Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 32
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ١ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَطِيْعُوا : تم اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں دوست رکھتا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
کہہ دیجیے کہ اللہ کی اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر وہ اعراض کریں (تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْـکٰفِرِیْنَ ۔ (کہہ دیجیے کہ اللہ کی اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر وہ اعراض کریں (تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا) (32) اطاعت احکام کی ہوتی ہے اور اتباع احکام سے لے کر ادائوں تک کا ہوتا ہے۔ مآل کا ردونوں ایک ہوجاتے ہیں۔ پہلی آیت کریمہ میں نہایت نرم روی بلکہ ازراہِ تلطف اتباع کی دعوت دی گئی اور ساتھ ہی نوازشات کی خبر بھی دے دی گئی۔ لیکن اس آیت کریمہ میں لہجہ بدل کر حاکمانہ اسلوب میں حکم دیاجا رہا ہے کہ تمہیں بہرصورت اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرنا ہے۔ یہاں سے اسلام کا آغاز ہوتا ہے۔ خالی دعوئوں سے کام نہیں چلتا، ایک ایک حکم کی تعمیل ضروری ہے۔ لیکن اس صراحت اور تہدید کے بعد بھی اگر کچھ لوگ اعراض کا رویہ اختیار کریں اور مسلمانوں کے ساتھ یکسو ہونے کی بجائے پہلو تہی کا طریقہ اپنائیں۔ شامل رہنا بھی چاہیں اور الگ الگ بھی رہیں تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ طریقہ کافر کا تو ہوسکتا ہے مسلمان کا نہیں۔ انھیں دعوت مسلمان بن کر رہنے کی ہے۔ اگر وہ اس سے ہٹ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ کفر کی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیت میں جو محبت کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور گناہوں سے مغفرت کی نوید سنائی ہے وہ اتباع کرنے والوں کے لیے ہے۔ اگر یہ لوگ اتباع حتیٰ کہ اطاعت تک سے گریز کریں تو پھر انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رویئے میں کافر ہیں اور اللہ کافروں کو کبھی پسند نہیں کرتا اور ان سے کبھی محبت نہیں کرتا۔ یہی وہ بات ہے جس کی آنحضرت ﷺ نے مختلف اوقات میں ترغیب بھی دی اور تاکید بھی فرمائی اور حقیقت بھی یہ ہے کہ دین کا آغاز اللہ کے رسول کی اطاعت سے ہوتا ہے اور اس میں قوت اللہ کے رسول سے محبت سے پید اہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں اگر اپنے اندر اخلاص رکھتی ہیں اور ان میں کوئی جھول نہیں تو یقینا اس سے اللہ کی محبت پیدا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس لیے جو شخص اللہ کے رسول کی اطاعت نہیں کرتا، لیکن ساتھ ہی وہ اللہ سے محبت کا دعویدار ہے یا رسول سے محبت کا دعویدار ہے تو وہ نہ جانتے ہوئے بھی نفاق کا شکار ہے اور بالآخر اس کا شمار کافروں میں ہو کر رہے گا۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کُلُّ اُمَّتِیْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّـۃَ اِلَّا مَنْ اَبٰی قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَنْ اَبٰی قَالَ مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ دَخَلَ الْجَنَّـۃَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ اَبٰی۔ (میری امت جنت میں جائے گی، ہاں ! وہ نہیں جائے گا جس نے انکار کیا۔ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! کس نے انکار کیا ؟ فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا) ایک عرب شاعر نے کیا خوب بات کہی ؎ تَعْصِی الرَّسُوْلَ وَ اَنْتَ تَظْہَرُ حُبَّہٗ ھٰذَا الْعَمْرِیْ فِی الزَّمَانِ بَدِیْعٗ لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَاَطَعْتَہٗ اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیْعٗ (تو رسول کریم ﷺ کی نافرمانی کرتا ہے اس حال میں کہ تو ان سے محبت کا اظہار بھی کرتا ہے، مجھے اپنی بقا کی قسم ! زمانے میں یہ بالکل نئی بات ہے، اگر تو اپنی محبت میں سچا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرتا کیونکہ محبت کرنے والا ہمیشہ محبوب کا اطاعت گزار ہوتا ہے)
Top