Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 260
وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ : اور ہر چیز میں سے خَلَقْنَا : بنائے ہم نے زَوْجَيْنِ : جوڑے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اور ہم نے ہر چیز سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم اس سے سبق لو
وَمِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّـکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۔ (الذریٰت : 49) (اور ہم نے ہر چیز سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم اس سے سبق لو۔ ) قانونِ تزویج سے توحید اور آخرت پر استدلال اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے مزید اظہار کے لیے فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کو قانونِ تزویج کے مطابق پیدا کیا۔ سارا کارخانہ ٔ عالم اسی قاعدے پر چل رہا ہے کہ دو چیزوں کے جوڑ سے تیسری چیز وجود میں آتی ہے۔ اور یہ ترکیب اور تزویج کا اصول صرف حیوان اور انسان میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق میں کارفرما ہے۔ اس نے کوئی چیز منفرد پیدا نہیں کی۔ ہر چیز کا جوڑا پیدا فرمایا۔ فرق صرف یہ ہے کہ کہیں اس جوڑے کو نر اور مادہ کہا جاتا ہے اور کہیں نیگٹو اور پازٹیو اور کہیں دوسرے نام دیئے جاتے ہیں۔ لیکن تمام اشیاء کا زوج زوج ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس حقیقت سے جو نتیجہ خود بخود نکلتا ہے اور عقل جسے قبول کرتی ہے مشرکین اور ملحدین اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ نتیجہ یہ ہے کہ جب ہر چیز کا ایک جوڑا ہے اور کوئی چیز اپنے جوڑے سے ملے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتی تو دنیا کی یہ زندگی کیسے بےجوڑ ہوسکتی ہے۔ اس کا جوڑا لازماً آخرت ہے۔ اگر دنیا اکیلی رہ کر اپنا وجود ختم کردے تو یہ بےنتیجہ ہو کر رہ جائے گی۔ اسے معنی خیز اور بامقصد بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک جوڑا ہو اور وہ یقینا آخرت ہے۔ جس طرح ان دلائلِ آفاق اور اللہ تعالیٰ کی بےپناہ قدرت کے اظہار سے آخرت کا وجود ثابت ہوتا ہے اسی طرح ان ہی دلائل سے توحید کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ یعنی جس طرح بارش کا انتظام، زمین کی ساخت، آسمان کی تخلیق، انسان کا اپنا وجود، کائنات میں قانونِ تزویج کی حیرت انگیز کارفرمائی، یہ ساری چیزیں آخرت کے امکان و وجوب پر گواہ ہیں اسی طرح یہی اس بات کی شہادت بھی دے رہی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے، نہ اس کے بہت سے خدا ہیں، بلکہ ایک ایک خدائے حکیم و قادرِمطلق ہی اس کا خالق ومالک اور مدبر ہے۔ ورنہ ہم جو کائنات میں مختلف عناصر کی کارفرمائی دیکھتے ہیں جن کے اپنے اندر تخالف کی نسبت پائی جاتی ہے اگر کہیں کائنات کے خالق و مدبر ایک سے زیادہ ہوتے تو ان متخالف عناصر میں توافق کبھی پیدا نہ ہوتا۔ آگ اور پانی، ہوا اور مٹی، اندھیر اور اجالا کبھی مل کر ایک خدمت انجام نہ دیتے۔ اور کائناتی زندگی کی بہتری کی بجائے ایک ایسی ابتری پیدا کردیتے جس سے انسان اور دیگر موجودات کا وجود ختم ہو کر رہ جاتا۔ آیت کے آخر میں لَعَلَّـکُمْ تَذَکَّرُوْنَلا کر ان ہی حقائق پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
Top