اور خاندانِ ابراہیم اور خاندانِ عمران کو سارے دنیا جہان پر برگزیدہ کیا ہے، یہ ایک دوسرے کی اولاد ہیں اور اللہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے) (33، 34) اس سے پہلے کی آیت پر سورة آل عمران کی تمہید ختم ہوگئی جس میں اللہ کی توحید، دین اسلام اور اس کی مبادیات، انسانوں کے لیے وحی الٰہی کی رہنمائی کی ضرورت، اہل کتاب میں پیدا ہونے والے اختلافات کا حل ہے۔ مضامین کو دلائل وبراہین سے ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ یہود کے طرزعمل اور ان کی گمراہیوں سے پردہ اٹھا کر رسول اللہ ﷺ کی دعوت اور آپ ﷺ کی حقانیت کو پوری طرح آشکارا فرمایا گیا۔ اس کے بعد تمام دنیا کو عموماً اور یہود کو خصوصاً اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی اور انکار کرنے کی صورت میں انجام سے بھی آگاہ کیا گیا۔ آخری بات کے طور پر آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کو ایک مکمل راہنما اور مینارہ نور کی طرح پیش فرما کر اتمامِ حجت کرنے کے ساتھ ساتھ نرمی سے آپ ﷺ کے اتباع کی دعوت دی گئی اور پھر تہدیدآمیز انداز میں اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی واضح کردیا گیا کہ اگر تم اس اطاعت سے انکار کرتے ہو تو یہ کافروں کا طریقہ ہے اور کافر اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ تمہید میں بنیادی صداقتوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہود پر تنقید بھی کی گئی کیونکہ مدینے میں اصل موثر رول انہی کا تھا۔ لیکن اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے عیسائیت بھی دنیا میں اپنا ایک اثر اور کردار رکھتی تھی اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت رومن ایمپائر کی مالک بھی تھی اور چند ہی سالوں بعد ان سے سابقہ بھی پیش آنے والا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ جن غلط فہمیوں کے باعث عیسائیت صراط مستقیم سے دور ہٹ گئی، ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے اور پوری دنیا کو سلسلہ نبوت کی اصل بنیاد سمجھا کر آنحضرت ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے۔ چناچہ اس ضرورت کے پیش نظر، پیش نظر آیت کریمہ سے ایک دوسرے خطبے کا آغاز ہوتا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطبہ (9) ہجری میں نازل ہوا جبکہ نجران کی عیسائی جمہوریت کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ لیکن اس کا مضمون چونکہ سورة آل عمران کے مضمون سے متحد ہے اس لیے اللہ کے حکم سے نو ہجری میں نازل ہونے والی ان آیات کو سورة آل عمران کا حصہ بنادیا گیا۔ نجران سے آنے والا وفد عیسائیت کی ترجمانی اور نمائندگی کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ فتح مکہ کے بعد چونکہ ملک کا مستقبل اسلام اور آنحضرت ﷺ کے ہاتھ میں آچکا تھا اس لیے عرب کے مختلف گوشوں سے آپ ﷺ کے پاس وفود کی آمد شروع ہوگئی۔ اسی سلسلے میں نجران کا وفد بھی آیا۔ نجران کا علاقہ حجاز اور یمن کے درمیان ہے۔ اس وقت اس علاقے میں تہتر بستیاں شامل تھیں اور کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار جنگی سپاہی اس میں سے نکالے جاسکتے تھے۔ اس جمہوریہ کی تمام تر آبادی عیسائیوں پر مشتمل تھی۔ اس مملکت کا انتظام اور انصرام دنیوی اور دینی تین سرداروں کے ہاتھ میں تھا۔ ایک عاقب کہلاتا تھا، جس کی حیثیت امیر قوم کی تھی۔ دوسرا سید کہلاتا تھا جو ان کے تمدنی اور سیاسی امور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا اسقف (بشپ) تھا، جو ان کا مذہبی پیشوا تھا۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کی اٹھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ ہم جنگی طاقت ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں سے لڑنے کی ہمت نہیں رکھتے اور مزید یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ان کے مذہبی رہنما آنحضرت ﷺ کی علامات کے بارے میں جو کچھ سن چکے تھے اس سے انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ہماری کتابوں میں جس آنے والے نبی کا ذکر ہے، وہ آپ ﷺ ہی ہیں۔ لیکن اپنی نسلی برتری اور ذہنی عصبیت کے باعث اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ ساٹھ آدمیوں پر مشتمل یہ وفد تینوں سرداروں سمیت مدینے پہنچا اور آنحضرت ﷺ سے مذہبی اور سیاسی معاملات پر گفتگو کی۔ یہ لوگ چونکہ اپنا ایک مذہب رکھتے تھے اور اسی حوالے سے اسلام کے تابع رہنا انھیں پسند نہ تھا۔ ان کی اسی حیثیت کے پیش نظر ان سے زیادہ تر گفتگو مذہبی معاملات میں ہوئی اور اس سلسلے میں راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ان آیات میں سب سے پہلے ان کی اصل بیماری کی نشاندہی فرمائی گئی ہے۔ ان کی اصل بیماری یہ تھی کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ اور رسول ماننے کی بجائے، اللہ کا بیٹا اور اس کی الوہیت میں اس کا شریک قرار دیتے تھے۔ ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ بندے تھے، اللہ نے انھیں یہود کی ہدایت کے لیے چنا، لیکن وہ اس برگزیدگی میں پہلے شخص نہ تھے۔ اس کا آغاز تو پہلے انسان سے ہوگیا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نوعِ انسانی کے جدامجد ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اس مقام پر فائز فرمایا جس طرح ان سے انسانی نسل وجود میں آئی اسی طرح انسانوں کی راہنمائی کا آغاز بھی انہی سے ہوا پھر ہر دور میں انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ انسانوں ہی میں سے کچھ لوگوں کو برگزیدہ فرماتا رہا اور ان سے انسانی راہنمائی کا کام لیتا رہا۔ نوح (علیہ السلام) جو لامخ کے بیٹے اور عراق کے رہنے والے تھے وہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے بعض روایات کے مطابق دسویں پشت میں تھے۔ انھوں نے ساڑھے نو سو سال عمر پائی اور عمر کا بیشتر حصہ انسانوں کی ہدایت کے لیے صرف فرمایا اور وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے آدمی اور انسان تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ عراق ہی میں سے انسانوں کی ہدایت کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اٹھایا گیا جو نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) جیسے عظیم فرزند عطا کیے اور ان دونوں کے واسطے سے ہدایت کے دو سلسلے قائم ہوئے۔ ایک نے بنی اسرائیل کے نام سے مشرق وسطیٰ میں اللہ کے دین کا نور پھیلایا اور دوسرے نے آل اسماعیل کے نام سے عرب کو راہنمائی بخشی۔ انہی دونوں سلسلوں میں نبوت اور رسالت کا نور پھوٹتا رہا۔ مشرق وسطیٰ کے بیشتر انبیاء بنی اسرائیل میں آئے اور نبی آخر الزماں ﷺ آل اسماعیل یعنی قریش میں سے اٹھائے گئے۔ جس سلسلہ نبوت نے مشرق وسطیٰ کے بیشتر حصے کو راہنمائی بخشی اسی سلسلہ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں، جو باقی انبیاء کی طرح اللہ کی طرف سے برگزیدہ فرمائے گئے اور لوگوں کی ہدایت کے لیے انھیں چنا گیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کے والد ماجد کا نام عمران بن ماتان ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آپ کے نواسے ہیں۔ آپ بیت المقدس کے امام اور کاہن اعظم تھے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم سے ہدایت رسانی کا کام لیا اسی مقصد کے لیے آل عمران میں سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھایا گیا۔ آپ کو نبوت دی گئی اور آپ پر کتاب نازل فرمائی گئی۔ اس آیت کریمہ میں عمران کے ذکر سے یا تو یہی عمران مراد ہیں یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نانا اور یا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والدگرامی مراد ہیں جن کا نام عمران تھا اور عیسیٰ (علیہ السلام) نسلاً بعد نسلٍ ان کی اولاد میں سے تھے۔ دونوں باتوں میں سے جو بات بھی مراد لی جائے مقصود صرف یہ ہے کہ یہ سلسلہ انبیاء جو انسانوں سے اٹھایا گیا اور یہ سلسلۃ الذہب جس نے ہمیشہ انسانوں کی شیرازہ بندی کی اسی کے ایک فرد اور اسی کی ایک کڑی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کے بارے میں الوہیت کے تصورات کہاں سے پیدا ہوگئے جبکہ یہ تمام انبیاء ایک دوسرے کی اولاد ہیں اور ایک دوسرے کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ باقی تو سب انسان ہیں، اس کے ایک فرد یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آخر انسانی نسل سے الوہیت کے منصب پر کیسے فائز ہوگئے ؟ اگر کسی کو یہ شبہ ہے کہ چونکہ ان کے والد نہیں اس لیے وہ یقینا اپنے اندر الوہیت کی صفات رکھتے ہوں گے تو اس غلط فہمی کی کوئی بنیاد نہیں کیونکہ وہ بھی اپنے ماں کے بطن اسی طرح پیدا ہوئے ہیں جیسے باقی لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ البتہ ! یہ بات کہ ان کے والد نہیں، اس لیے ان کو خدا مان لیا جائے یہ نہایت بےعقلی کی بات ہے۔ آدم (علیہ السلام) کے سرے سے ماں باپ دونوں نہیں تھے۔ اللہ نے انھیں اپنی دست قدرت سے بنایا تھا اور اپنی قدرت سے ان میں روح پھونکی تھی۔ انھیں تو کبھی کسی نے خدا یا خدا کا بیٹا نہیں کہا، لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) اپنا ننھیالی خاندان رکھتے ہوئے بھی اللہ کے بیٹے کیسے ہوگئے ؟ چناچہ اگلی آیات کریمہ میں ان کی ولادت کے واقعات کو بیان کیا جا رہا ہے تاکہ عیسائیوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کا تدارک ہو سکے۔
Top