Ruh-ul-Quran - Al-Hadid : 18
اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌ
اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ : بیشک صدقہ کرنے والے مرد وَالْمُصَّدِّقٰتِ : اور صدقہ کرنے والی عورتیں وَاَقْرَضُوا اللّٰهَ : اور انہوں نے قرض دیا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ يُّضٰعَفُ : دوگنا کیا جائے گا لَهُمْ : ان کے لیے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَجْرٌ كَرِيْمٌ : اجر ہے عزت والا
بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ لوگ جنھوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے، ان کا دیا ہوا ان کے لیے بڑھایا جائے گا، اور ان کے لیے بہترین اجر ہے
اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ۔ (الحدید : 18) (بےشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ لوگ جنھوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے، ان کا دیا ہوا ان کے لیے بڑھایا جائے گا، اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ ) انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اجرِعظیم کے مستحق ہیں پیشِ نظر آیت کریمہ میں ان لوگوں کا ذکر کیا جارہا ہے جو نفاق کے مرض سے بھی محفوظ ہیں اور جن کا ایمان ہر طرح کے شک و ارتیاب کی کمزوری سے بھی پاک ہے۔ وہ صرف راہ حق میں جان لڑانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے مال کو بھی اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر جب بھی موقع آتا ہے اللہ تعالیٰ کے راستے میں بےدریغ خرچ کرنے میں تأمل نہیں کرتے۔ اس کے لیے دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں ایک الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِاور دوسرا اَقْرَضُوْاپہلا لفظ فاعل ہے اور دوسرا لفظ فعل کی صورت میں ہے۔ فاعل یا صفت دوام اور استمرار پر دلالت کرتے ہیں۔ اور فعل وقوع فعل پر۔ یہاں مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دو طرح سے انفاق کرتے ہیں۔ ایک تو ان کا انفاق وہ ہے جس کا مطالبہ ہر ذی استطاعت مسلمان سے عام حالات میں ہوتا ہے۔ یعنی ہر شخص پر جو زکوٰۃ دینے کی استطاعت رکھتا ہے زکوٰۃ دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ جو فطرانہ دے سکتا ہے اس سے فطرانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو دوسرے مالی حقوق کسی شخص پر عائد ہوتے ہیں تو ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ یہ وہ انفاق ہے جو وقتی نہیں بلکہ دائمی ہے۔ جب تک زندگی اور استطاعت باقی ہے یہ مطالبات بھی باقی ہیں۔ اور دوسرا انفاق وہ ہے جو ہنگامی طور پر ناگہانی ضرورت کے تحت کسی مسلمان سے کیا جاتا ہے۔ اس کی ضرورت چونکہ کبھی کبھی پیش آتی ہے اس لیے اس کو فعل سے ذکر فرمایا کہ جب بھی اس کا مطالبہ کیا جائے گا اس کی ادائیگی لازمی ہے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ حقیقی ایمان سے بہرہ ور ہیں ان کا حال یہ ہے کہ وہ صدقاتِ واجبہ ادا کرنے میں ایک چشمے کی مانند ہیں۔ جیسے چشمہ ہمیشہ ابلتا ہے یہ بھی ہمیشہ ابلتے رہتے ہیں۔ جس طرح چاند سے چاندنی، سورج سے روشنی اور برف سے ٹھنڈک الگ نہیں کی جاسکتی، اسی طرح ان لوگوں سے اس جوہر کو چھینا نہیں جاسکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس دادودہش کو صدقہ سے تعبیر فرمایا۔ صدقہ اسلام کی اصطلاح میں اس عطیے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے جس میں کوئی ریاکاری نہ ہو، کسی پر احسان نہ جتایا جائے۔ وہ عطیہ جس میں خالص جذبہ نہ ہو اسی صدقہ نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں یہ لفظ لا کر اس طرح توجہ دلانا مقصود ہے کہ یہ لوگ خالص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے خالص جذبے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہمیشہ انفاق کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور اگر کبھی کسی ہنگامی ضرورت کے لیے ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہ کبھی اپنے دیگر عطیات کا حوالہ دے کر ہاتھ روکنے والے نہیں ہوتے بلکہ اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اور پھر اس جذبے میں مرد اور عورت کی کوئی تقسیم نہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دے رکھی ہے چاہے مرد ہو یا عورت وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے والے لوگ ہیں۔ اور ہنگامی ضرورت کے تحت جو کچھ دیا جاتا ہے اسے یہاں اللہ تعالیٰ نے قرض سے تعبیر فرمایا ہے جس سے یہ تأثر دینا مقصود ہے کہ ایسے عطئے کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمے قرض سمجھتا ہے اور جس طرح قرض کی واپسی لازمی ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اس عطئے کو نہ صرف دینے والے کو واپس کرتا ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اور اضافے کی کوئی انتہا نہیں۔ دینے والے نے اخلاص کی جتنی بڑی مقدار اس میں صرف کی ہوگی، اتنا ہی اس میں اضافہ فرمایا جائے گا۔ اور پھر اسی پر اکتفا نہیں بلکہ اپنی طرف سے پروردگار مزید بھی عطا فرمائے گا جسے اجرِکریم فرمایا گیا ہے۔ اور اجر کریم وہ چیز ہے جسے کسی پیمانے سے ناپا نہیں جاسکتا۔ اور دنیا میں کسی طرح بھی اس کی حدود کا تعین ممکن نہیں۔
Top