Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 28
مَاۤ اَغْنٰى عَنِّیْ مَالِیَهْۚ
مَآ : نہ اَغْنٰى : کام آیا عَنِّيْ مَالِيَهْ : مجھ کو مال میرا
میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا
مَـآ اَغْنٰی عَنِّیْ مَالِیَہْ ۔ ھَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ ۔ (الحآقۃ : 28، 29) (میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا اقتدار مجھ سے چھن گیا۔ ) ہر مجرم نہایت حسرت سے کہے گا کہ جس مال کو میں نے نہایت اہتمام سے جمع کیا اور گن گن کر رکھا اور میرا گمان یہ تھا کہ مال کی قوت سے ہر کام کرایا جاسکتا اور ہر شخص کو خریدا جاسکتا ہے، لیکن آج وہ میرا مال بھی میرے کسی کام نہ آیا۔ اور پھر مجھے اپنے اقتدار پر کس قدر بھروسہ تھا، میں کسی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہ تھا، میں اپنے لشکر کی قوت کو فیصلہ کن سمجھتا تھا اور اسی اقتدار کے بل بوتے پر اکڑتا پھرتا اور ظلم توڑتا تھا لیکن آج وہ سب کچھ مجھ سے چھن گیا۔ آج صرف اس کا اقتدار ہے جو ہمیں دنیا میں کبھی نظر نہ آیا۔ ہمیں بتانے والے بتاتے رہے کہ اصل مقتدر ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ دنیا میں اس نے اصحابِ اقتدار کو ایک محدود اختیار دے کر آزمائش میں مبتلا کیا اور انہیں اپنے اقتدار و اختیار کا تابع بنایا کہ اگر وہ اپنی حدود سے تجاوز کریں گے تو قیامت کے دن ان سے سخت بازپرس ہوگی لیکن میں نے ان باتوں کو کبھی درخورِاعتنانہ سمجھا۔ ادھر مسلسل آواز آرہی ہوگیلمن الملک الیوم ” بتائو آج کس کی حکومت ہے۔ “ اور یہ سر جھکائے ندامت سے سوچ رہا ہوگا کہ کاش مجھے یہ ندا دنیا میں سنائی دے جاتی۔ سلطان کا لفظ دلیل اور حجت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مفہوم یہ ہوگا کہ قیامت کے دن ہر مجرم سند اور حجت سے محروم ہوجائے گا۔ یعنی اس کے پاس کوئی ایسی حجت اور سند نہیں ہوگی جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پا سکے۔
Top