Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 118
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ
فَكُلُوْا
: سو تم کھاؤ
مِمَّا
: اس سے جو
ذُكِرَ
: لیا گیا
اسْمُ اللّٰهِ
: اللہ کا نام
عَلَيْهِ
: اس پر
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
بِاٰيٰتِهٖ
: اس کی نشانیوں پر
مُؤْمِنِيْنَ
: ایمان لانے والے
بس تم کھائو ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہو
تمہید گزشتہ آیات میں اللہ کی توحید پر مسکت اور فیصلہ کن دلائل دینے کے بعد فرمایا کہ کیا ان دلائل کے آجانے اور عقیدہ توحید کی اس مکمل وضاحت کے بعد اس بات کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کو منصف ‘ فیصل اور حاکم کی حیثیت سے تسلیم کروں ؟ جبکہ اللہ نے اپنی حاکمیت کی عملی شکل کو متعین کرتے ہوئے اور اپنے فیصلوں کو عملی صورت دیتے ہوئے قرآن جیسی مفصل کتاب بھی نازل فرما دی ہے جس کی صداقت اور حقانیت کا عالم یہ ہے کہ جو اہل کتاب آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ چونکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے خیانت کا ارتکاب کرنے سے گریز کرتے ہیں اس لیے اقرار کرتے ہیں کہ یہ کتاب واقعی اللہ کی جانب سے نازل ہوئی ہے اور جس کی تعلیمات کا حال یہ ہے کہ اس کے بیان کردہ وعد و وعید ‘ پیش گوئیاں اور تاریخی واقعات سچائی کے ترازو میں اپنی سچائی ثابت کرچکے ہیں اور جس کے احکام اور جس کے دیئے ہوئے قوانین عدل اور اعتدال کی مکمل شان لیے ہوئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اب لوگوں کی اکثریت راہ حق پر چلنے اور صحیح بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ صحیح بات کا فیصلہ علم اور استدلال کی قوت سے ہوتا ہے اور عوام ہمیشہ طن وتخمین پر زندگی گزارتے ہیں جس کا علمی دنیا اور زندگی کے حقائق میں کوئی وزن نہیں۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ یہ اللہ کے بارے میں کھلے عام اقرار کرتے ہیں کہ ہم اس کو خالق مانتے ہیں ‘ رازق مانتے ہیں ‘ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہی پوری کائنات کا مالک ہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہی ذات ہے جو غیب و حضور ہر بات کو جاننے والی ہے وہی اسباب سے ماوراء دعائوں کو سنتا ہے۔ ان سارے مسلمات کے بعد بھی ان کا حال یہ ہے کہ جس ذات کو وہ کائنات کا خالق ومالک مانتے ہیں اسے غیر مشروط قانون سازی اور حلت و حرمت کا حق دینے کو تیار نہیں۔ یہ حق انھوں نے اپنے آبائو اجداد کو ‘ اپنے نام نہاد مذہبی راہنمائوں کو اور اپنے کاہنوں کو دے رکھا ہے اور یا عام زندگی کے معاملات میں تہذیبی تمدنی اور سیاسی زندگی میں یہ حق ان کے سربرآوردہ لوگ اور ان کی نام نہاد حکومتوں کے سربراہ استعمال کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جائز طور پر ہمارا حق ہے ہم اسے جیسے چاہیں استعمال کریں اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ آگے آنے والی تین چار آیات میں اسی بنیادی بات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰیٰتِہٖ مُؤْمِنِیْنَ ۔ وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ ط وَاِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآئِھِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ ۔ (الانعام : 118۔ 119) (بس تم کھائو ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہو اور تم کیوں نہ کھائون ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام لیا گیا ہو جبکہ اس نے تفصیل سے بیان کردی ہیں وہ چیزیں جو تم پر حرام ٹھہرائی ہیں اس استثناء کے ساتھ جس کے لیے تم مجبور ہوجاؤ اور بیشک بہتیرے ایسے ہی ہیں جو لوگوں کو کسی علم کے بغیر اپنی بدعات کے ذریعے سے گمراہ کر رہے ہیں تیرا رب خوب واقف ہے ان حد سے بڑھنے والوں سے) اللہ ہی حاکم اور مختارکل ہے ان آیات میں بظاہر ان جانوروں کے گوشت کھانے کا حکم دیا گیا ہے جنھیں اللہ کے نام سے ذبح کیا جائے اور اس بات پر تنقید کی گئی ہے کہ جن جانوروں کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاتا ہے تم آخر انھیں کیوں نہیں کھاتے ؟ لیکن اصل میں یہ اصولی بحث ہے جس کی طرف یہاں توجہ دلائی گئی ہے جیسا کہ ہم اس سے پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ اللہ کو خالق ومالک ماننے کے باوجود اس کے اختیارات کسی اور کو تفویض کردینا بنیادی طور پر ہر امت کی گمراہی کا سبب رہا ہے۔ اس لیے کہ اگر ہم کسی کو اپنا حاکم ومالک تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے لیے اختیارات ماننے کو تیار نہیں ہیں یا اس کے اختیارات میں کسی اور کو شریک کردیتے ہیں تو آخر اس کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کا کیا فائدہ ہوا اگر وہ واقعی حاکم ہے تو اختیارات کا سرچشمہ بھی وہی ہے کیونکہ حاکمیت مختار ہونے کا ہی دوسرا نام ہے اور پھر اگر کسی کو حاکم ماننے والے اپنی مرضی سے جب چاہیں اس کے اختیارات میں دوسرے کو شریک کردیں تو پھر اختیارات کا سرچشمہ تو یہ ماننے والے ٹھہرے وہ حاکم بےچارہ تو ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی ہوگا کہ جب چاہا اسے کوئی اختیار دے دیا اور جب چاہا اس سے اختیار چھین لیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اختیارات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ جس کو حاکم تسلیم کرتے ہیں کیا اس کی غیر مشروط اطاعت کا دم بھرتے ہوئے اسے ہر سطح پر حلت و حرمت اور جائز اور ناجائز قرار دینے اور صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کا حق بھی دیتے ہیں یا نہیں۔ کیونکہ حقیقت میں اختیارات اسی ایک اختیار سے جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ چونکہ پوری کائنات کا حاکم حقیقی ہے باقی پوری کائنات میں تو تکوینی طور پر اس نے اپنے اختیارات نافذ کر رکھے ہیں ‘ لیکن انسانوں کو چونکہ اس نے اطاعت اور معصیت کی آزادی دے رکھی ہے اس لیے ان کی جزا و سزا کو اس نے اس بات سے وابستہ کردیا ہے کہ انسان اپنے اختیار اور ارادہ سے اللہ کے اختیارات کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ ان مشرکینِ مکہ کا حال یہ تھا کہ وہ اللہ کو سب کچھ ماننے کے باوجود اس کے ان اختیارات میں خود بھی دخل دیتے تھے اور ان کو بھی دخیل بناتے تھے جن کو انھوں نے اللہ کے ساتھ شریک بنا رکھا تھا اور اس کا زیادہ اظہار جانوروں کی قربانیوں یا جانوروں کا گوشت کھانے کے سلسلے میں ہوتا تھا۔ پیچھے گزر چکا کہ انھوں نے جانوروں میں تقسیم کر رکھی تھی کہ بعض جانور انھوں نے اپنے لیے حلال کر رکھے تھے اور بعض بتوں کی طرف منسوب کر کے لوگوں کے لیے ان کا استعمال ممنوع قرار دے دیا تھا۔ بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام جیسے ناموں سے انھوں نے مختلف قسم کے جانور از خود اور اپنے آبائو اجداد کے حوالے سے لوگوں پر حرام کردیئے تھے اور دعویٰ ان کا یہ تھا کہ چونکہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں تو ہمارے آبائو اجدادنے جن جانوروں کا کھانا حرام قرار دے دیا تھا یقینا ان کو ابراہیم کی شریعت سے یہ احکام ملے ہوں گے۔ چناچہ قرآن کریم نے ان کی اسی گمراہی پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ حلت و حرمت کا اختیار اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں۔ اور تمہیں یہ جو دعویٰ ہے کہ یہ ابراہیمی شریعت کا ورثہ ہے تو تمہارے پاس اس کی کوئی علمی سند ہو تو لائو جو اہل کتاب تمہاری پیٹھ ٹھونکتے رہتے ہیں ان سے پوچھو کہ ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے اور اگر ایسا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر تم نے اللہ کا یہ اختیار اپنے ہاتھوں میں کیوں لے لیا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ قوموں کے بگاڑ کی جو تاریخ ہمارے سامنے ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ تمام قوموں میں یہ شرک بھی ہوتا رہا کہ غیر اللہ کو سجدہ ہوتے رہے ‘ چڑھاوے چڑھائے جاتے رہے ‘ مرادیں مانگی جاتی رہیں لیکن متمدن اور مہذب دنیا میں جبکہ ریاستیں وجود میں آئیں اور ان پر حکمرانوں نے حکومتیں بھی کیں ان میں جو نہایت خطرناک شرک ہوتا رہا وہ متذکرہ شرک کے ساتھ ساتھ اصل شرک یہ تھا کہ وہ اپنی مطلق العنانی اور اپنی غیر مشروط حاکمیت کو کسی طرح بھی چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ جب ان سے یہ کہا جاتا تھا کہ حاکم حقیقی تو اصل میں اللہ کی ذات ہے تم حاکم ہو کر بھی اس کے بندے ہو۔ تمہارا کام اس کے احکام نافذ کرنا ہے۔ خود اپنے آپ کو دنیا کی گردنوں پر مسلط کرنا نہیں ہے تو وہ اس پر بگڑ جاتے تھے وہ آج کے دور کی طرح زیادہ سے زیادہ اس بات کو ماننے کو تیار تھے کہ مذہب کی اگر کوئی حقیقت ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ یہ بندے اور اللہ کے درمیان ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی میں مذہب روشنی دیتا ہے۔ آدمی پریشان ہوتا ہے تو وہ اللہ سے مدد مانگتا ہے۔ کوئی آدمی اس کا تقرب چاہتا ہے تو وہ تنہائی میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ ہفتے بعد عبادت گاہ میں جا کر اس کی نماز پڑھتا ہے اور اس کے حضور دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ رہی پبلک زندگی جو گلی محلے سے شروع ہوتی اور زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی حکومت کے ایوان تک پہنچتی ہے اس سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ اللہ کا کام یہ ہے کہ وہ ہماری تنہائیوں کو آباد رکھے ‘ ہماری مرادیں پوری کرے ‘ ہمیں پریشانیوں سے بچائے ‘ ہمیں رزق دے اور ہمیں اولاد سے نوازے۔ لیکن جہاں تک زندگی گزارنے کے طریقے کا تعلق ہے اور اجتماعی زندگی میں قانون اور آئین کی ضرورت کا تعلق ہے یہ کام خود انسان مل کر آپس میں کریں گے۔ اللہ کا یا مذہب کا اس سے کوئی رشتہ نہیں۔ یہی وہ گمراہی تھی جو سابقہ امتوں میں پائی جاتی تھی جس نے ان کو پوری طرح شیاطین اور نفسانیت کی گرفت میں دے دیا تھا اور یہی گمراہی آج کی دنیا میں مذہب کے انکار کی صورت میں یا مذہب کے اقرار کے ساتھ ساتھ سیکولرازم کی شکل میں پوری دنیا پر حاوی ہے انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ امت مسلمہ جس کو دنیا کی رہنمائی کے لیے اٹھایا گیا اور جن کے دین نے ان کو جو تعلیم دی تھی اس کی بنیاد ہی یہ تھی کہ تم از اول تا آخر اللہ کے بندے ہو اور اللہ تمہارا فرمانروا ہے۔ سروری اور کبریائی کی جتنی بھی قابل عزت شکلیں ہیں وہ سب اسی کو زیب دیتی ہیں انسان دنیا میں اس کی بندگی اور اس کی مرضی ‘ اختیار ‘ قانون اور آئین کو نافذ اور جاری وساری کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور اگر یہ بڑائی اور یہ عظمت کوئی شخص یا کوئی قوم خود اوڑھ لیتی ہے تو یہ شرک ہے اور یہی آذر کا طریقہ ہے جس کو توڑنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تشریف لائے تھے۔ بقول اقبال ؎ سروری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری جن جانوروں پر اللہ کا نام لیا جائے ان کا گوشت کھائو لیکن آج اس امت کا حال یہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر سب سے زیادہ حکومتیں اس کی ہیں۔ زمین کا بڑا رقبہ اس کے قبضے میں ہے۔ سمندروں کے تمام قابل ذکر ساحلوں پر اس کی حکمرانی ہے اور بیشتر ملک اس کے اپنی آزادانہ حکومتیں رکھتے ہیں لیکن غضب خدا کا، پورے عالم اسلام میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جس نے پوری طرح اللہ کے دین اور اس کی حاکمیت کو اپنے ملک میں نافذ کیا ہو۔ کہیں ملوکیت کی شکل میں ‘ کہیں آمریت کی صورت میں اور کہیں مغربی جمہوریت کے انداز میں اللہ کی حاکمیت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اس کے قانون کے مقابلے میں قانون سازی ہو ری ہے اس کے آئین کے توڑ پر آئین بنائے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض ممالک کو مسلمان کہلاتے ہوئے بھی اس بات پر شرم آتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگائیں اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہاں بظاہر نہایت سادہ انداز میں جس حقیقت کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ کس قدر عظیم اور گھمبیر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک دوسری بات بھی ذہن میں رکھیئے کہ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ جن جانوروں پر اللہ کا نام لیا جائے تم انھیں کھائو اور اس کے بعد فرمایا اگر تم اس کی آیات اور اس کے احکام پر ایمان لانے والے ہو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہو کر بھی بعض ایسے جانوروں کو جن پر اللہ کا نام لیا جاتا تھا کھاتے نہیں تھے یہ بجائے خود ایک دوسری حقیقت کی طرف رہنمائی کی جا رہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ نے چونکہ ملت ابراہیمی کا نام لے کر مذہب کے حوالے سے بعض جانور اپنے اوپر حرام کرلیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب سورة النحل میں جیسا کہ اگلی آیت میں بیان کیا جا رہا ہے تفصیل سے بیان کردیا کہ حرام جانور کون کون سے ہیں ان کے علاوہ باقی جتنے جانوروں کو تم نے اپنے طور پر حرام کر رکھا ہے وہ ہرگز حرام نہیں بلکہ حلال ہیں بس شرط یہ ہے کہ ان حلال جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لے کر ذبح کرو۔ لیکن بعض ایسے مسلمان جن کے دل و دماغ سے ابھی سابقہ محرمات کی تقدیس نہیں نکلی تھی اور وہ ایمان لانے کے بعد بھی ابھی قدیمی تعلقات سے اپنے دماغوں کو پوری طرح لاتعلق نہیں کر پائے تھے ان کا حال یہ تھا کہ جب ایسے کسی جانور کا گوشت ان کے سامنے آتا تو وہ سابقہ تعلق کیوجہ سے اسے کھانے سے احتراز کرتے تھے کیونکہ انسانی فطرت یہ ہے کہ سابقہ مذہبی رشتوں کو توڑنا اور نئے مذہب کو پوری طرح عملی صورت دینا انسان کے لیے آسان نہیں ہوتا اس کے لیے دل کی جس مضبوط آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے چناچہ یہاں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ تم اگر اپنے ایمان میں سچے ہو اور تم اگر اپنے دور جاہلیت سے پوری طرح لاتعلق ہوچکے ہو تو پھر سابقہ دین سے تمہاری یہ رواداری کیوں ہے۔ تمہیں یکسو ہوجانا چاہیے کہ جس دین کو تم نے قبول کیا ہے اس کو اگر صحیح سمجھ کے قبول کیا ہے اور سابقہ مذہب کو تم نے غلط سمجھ کے چھوڑا ہے تو پھر یہ تذبذب کی کیفیت کیوں ہے ان کی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے اگر ہم برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ دیکھیں تو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے جس طرح مشرکینِ مکہ کو بعض جانوروں سے ایک مذہبی رشتہ رہا ہے اور اس حصار سے وہ نکلنے کے لیے تیار نہیں تھے اسی طرح برصغیر میں جو مسلمان ہندو مذہب سے نکل کے آئے مدت دراز تک وہ گائے کی محبت سے اپنا دامن نہ چھڑا سکے اس کی پوجا تو انھوں نے ترک کردی لیکن ان میں بہت سے لوگ ایسے رہے جو بنی سرائیل کی طرح اس سے یکسر تعلق توڑنے اور اس کا گوشت کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے اور اسی بات کے زیر اثر ہمارے بعض عملیات کرنے والوں نے ان کے جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عملیات کی تاثیر کے لیے یہ شرط رکھی کہ تم گائے کا گوشت نہیں کھائو گے ورنہ یہ تعویذ اثر نہیں کرے گا۔ چناچہ اسی مشرکانہ تصور کو ختم کرنے کے لیے علما کا یہ طریقہ رہا کہ جب وہ کسی ہندو کو مسلمان کرتے تھے تو اے گائے کا گوشت بھی کھلاتے تھے تاکہ اس کے دل سے اس جانور کی عقیدت ختم ہو جس کو اس نے آج تک دیوتا کی حیثیت دے رکھی تھی۔ حرام و حلال کا فیصلہ صرف اللہ کا حق ہے دوسری آیت کریمہ میں اسی بات کو مزید مؤکد کرتے ہوئے اور انسانی ذہن کو جھنجھوڑتے ہوئے سوال کیا گیا ہے کہ جب تم نے اپنے ایمان سے اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ حاکمیت مطلقہ اللہ ہی کو زیب دیتی ہے اور کسی اور کو اس میں شریک کیا جائے تو وہ شرک ہے اور اللہ نے تمہارے لیے حرام چیزیں کھول کر بیان کردی ہیں تو پھر آخر ان جانوروں کے گوشت کھانے سے احتراز کرنے کا جن کو دور جاہلیت میں تم حرام سمجھتے رہے ہو ‘ کیا جواز ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج امت مسلمہ کی طرف بھی متوجہ ہے اور قیامت تک آنے والی نوع انسانی سے یہ سوال پوچھا جائے گا۔ کہ جب تمہارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے اور رسول اللہ ﷺ کی سنت نے ایک ریاست قائم فرما کر اس کی آئینی شکل کو پوری طرح واضح فرما دیا تو پھر تمہاری زندگی میں سیکولرازم جیسی دو عملی کی آخر کیا گنجائش ہے کہ جب اس نے حلال اور حرام کا فیصلہ کردیا ہے اب تمہارے لیے اس کا کیا جواز ہے کہ تم ازسر نو آزادانہ قانون سازی کرنے لگو اور جو حق اللہ کا ہے اس کو خود استعمال کرنے لگو۔ رہے وہ لوگ جو اس پر دلیل بازی کرتے ہیں کہ مذہب صرف پرائیویٹ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا پبلک زندگی سے کوئی تعلق نہیں ان کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی خواہشات اور خودساختہ باتوں سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے پاس آخر اس علم کا حوالہ کیا ہے انسان اللہ کی مخلوق ہے اس مخلوق اور خالق کے درمیان جو رشتہ ہونا چاہیے اس کی وضاحت صرف اللہ کی جانب سے اللہ کے رسول ہی کرسکتے ہیں اور اس کو آئینی اور قانونی شکل اللہ کی نازل کردہ کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے ہی مل سکتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جو جامعیت ‘ کاملیت اور خاتمیت کے ساتھ مسلمانوں کو دیا جا چکا ہے اس میں تو بار بار کہا گیا ہے کہ تم پورے اسلام کو اختیار کرو اور پوری زندگی اسلام میں داخل کردو اور یہ بھی بار بار فرمایا گیا ہے کہ حلت و حرمت یعنی غیر مشروط قانون سازی اللہ کا حق ہے۔ اس کے مقابلے میں تم جس سیکولرازم کی بات کرتے ہو اس کی سند امریکہ یا آسمانِ مغرب سے تو مل سکتی ہے لیکن اللہ کی کتاب یا اللہ کے رسول سے تو نہیں مل سکتی اور ایک مسلمان اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایات کا پابند ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی دانش اسی صورت میں قابل قدر ہے کہ وہ اس منزل من اللہ العلم کے خلاف نہ ہو جو شخص اس علمی حوالے کو نظر انداز کر کے ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے یا وہ صریحاً اس علم کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے تو یہ وہ شخص ہے جو حد سے تجاوز کر رہا ہے کیونکہ بندہ ہوتے ہوئے اسے اللہ کے احکام کے سامنے سر جھکانا تھا جب وہ انکار اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے تو وہ اپنی حد سے تجاوز کر رہا ہے ایسے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ اس بات کو ہرگز نہ بھولو کہ تمہارا رب حد سے گزرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے فرمایا تھا کہ تمہارا رب ہدایت یافتہ لوگوں کو جانتا ہے اب اس کے مقابلے میں یہ جملہ فرمایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو جانتا ہے تو انھیں بہتر سے بہترجزا سے نوازے گا اور حد سے گزرنے والوں کو بھی جانتا ہے تو وہ اس کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ اگلی آیت کریمہ میں ایک اور اہم حقیقت کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جو اس سابقہ حقیقت سے جنم لیتی ہے۔
Top