Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 118
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ
فَكُلُوْا : سو تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو ذُكِرَ : لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو بِاٰيٰتِهٖ : اس کی نشانیوں پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
بس تم کھائو ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہو
تمہید گزشتہ آیات میں اللہ کی توحید پر مسکت اور فیصلہ کن دلائل دینے کے بعد فرمایا کہ کیا ان دلائل کے آجانے اور عقیدہ توحید کی اس مکمل وضاحت کے بعد اس بات کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کو منصف ‘ فیصل اور حاکم کی حیثیت سے تسلیم کروں ؟ جبکہ اللہ نے اپنی حاکمیت کی عملی شکل کو متعین کرتے ہوئے اور اپنے فیصلوں کو عملی صورت دیتے ہوئے قرآن جیسی مفصل کتاب بھی نازل فرما دی ہے جس کی صداقت اور حقانیت کا عالم یہ ہے کہ جو اہل کتاب آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ چونکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے خیانت کا ارتکاب کرنے سے گریز کرتے ہیں اس لیے اقرار کرتے ہیں کہ یہ کتاب واقعی اللہ کی جانب سے نازل ہوئی ہے اور جس کی تعلیمات کا حال یہ ہے کہ اس کے بیان کردہ وعد و وعید ‘ پیش گوئیاں اور تاریخی واقعات سچائی کے ترازو میں اپنی سچائی ثابت کرچکے ہیں اور جس کے احکام اور جس کے دیئے ہوئے قوانین عدل اور اعتدال کی مکمل شان لیے ہوئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اب لوگوں کی اکثریت راہ حق پر چلنے اور صحیح بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ صحیح بات کا فیصلہ علم اور استدلال کی قوت سے ہوتا ہے اور عوام ہمیشہ طن وتخمین پر زندگی گزارتے ہیں جس کا علمی دنیا اور زندگی کے حقائق میں کوئی وزن نہیں۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ یہ اللہ کے بارے میں کھلے عام اقرار کرتے ہیں کہ ہم اس کو خالق مانتے ہیں ‘ رازق مانتے ہیں ‘ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہی پوری کائنات کا مالک ہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہی ذات ہے جو غیب و حضور ہر بات کو جاننے والی ہے وہی اسباب سے ماوراء دعائوں کو سنتا ہے۔ ان سارے مسلمات کے بعد بھی ان کا حال یہ ہے کہ جس ذات کو وہ کائنات کا خالق ومالک مانتے ہیں اسے غیر مشروط قانون سازی اور حلت و حرمت کا حق دینے کو تیار نہیں۔ یہ حق انھوں نے اپنے آبائو اجداد کو ‘ اپنے نام نہاد مذہبی راہنمائوں کو اور اپنے کاہنوں کو دے رکھا ہے اور یا عام زندگی کے معاملات میں تہذیبی تمدنی اور سیاسی زندگی میں یہ حق ان کے سربرآوردہ لوگ اور ان کی نام نہاد حکومتوں کے سربراہ استعمال کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جائز طور پر ہمارا حق ہے ہم اسے جیسے چاہیں استعمال کریں اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ آگے آنے والی تین چار آیات میں اسی بنیادی بات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰیٰتِہٖ مُؤْمِنِیْنَ ۔ وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ ط وَاِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآئِھِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ ۔ (الانعام : 118۔ 119) (بس تم کھائو ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہو اور تم کیوں نہ کھائون ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام لیا گیا ہو جبکہ اس نے تفصیل سے بیان کردی ہیں وہ چیزیں جو تم پر حرام ٹھہرائی ہیں اس استثناء کے ساتھ جس کے لیے تم مجبور ہوجاؤ اور بیشک بہتیرے ایسے ہی ہیں جو لوگوں کو کسی علم کے بغیر اپنی بدعات کے ذریعے سے گمراہ کر رہے ہیں تیرا رب خوب واقف ہے ان حد سے بڑھنے والوں سے) اللہ ہی حاکم اور مختارکل ہے ان آیات میں بظاہر ان جانوروں کے گوشت کھانے کا حکم دیا گیا ہے جنھیں اللہ کے نام سے ذبح کیا جائے اور اس بات پر تنقید کی گئی ہے کہ جن جانوروں کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاتا ہے تم آخر انھیں کیوں نہیں کھاتے ؟ لیکن اصل میں یہ اصولی بحث ہے جس کی طرف یہاں توجہ دلائی گئی ہے جیسا کہ ہم اس سے پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ اللہ کو خالق ومالک ماننے کے باوجود اس کے اختیارات کسی اور کو تفویض کردینا بنیادی طور پر ہر امت کی گمراہی کا سبب رہا ہے۔ اس لیے کہ اگر ہم کسی کو اپنا حاکم ومالک تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے لیے اختیارات ماننے کو تیار نہیں ہیں یا اس کے اختیارات میں کسی اور کو شریک کردیتے ہیں تو آخر اس کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کا کیا فائدہ ہوا اگر وہ واقعی حاکم ہے تو اختیارات کا سرچشمہ بھی وہی ہے کیونکہ حاکمیت مختار ہونے کا ہی دوسرا نام ہے اور پھر اگر کسی کو حاکم ماننے والے اپنی مرضی سے جب چاہیں اس کے اختیارات میں دوسرے کو شریک کردیں تو پھر اختیارات کا سرچشمہ تو یہ ماننے والے ٹھہرے وہ حاکم بےچارہ تو ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی ہوگا کہ جب چاہا اسے کوئی اختیار دے دیا اور جب چاہا اس سے اختیار چھین لیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اختیارات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ جس کو حاکم تسلیم کرتے ہیں کیا اس کی غیر مشروط اطاعت کا دم بھرتے ہوئے اسے ہر سطح پر حلت و حرمت اور جائز اور ناجائز قرار دینے اور صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کا حق بھی دیتے ہیں یا نہیں۔ کیونکہ حقیقت میں اختیارات اسی ایک اختیار سے جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ چونکہ پوری کائنات کا حاکم حقیقی ہے باقی پوری کائنات میں تو تکوینی طور پر اس نے اپنے اختیارات نافذ کر رکھے ہیں ‘ لیکن انسانوں کو چونکہ اس نے اطاعت اور معصیت کی آزادی دے رکھی ہے اس لیے ان کی جزا و سزا کو اس نے اس بات سے وابستہ کردیا ہے کہ انسان اپنے اختیار اور ارادہ سے اللہ کے اختیارات کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ ان مشرکینِ مکہ کا حال یہ تھا کہ وہ اللہ کو سب کچھ ماننے کے باوجود اس کے ان اختیارات میں خود بھی دخل دیتے تھے اور ان کو بھی دخیل بناتے تھے جن کو انھوں نے اللہ کے ساتھ شریک بنا رکھا تھا اور اس کا زیادہ اظہار جانوروں کی قربانیوں یا جانوروں کا گوشت کھانے کے سلسلے میں ہوتا تھا۔ پیچھے گزر چکا کہ انھوں نے جانوروں میں تقسیم کر رکھی تھی کہ بعض جانور انھوں نے اپنے لیے حلال کر رکھے تھے اور بعض بتوں کی طرف منسوب کر کے لوگوں کے لیے ان کا استعمال ممنوع قرار دے دیا تھا۔ بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام جیسے ناموں سے انھوں نے مختلف قسم کے جانور از خود اور اپنے آبائو اجداد کے حوالے سے لوگوں پر حرام کردیئے تھے اور دعویٰ ان کا یہ تھا کہ چونکہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں تو ہمارے آبائو اجدادنے جن جانوروں کا کھانا حرام قرار دے دیا تھا یقینا ان کو ابراہیم کی شریعت سے یہ احکام ملے ہوں گے۔ چناچہ قرآن کریم نے ان کی اسی گمراہی پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ حلت و حرمت کا اختیار اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں۔ اور تمہیں یہ جو دعویٰ ہے کہ یہ ابراہیمی شریعت کا ورثہ ہے تو تمہارے پاس اس کی کوئی علمی سند ہو تو لائو جو اہل کتاب تمہاری پیٹھ ٹھونکتے رہتے ہیں ان سے پوچھو کہ ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے اور اگر ایسا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر تم نے اللہ کا یہ اختیار اپنے ہاتھوں میں کیوں لے لیا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ قوموں کے بگاڑ کی جو تاریخ ہمارے سامنے ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ تمام قوموں میں یہ شرک بھی ہوتا رہا کہ غیر اللہ کو سجدہ ہوتے رہے ‘ چڑھاوے چڑھائے جاتے رہے ‘ مرادیں مانگی جاتی رہیں لیکن متمدن اور مہذب دنیا میں جبکہ ریاستیں وجود میں آئیں اور ان پر حکمرانوں نے حکومتیں بھی کیں ان میں جو نہایت خطرناک شرک ہوتا رہا وہ متذکرہ شرک کے ساتھ ساتھ اصل شرک یہ تھا کہ وہ اپنی مطلق العنانی اور اپنی غیر مشروط حاکمیت کو کسی طرح بھی چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ جب ان سے یہ کہا جاتا تھا کہ حاکم حقیقی تو اصل میں اللہ کی ذات ہے تم حاکم ہو کر بھی اس کے بندے ہو۔ تمہارا کام اس کے احکام نافذ کرنا ہے۔ خود اپنے آپ کو دنیا کی گردنوں پر مسلط کرنا نہیں ہے تو وہ اس پر بگڑ جاتے تھے وہ آج کے دور کی طرح زیادہ سے زیادہ اس بات کو ماننے کو تیار تھے کہ مذہب کی اگر کوئی حقیقت ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ یہ بندے اور اللہ کے درمیان ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی میں مذہب روشنی دیتا ہے۔ آدمی پریشان ہوتا ہے تو وہ اللہ سے مدد مانگتا ہے۔ کوئی آدمی اس کا تقرب چاہتا ہے تو وہ تنہائی میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ ہفتے بعد عبادت گاہ میں جا کر اس کی نماز پڑھتا ہے اور اس کے حضور دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ رہی پبلک زندگی جو گلی محلے سے شروع ہوتی اور زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی حکومت کے ایوان تک پہنچتی ہے اس سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ اللہ کا کام یہ ہے کہ وہ ہماری تنہائیوں کو آباد رکھے ‘ ہماری مرادیں پوری کرے ‘ ہمیں پریشانیوں سے بچائے ‘ ہمیں رزق دے اور ہمیں اولاد سے نوازے۔ لیکن جہاں تک زندگی گزارنے کے طریقے کا تعلق ہے اور اجتماعی زندگی میں قانون اور آئین کی ضرورت کا تعلق ہے یہ کام خود انسان مل کر آپس میں کریں گے۔ اللہ کا یا مذہب کا اس سے کوئی رشتہ نہیں۔ یہی وہ گمراہی تھی جو سابقہ امتوں میں پائی جاتی تھی جس نے ان کو پوری طرح شیاطین اور نفسانیت کی گرفت میں دے دیا تھا اور یہی گمراہی آج کی دنیا میں مذہب کے انکار کی صورت میں یا مذہب کے اقرار کے ساتھ ساتھ سیکولرازم کی شکل میں پوری دنیا پر حاوی ہے انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ امت مسلمہ جس کو دنیا کی رہنمائی کے لیے اٹھایا گیا اور جن کے دین نے ان کو جو تعلیم دی تھی اس کی بنیاد ہی یہ تھی کہ تم از اول تا آخر اللہ کے بندے ہو اور اللہ تمہارا فرمانروا ہے۔ سروری اور کبریائی کی جتنی بھی قابل عزت شکلیں ہیں وہ سب اسی کو زیب دیتی ہیں انسان دنیا میں اس کی بندگی اور اس کی مرضی ‘ اختیار ‘ قانون اور آئین کو نافذ اور جاری وساری کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور اگر یہ بڑائی اور یہ عظمت کوئی شخص یا کوئی قوم خود اوڑھ لیتی ہے تو یہ شرک ہے اور یہی آذر کا طریقہ ہے جس کو توڑنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تشریف لائے تھے۔ بقول اقبال ؎ سروری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری جن جانوروں پر اللہ کا نام لیا جائے ان کا گوشت کھائو لیکن آج اس امت کا حال یہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر سب سے زیادہ حکومتیں اس کی ہیں۔ زمین کا بڑا رقبہ اس کے قبضے میں ہے۔ سمندروں کے تمام قابل ذکر ساحلوں پر اس کی حکمرانی ہے اور بیشتر ملک اس کے اپنی آزادانہ حکومتیں رکھتے ہیں لیکن غضب خدا کا، پورے عالم اسلام میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جس نے پوری طرح اللہ کے دین اور اس کی حاکمیت کو اپنے ملک میں نافذ کیا ہو۔ کہیں ملوکیت کی شکل میں ‘ کہیں آمریت کی صورت میں اور کہیں مغربی جمہوریت کے انداز میں اللہ کی حاکمیت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اس کے قانون کے مقابلے میں قانون سازی ہو ری ہے اس کے آئین کے توڑ پر آئین بنائے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض ممالک کو مسلمان کہلاتے ہوئے بھی اس بات پر شرم آتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگائیں اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہاں بظاہر نہایت سادہ انداز میں جس حقیقت کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ کس قدر عظیم اور گھمبیر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک دوسری بات بھی ذہن میں رکھیئے کہ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ جن جانوروں پر اللہ کا نام لیا جائے تم انھیں کھائو اور اس کے بعد فرمایا اگر تم اس کی آیات اور اس کے احکام پر ایمان لانے والے ہو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہو کر بھی بعض ایسے جانوروں کو جن پر اللہ کا نام لیا جاتا تھا کھاتے نہیں تھے یہ بجائے خود ایک دوسری حقیقت کی طرف رہنمائی کی جا رہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ نے چونکہ ملت ابراہیمی کا نام لے کر مذہب کے حوالے سے بعض جانور اپنے اوپر حرام کرلیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب سورة النحل میں جیسا کہ اگلی آیت میں بیان کیا جا رہا ہے تفصیل سے بیان کردیا کہ حرام جانور کون کون سے ہیں ان کے علاوہ باقی جتنے جانوروں کو تم نے اپنے طور پر حرام کر رکھا ہے وہ ہرگز حرام نہیں بلکہ حلال ہیں بس شرط یہ ہے کہ ان حلال جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لے کر ذبح کرو۔ لیکن بعض ایسے مسلمان جن کے دل و دماغ سے ابھی سابقہ محرمات کی تقدیس نہیں نکلی تھی اور وہ ایمان لانے کے بعد بھی ابھی قدیمی تعلقات سے اپنے دماغوں کو پوری طرح لاتعلق نہیں کر پائے تھے ان کا حال یہ تھا کہ جب ایسے کسی جانور کا گوشت ان کے سامنے آتا تو وہ سابقہ تعلق کیوجہ سے اسے کھانے سے احتراز کرتے تھے کیونکہ انسانی فطرت یہ ہے کہ سابقہ مذہبی رشتوں کو توڑنا اور نئے مذہب کو پوری طرح عملی صورت دینا انسان کے لیے آسان نہیں ہوتا اس کے لیے دل کی جس مضبوط آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے چناچہ یہاں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ تم اگر اپنے ایمان میں سچے ہو اور تم اگر اپنے دور جاہلیت سے پوری طرح لاتعلق ہوچکے ہو تو پھر سابقہ دین سے تمہاری یہ رواداری کیوں ہے۔ تمہیں یکسو ہوجانا چاہیے کہ جس دین کو تم نے قبول کیا ہے اس کو اگر صحیح سمجھ کے قبول کیا ہے اور سابقہ مذہب کو تم نے غلط سمجھ کے چھوڑا ہے تو پھر یہ تذبذب کی کیفیت کیوں ہے ان کی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے اگر ہم برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ دیکھیں تو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے جس طرح مشرکینِ مکہ کو بعض جانوروں سے ایک مذہبی رشتہ رہا ہے اور اس حصار سے وہ نکلنے کے لیے تیار نہیں تھے اسی طرح برصغیر میں جو مسلمان ہندو مذہب سے نکل کے آئے مدت دراز تک وہ گائے کی محبت سے اپنا دامن نہ چھڑا سکے اس کی پوجا تو انھوں نے ترک کردی لیکن ان میں بہت سے لوگ ایسے رہے جو بنی سرائیل کی طرح اس سے یکسر تعلق توڑنے اور اس کا گوشت کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے اور اسی بات کے زیر اثر ہمارے بعض عملیات کرنے والوں نے ان کے جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عملیات کی تاثیر کے لیے یہ شرط رکھی کہ تم گائے کا گوشت نہیں کھائو گے ورنہ یہ تعویذ اثر نہیں کرے گا۔ چناچہ اسی مشرکانہ تصور کو ختم کرنے کے لیے علما کا یہ طریقہ رہا کہ جب وہ کسی ہندو کو مسلمان کرتے تھے تو اے گائے کا گوشت بھی کھلاتے تھے تاکہ اس کے دل سے اس جانور کی عقیدت ختم ہو جس کو اس نے آج تک دیوتا کی حیثیت دے رکھی تھی۔ حرام و حلال کا فیصلہ صرف اللہ کا حق ہے دوسری آیت کریمہ میں اسی بات کو مزید مؤکد کرتے ہوئے اور انسانی ذہن کو جھنجھوڑتے ہوئے سوال کیا گیا ہے کہ جب تم نے اپنے ایمان سے اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ حاکمیت مطلقہ اللہ ہی کو زیب دیتی ہے اور کسی اور کو اس میں شریک کیا جائے تو وہ شرک ہے اور اللہ نے تمہارے لیے حرام چیزیں کھول کر بیان کردی ہیں تو پھر آخر ان جانوروں کے گوشت کھانے سے احتراز کرنے کا جن کو دور جاہلیت میں تم حرام سمجھتے رہے ہو ‘ کیا جواز ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج امت مسلمہ کی طرف بھی متوجہ ہے اور قیامت تک آنے والی نوع انسانی سے یہ سوال پوچھا جائے گا۔ کہ جب تمہارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے اور رسول اللہ ﷺ کی سنت نے ایک ریاست قائم فرما کر اس کی آئینی شکل کو پوری طرح واضح فرما دیا تو پھر تمہاری زندگی میں سیکولرازم جیسی دو عملی کی آخر کیا گنجائش ہے کہ جب اس نے حلال اور حرام کا فیصلہ کردیا ہے اب تمہارے لیے اس کا کیا جواز ہے کہ تم ازسر نو آزادانہ قانون سازی کرنے لگو اور جو حق اللہ کا ہے اس کو خود استعمال کرنے لگو۔ رہے وہ لوگ جو اس پر دلیل بازی کرتے ہیں کہ مذہب صرف پرائیویٹ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا پبلک زندگی سے کوئی تعلق نہیں ان کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی خواہشات اور خودساختہ باتوں سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے پاس آخر اس علم کا حوالہ کیا ہے انسان اللہ کی مخلوق ہے اس مخلوق اور خالق کے درمیان جو رشتہ ہونا چاہیے اس کی وضاحت صرف اللہ کی جانب سے اللہ کے رسول ہی کرسکتے ہیں اور اس کو آئینی اور قانونی شکل اللہ کی نازل کردہ کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے ہی مل سکتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جو جامعیت ‘ کاملیت اور خاتمیت کے ساتھ مسلمانوں کو دیا جا چکا ہے اس میں تو بار بار کہا گیا ہے کہ تم پورے اسلام کو اختیار کرو اور پوری زندگی اسلام میں داخل کردو اور یہ بھی بار بار فرمایا گیا ہے کہ حلت و حرمت یعنی غیر مشروط قانون سازی اللہ کا حق ہے۔ اس کے مقابلے میں تم جس سیکولرازم کی بات کرتے ہو اس کی سند امریکہ یا آسمانِ مغرب سے تو مل سکتی ہے لیکن اللہ کی کتاب یا اللہ کے رسول سے تو نہیں مل سکتی اور ایک مسلمان اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایات کا پابند ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی دانش اسی صورت میں قابل قدر ہے کہ وہ اس منزل من اللہ العلم کے خلاف نہ ہو جو شخص اس علمی حوالے کو نظر انداز کر کے ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے یا وہ صریحاً اس علم کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے تو یہ وہ شخص ہے جو حد سے تجاوز کر رہا ہے کیونکہ بندہ ہوتے ہوئے اسے اللہ کے احکام کے سامنے سر جھکانا تھا جب وہ انکار اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے تو وہ اپنی حد سے تجاوز کر رہا ہے ایسے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ اس بات کو ہرگز نہ بھولو کہ تمہارا رب حد سے گزرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے فرمایا تھا کہ تمہارا رب ہدایت یافتہ لوگوں کو جانتا ہے اب اس کے مقابلے میں یہ جملہ فرمایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو جانتا ہے تو انھیں بہتر سے بہترجزا سے نوازے گا اور حد سے گزرنے والوں کو بھی جانتا ہے تو وہ اس کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ اگلی آیت کریمہ میں ایک اور اہم حقیقت کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جو اس سابقہ حقیقت سے جنم لیتی ہے۔
Top