Ruh-ul-Quran - Al-Hashr : 13
لَاَنْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
لَاَانْتُمْ : یقیناً تم۔ تمہارا اَشَدُّ رَهْبَةً : بہت زیادہ ڈر فِيْ صُدُوْرِهِمْ : ان کے سینوں میں مِّنَ اللّٰهِ ۭ : اللہ سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ قَوْمٌ : ایسے لوگ لَّا يَفْقَهُوْنَ : کہ وہ سمجھتے نہیں
ان کے دلوں میں اللہ کے بالمقابل تمہارا خوف زیادہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے
لَاْ اَنْتُمْ اَشَدُّ رَھْبَۃً فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنَ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لاَّیَفْقَھُوْنَ ۔ (الحشر : 13) (ان کے دلوں میں اللہ کے بالمقابل تمہارا خوف زیادہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ ) منافقین کے ایمان کی حقیقت منافقین بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے خوف کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر تمہارا خوف ہے۔ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں اسلام کی وجہ سے انتہا درجے کا اتحاد ہے، وہ کفر کے مقابلے میں ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہیں، جس سے ٹکرانے والا اپنا سر تو پھوڑ سکتا ہے، لیکن اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ان کی تمام تر وفاداریاں صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اور رسول کے اشارے پر یہ لوگ گردنیں کٹوانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اس صورتحال نے ان کے دلوں میں ایک خوف بٹھا دیا ہے کہ جو شخص بھی ان مسلمانوں سے ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہو کر رہ جائے گا۔ اس خوف کی وجہ سے وہ یہود کا ساتھ دینے کی ہمت نہیں کریں گے۔ لیکن اس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص ایمان کا دعویٰ بھی کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی بجائے اللہ تعالیٰ کے بندوں سے ڈرتا ہے اور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی عقلیں بالکل جواب دے گئی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فہمِ صحیح کی قوت کو سلب کرلیا ہے اور ان کی فکری توانائی بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
Top