Ruh-ul-Quran - At-Tur : 44
وَ اِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ
وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا كِسْفًا : وہ دیکھیں ایک ٹکڑا مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے سَاقِطًا : گرنے والا يَّقُوْلُوْا : وہ کہیں گے سَحَابٌ : بادل ہیں مَّرْكُوْمٌ : تہ بہ تہ
اگر یہ لوگ آسمان کے ٹکڑے بھی گرتے ہوئے دیکھ لیں تو کہیں گے یہ تو تہ بہ تہ بادل ہیں
وَاِنْ یَّرَوْا کِسْفًا مِّنَ السَّمَآئِ سَاقِطًا یَّـقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْکُوْمٌ۔ (الطور : 44) (اگر یہ لوگ آسمان کے ٹکڑے بھی گرتے ہوئے دیکھ لیں تو کہیں گے یہ تو تہ بہ تہ بادل ہیں۔ ) مخالفین کی ہٹ دھرمی پر آنحضرت ﷺ کو تسلی مخالفین کی ہٹ دھرمیوں کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ مخالفین جس طرح آئے روز نئے سے نئے معجزات طلب کرکے آپ کے لیے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں آپ اس کی پرواہ نہ کریں۔ کفار کی طرف سے معجزات کی طلب کوئی نئی بات نہیں۔ جن لوگوں کو حق کی طلب ہوتی ہے وہ بھی بعض دفعہ معجزہ دیکھنے کی خواہش کرتے ہیں لیکن ان کے مطالبے آئے روز جاری نہیں رہتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی زندگی اپنی ذات میں خود معجزہ ہوتی ہے۔ اور ہر طرح کی مخالفت میں اس کی استقامت، انتہائی بےبسی اور بےکسی کی حالت میں اللہ تعالیٰ پر بےپناہ اعتماد اور اپنے فریضہ کی ادائیگی کے ساتھ بےپناہ لگن، ان میں سے کون سے بات ہے جو معجزات سے کم کہی جاسکتی ہے۔ باایں ہمہ مختلف وقتوں میں پیغمبر سے معجزات کا ظہور ہوتا رہا ہے لیکن جب ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے معجزے کی طلب شروع ہوتی ہے اور لوگ اسے اپنے ایمان کی شرط بنا لیتے ہیں تو ایسے لوگ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے اس حقیقت سے آگاہ فرمایا جارہا ہے کہ آپ ایسے لوگوں کی طلب پر کبھی اللہ تعالیٰ سے کسی معجزے کے ظہور کی دعا نہ فرمائیں۔ وہ ایسے معجزات دیکھ کر بھی اپنے کفر پر جمے رہنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرلیں گے۔ اسی سلسلے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ آسمان کے ٹکڑے بھی گرتے ہوئے دیکھ لیں تو کہیں گے کہ یہ تہ بہ تہ بادل ہیں جو بارش کے لیے ہماری طرف بڑھ رہے ہیں لیکن قوم ثمود کی طرح انھیں ان بادلوں کو عذاب سمجھنے کی توفیق نہیں ہوگی۔ ایسے ہٹ دھرم لوگ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوتے ہیں۔
Top