Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 50
فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ١ؕ اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
فَفِرُّوْٓا اِلَى : پس دوڑو طرف اللّٰهِ ۭ : اللہ کی اِنِّىْ لَكُمْ : بیشک میں تمہارے لیے مِّنْهُ : اس کی طرف سے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا ہوں مُّبِيْنٌ : کھلم کھلا
پس دوڑو اللہ کی طرف میں تمہارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں
فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ اِنِّیْ لَـکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌمُّبِیْنٌ۔ (الذریٰت : 50) (پس دوڑو اللہ کی طرف میں تمہارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔ ) آخرت کی تیاری کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع یعنی جب اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرنے اور بالخصوص اس کی قدرت اور اس کے مظاہر پر تدبر کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آخرت کو مانے بغیر اس دنیا کو بامقصد اور باحکمت نہیں مانا جاسکتا اور اس کی کوئی توجیہ ممکن نہیں رہتی۔ اور اسی طرح یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کائنات کا خالق ومالک اور مدبر و حکیم اور کوئی نہیں۔ وہی ایک ذات انسان کی پرستش، پرسش اور اطاعت کی مستحق ہے اور اسی کے سامنے آخرت میں جواب دہی کرنی ہے۔ تو پھر اسبات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اپنے اللہ کی طرف بھاگو، یعنی اسے اپنے دلوں میں بسا لو، اسے اپنا معبود و مسجود بنا لو، اس کی خوشنودی کے حصول کو اپنی خواہش بنا لو اور اسی کے دین کی بالاتری کو اپنی منزل سمجھو اور اپنی زندگی کا ہر فیصلہ اسی کے احکام کے تابع کردو۔ اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گی۔ تم دنیا میں رہ کر کبھی آسودہ نہ ہوسکو گے اور آخرت میں برے انجام سے دوچار کیے جاؤ گے۔ یہی وہ بات ہے جس کے لیے میں تمہیں صاف صاف طریقے سے آگاہ کررہا ہوں۔ اور تمہارے برے انجام سے تمہیں ڈراتا ہوں۔ مبین کا مطلب یہ ہے کہ میں اس میں کسی طرح کا اخفاء نہیں رکھنا چاہتا۔ کیونکہ اس میں معمولی اخفاء بھی منزل کو نگاہوں سے اوجھل کرسکتا ہے۔
Top