Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 148
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ١ؕ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا١ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ
وَاتَّخَذَ
: اور بنایا
قَوْمُ
: قوم
مُوْسٰي
: موسیٰ
مِنْۢ بَعْدِهٖ
: اس کے بعد
مِنْ
: سے
حُلِيِّهِمْ
: اپنے زیور
عِجْلًا
: ایک بچھڑا
جَسَدًا
: ایک دھڑ
لَّهٗ
: اسی کی
خُوَارٌ
: گائے کی آواز
اَلَمْ يَرَوْا
: کیا نہ دیکھا انہوں نے
اَنَّهٗ
: کہ وہ
لَا يُكَلِّمُهُمْ
: نہیں کلام کرتا ان سے
وَلَا يَهْدِيْهِمْ
: اور نہیں دکھاتا انہیں
سَبِيْلًا
: راستہ
اِتَّخَذُوْهُ
: انہوں نے بنالیا
وَ
: اور
كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ
: وہ ظالم تھے
اور موسیٰ کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا تھا ‘ ایک دھڑ جس سے بھاں بھاں کی آواز نکلتی تھی کیا انھوں نے یہ نہ دیکھا کہ نہ وہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ان کو راستہ دکھا سکتا ہے ‘ اس کو وہ بنا بیٹھے اور وہ اپنے اوپر بڑے ظلم ڈھانے والے تھے۔
گذشتہ رکوع کی تصریحات سے یہ بات پوری طرح نمایاں ہوجاتی ہے کہ پروردگار نے بنی اسرائیل کی تعلیم و تربیت کے لیے خصوصی انتظام فرمایا تھا انھیں عام معمول سے ہٹ کر الواح کی شکل میں تحریری کتاب عطا فرمائی اور پھر بار بار اس کتاب کو تھامنے اور اس پر عمل کرنے کی تلقین بھی فرمائی اور مزید یہ بات بھی کہ جس رویے کے باعث اللہ کی کتاب سے استفادہ اور استفاضہ میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے اسے بھی پوری طرح کھول کر بیان کردیا تاکہ بنی اسرائیل کسی طرح بھی اللہ کی کتاب سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی نہ کریں اور اپنے عہد غلامی میں وہ جس طرح اپنے سیرت و کردار کو برباد اور اپنی فکری قوتوں کو تباہ کرچکے ہیں اس کی از سر نوتعمیر میں انھیں نہ صرف آسانی پیدا ہو بلکہ وہ بہتر سے بہتر سیرت و کردار کی تشکیل کرسکیں ‘ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پروردگار کی ان تمام عنایات کے جواب میں انھوں نے جو کچھ کیا اگلی آیت کریمہ میں اس کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ وَاتَّحَذَ قَوْمُ مُوْسٰی مِنمْ بَعْدِ ہٖ مِنْ حُلِیِّیِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوْارٌط اَلَمْ یَرَوْا اِنَّہٗ لَا یُکَلِّمُھُمْ وَلَا یَھْدِیْھِمْ سَبِیْلًام اِتَّخَذُوْہٗ وَ کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ ۔ (الاعراف : 148) ” اور موسیٰ کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا تھا ‘ ایک دھڑ جس سے بھاں بھاں کی آواز نکلتی تھی کیا انھوں نے یہ نہ دیکھا کہ نہ وہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ان کو راستہ دکھا سکتا ہے ‘ اس کو وہ بنا بیٹھے اور وہ اپنے اوپر بڑے ظلم ڈھانے والے تھے “۔ ہم گذشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے تورات لینے کے لیے گئے اور جاتے وقت اپنی قوم سے کہہ گئے کہ میں تیس راتوں کے بعدواپس آجاؤں گا وہاں حکمت خداوندی کے تحت انھیں چالیس راتیں قیام کرنا پڑا چناچہ یہ جو دس دن کی تاخیر ہوئی اس سے فائدہ اٹھا کر مفسدین میں سے بعض لوگوں کو جو بنی اسرائیل میں موجود تھے اور ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے تھے فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا انھوں نے اپنے سردار سامری کو آگے بڑھایا اور سامری جو اپنے تعلقات اثر و رسوخ اور شعبدہ بازیوں کے باعث پہلے سے بنی اسرائیل میں معروف تھا اس نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم نے وہ زیورات جو آل فرعون کی بیگمات سے اپنے کسی تہوار میں پہننے کے لیے مستعار لیے تھے ‘ اور پھر تم مصر سے نکل آنے کے باعث انھیں واپس نہ کرسکے اب اگرچہ وہ کفار کا مال ہونے کی وجہ سے تمہارے پاس مال غنیمت ہے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں چونکہ مال غنیمت کا استعمال کرنا حلال نہیں۔ اس لیے سامری نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم شرعاً ان زیورات کو اپنے لیے استعمال نہیں کرسکتے وہ زیورات تم مجھے دو میں تمہارے لیے ایک خدا بناتا ہوں ‘ چناچہ اس نے بنی اسرائیل کے تمام سونے کے زیورات کو ڈھال کر بچھڑے جیسا ایک جسم تیار کیا اور اسے اس ترکیب سے تشکیل کیا کہ اس میں سے بھاں بھاں کی آوازیں نکلنے لگیں ‘ سامری نے یہ بچھڑالوگوں کو دکھاتے ہوئے کہا کہ موسیٰ تو نہ جانے کہاں گم ہوگیا لیکن وہ جس خدا کی تلاش میں گیا تھا وہ یہی تمہارا خدا ہے بنی اسرائیل چونکہ صدیوں تک مصر کی غلامی میں رہ کر مشرکانہ رسوم و روایات کو قبول کرچکے تھے اور انھوں نے بہت حد تک اپنے آپ کو مصریوں کے رنگ میں رنگ لیا تھا اور مصریوں میں گوسالہ پرستی کا عقیدہ قدیم عقیدہ تھا ہندوئوں کی طرح وہ گائے کو نہ صرف مقدس جانتے تھے بلکہ اس کی پوجا کرتے تھے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے ایک بڑے دیوتا حورس کا منہ گائے کی شکل کا تھا اور وہ یہ بھی عقیدہ رکھتے تھے کہ کرہ زمین گائے کے سر پر قائم ہے ‘ چناچہ غلامی کے مکروہ اثرات ابھی تک بنی اسرائیل میں باقی تھے اس لیے وہ سامری کے بہکاوئے میں آگئے اور انھوں نے اس کے بنائے ہوئے گوسالہ کی پوجا شروع کردی۔ سامری کون تھا ؟ اور اس کے کارنامے کی حقیقت یہاں دو تین باتیں قابل وضاحت ہیں اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ پہلے ان کی وضاحت کردی جائے۔ 1 اس آیت کریمہ میں اگرچہ سامری کا نام نہیں لیا گیا جس نے بچھڑا تیار کیا تھا لیکن سورة طہٰ میں اس کا نام لے کر اس کی کار گزاری کی تفصیل بیان کی گئی ہے اس لیے میں سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ سامری کون تھا ‘ اگرچہ اس کے بارے میں علما میں اختلاف ہے لیکن جو بات زیادہ قرین حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ ‘ وہ ہے جسے مولانا ابو الکلام آزاد نے لکھا ہے ‘ وہ لکھتے ہیں کہ سامری اس کا نام تھا یا قومیت کا لقب ‘ قیاس کہتا ہے کہ یہاں سامری سے مقصود سمیری قوم کا فرد ہے، کیوں کہ جس قوم کو ہم نے سمیری کے نام سے پکارنا شروع کردیا ہے۔ عربی میں اس کا نام قدیم سے سامری آرہا ہے اور اب بھی عراق میں ان کے بقایا اسی نام سے پکارے جاتے ہیں ‘ یہاں قرآن کا سامری کہہ کے اسے پکارنا صاف کہہ رہا ہے کہ یہ نام نہیں ہے اس کی قومیت کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ شخص اسرائیلی نہ تھا، سامری تھا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً ساڑھے تین ہزار برس پہلے دجلہ و فرات کے دو آبے میں دو مختلف قومیں آباد ہو رہی تھیں اور ایک عظیم الشان تمدن کی بنیادیں اٹھا رہی تھیں ان میں سے ایک قوم جو جنوب سے آئی تھی عرب تھی دوسری جس کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ شمال سے اتری ‘ سمیری تھی اسی قوم کے نام سے تاریخ قدیم کا شہر سامرہ آباد ہوا تھا جس کا محل اب ” تل العبید “ میں دریافت ہوا ہے اور وہاں سے پانچ ہزار برس پیشتر کے کے بنے ہوئے زیور اور سنہری ظروف برآمد ہوئے ہیں۔ سمیری قوم کی اصل کیا تھی ؟ اس بارے میں اس وقت تک کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے لیکن نینوا میں اشوری پال (متوفی 666 ء قبل مسیح) کا جو کتب خانہ نکلا ہے اس میں تختیوں کا ایک مجموعہ لغت کی کتاب کا بھی ہے جس میں اکادی اور سمیری زبان کے ہم معنی الفاظ جمع کیے گئے ہیں ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سمیری زبان کے اصوات ‘ سامی حروف کے اصوات سے چنداں مختلف نہیں تھے یہ بہت ممکن ہے کہ وہ بھی دراصل ان ہی قبائل کے مجموعہ سے کوئی بعیدی تعلق رکھتے ہوں جن کے لیے ہم نے تورات کی اصطلاح سامی اختیار کرلی ہے … بہر حال سمیری قبائل کا اصلی وطن عراق تھا، مگر یہ دور دور تک پھیل گئے تھے ‘ مصر کے ان سے تعلقات کا سراغ ایک ہزار سال قبل مسیح تک روشنی میں آچکا ہے ‘ پس معلوم ہوتا ہے اسی قوم کا ایک فرد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی معتقد ہوگیا اور جب بنی اسرائیل نکلے تو یہ بھی ان کے ساتھ نکل آیا اسی کو قرآن نے ” السامری “ کے لفظ سے یاد کیا ہے ‘ گائے ‘ بیل اور بچھڑے کی تقدیس کا خیال سمیریوں میں بھی تھا اور مصریوں میں بھی۔ خوار کی تحقیق 2 اس آیت کریمہ میں خوار کا لفظ آیا ہے اس کا معنی ہے بیل کے ڈکرانے کی آواز یعنی جس طرح بیل اور گائے بھاں بھاں کرتے ہیں اسی طرح یہ بچھڑا جو سامری نے بنایا تھا اس سے بھی اس طرح کی آواز نکلتی تھی بعض لوگوں کو اس کی وضاحت کرتے ہوئے مشکل پیش آئی ہے اس کی عجیب و غریب تاویلیں کی گئی ہیں ‘ حالانکہ بات بالکل واضح ہے کہ سامری ایک ہوشیار اور عیار آدمی تھا وہ مصر میں رہ کر نہ صرف بت پرستی سیکھ چکا تھا ‘ بلکہ بت گری میں بھی ماہر تھا جن شہروں اور جن ملکوں میں بت پرستی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں بت گری کا فن بھی اپنے عروج پر ہوتا ہے مصریوں نے بھی معلوم ہوتا ہے بت گری کے فن میں کافی ترقی کی تھی یقینا انھوں نے اس فن میں ایسی ایسی شعبدہ بازیاں کی ہوں گی جس سے لوگوں میں بت پرستی کو فروغ ملے اور بتوں کو محض بےجان اور پتھر کی مورتیاں نہ سمجھیں بلکہ ان کے اندر مختلف قسم کی قدرتوں کا بھی انھیں یقین آئے چناچہ تاریخ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بت گری کے فن کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ہمیشہ مختلف قسم کے عجائب و غرایب بھی پیدا کیے جس سے مقصود صرف لوگوں کی عقلوں کو دھوکہ دے کر بت پرستی کو قابل قبول بنانا ہوتا تھا ‘ ہندوستان میں سب سے بڑا مندر اور اس کے اندر سب سے بڑا بت سومنات کے نام سے مشہور رہا ہے اور اس کی قدرتوں کا اس قدر چرچا تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بت باقی تمام بتوں سے زیادہ طاقتور ہے اور اس کی گستاخی کرنے والا بھسم ہونے سے کبھی نہیں بچ سکتا ‘ چناچہ جب محمود غزنوی نے اسے فتح کرنے کا ارادہ کیا تو پورے ہندوستان میں جہاں مقابلے کی تیاریاں ہونے لگیں وہیں خوشی کی ایک لہر بھی دوڑ گئی کہ اب محمود غزنوی اور اس کے ساتھیوں کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا ‘ لیکن جب ہم سومنات کی اس شہرت اور بےپناہ قوت کا راز معلوم کرنے کوشش کرتے ہیں تو اس میں بھی ہمیں یہی شعبدہ بازی دکھائی دیتی ہے ‘ کہا جاتا ہے کہ کہ سومنات کا بت ایک بڑے ہال میں فضاء میں معلق تھا جب کہ اس کا وزن منوں تک پہنچتا تھا لیکن اسے نہ کسی سہارے نے اٹھا رکھا تھا اور نہ کوئی زنجیر اسے تھام رہی تھی بلکہ وہ بغیر کسی سہارے کے اس ہال کے عین وسط میں آلتی پالتی مارے فضا میں براجمان تھا۔ جو شخص اسے پہلی نگاہ میں دیکھتا وہ مبہوت ہو کر رہ جاتا کہ منوں وزن رکھنے والا یہ دھاتوں سے بنا ہوا بت اگر بےجان اور بےقوت ہے تو آخر فضاء میں کس طرح بغیر سہارے کے لٹک رہا ہے لیکن اس کی ساری قوت کا راز صرف ایک در پردہ ہوشیاری اور عیاری میں مضمر تھا اور وہ یہ بات تھی کہ اس ہال کی دیواریں مقناطیس سے بنائی گئیں تھیں اور اس کی چھت اور اس کے فرش میں بھی مقناطیس لگایا گیا تھا ‘ چناچہ اسی مقناطیس کی قوت نے اس دھات سے بنے ہوئے بت کو ہر طرف سے پوری قوت سے کھینچ کر فضاء میں معلق کردیا تھا اب جب تک اس کا توازن باقی رہتا ہے اور کسی طرف کی کشش میں کمی نہیں آتی بت کے گرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ تکنیک آج بھی مختلف کھلونوں میں استعمال ہوتی ہے اور بڑی بڑی مشینوں میں بھی اب چونکہ یہ ایک جانی پہچانی بات ہے تو کسی کو تعجب نہیں ہوتا لیکن اس وقت ہر دیکھنے والا یہی سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ اس بت کی کرشمہ آرائی ہے چناچہ محمود غزنوی کی ذہانت نے شائد اس کا اندازہ کرلیا ‘ چناچہ جیسے ہی انھوں نے اس بت کی ایک جانب گرز مار کر مقناطیسی قوت کو غیر متوازن کیا تو بت زمین پر دھڑم سے گرگیا ۔ مصر کا اسوان بند وہاں تعمیر کیا گیا ہے جہاں کبھی ابو سمبل کا قدیم اور عظیم مندر قائم تھا چناچہ بند کی تعمیر کے لیے جب اس کے ہٹانے کا وقت آیا ‘ تو باقاعدہ بین الاقوامی اہتمام میں اسے دوسری جگہ منتقل کیا گیا کیونکہ اقوام متحدہ کے مستقل ممبران جو تمام کے تمام غیر مسلم ہیں وہ اگرچہ علم و ہنر کی روشنی کے دعویدار ہیں اور کبھی بھی بت پرستی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پوری غیر مسلم دنیا بالعموم اور مغرب بالخصوص کبھی اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ بتوں کو توڑا جائے وہ اسے آثار قدیمہ کا نام دے کر تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے سامنے لاکھوں انسانوں کا خون بہہ جائے ‘ عراق میں مسلمانوں کا اثاثہ تباہ ہوجائے مذہبی تبرکات جو ظاہر ہے صدیوں کا سرمایہ ہیں انھیں آگ لگا دی جائے انھیں کبھی تکلیف نہیں ہوگی بلکہ ان کی اپنی فوج اس کی تباہی میں شریک ہوتی ہے لیکن اگر کہیں کسی بت کی ناک بھی پھوڑ دی جائے تو یہ سر تاپا غضب بن جاتے ہیں اگر انھیں آثار قدیمہ سے محبت ہوتی تو عراق ان کے سامنے کبھی نہ لٹتا۔ کیونکہ عراق میں ایسے ایسے تاریخی آثار موجود تھے جس میں صدیوں پہلے کے قرآن پاک کے نادر نمونے ہی نہیں بلکہ عراق میں بڑے بڑے بپاء ہونے والے حق و باطل کے معرکوں کی پوری تفصیلات مجسم شکل میں موجود تھیں اسلام اگرچہ ان چیزوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن وہ یورپ کے ذوق کے بےحد قریب تھیں لیکن ان کو صرف اس لیے تباہ ہونے دیا کہ ان کا رشتہ اسلام سے تھا لیکن بت پرستی سے ان کا تعلق اس حد تک نازک ہے کہ افغانستان میں اگر بت کے مجسمے ٹوٹ جائیں تو یورپ کا پورا میڈیا سراپا احتجاج بن جاتا ہے اس لیے ابو سمبل کے اس عظیم مندر کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دوسری جگہ منتقل کیا گیا اس حوالے سے جو بات کہنی ہے وہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نے اس بات کو نمایاں کر کے شائع کیا کہ اس مندر میں بادشاہ (فرعون) اور اس کی ملکہ کے اسٹیچو ایسے زاویے سے نصب کیے گئے تھے کہ سال میں جو تاریخ بادشاہ کی ولادت کی ہوتی اس دن سورج کی پہلی کرنیں بادشاہ کی پیشانی پر پڑتیں یہ گویا اس بات کا اظہار تھا کہ بادشاہ واقعی سورج کا اوتار ہے اس لیے اسے لوگوں سے اپنے آپ کو رب منوانے کا ہر طرح کا حق ہے اگر وہ واقعی اہل زمین کا رب نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کے یوم پیدائش پر سورج کی کرنیں اس کی پیشانی کو بوسہ دیتیں۔ ان حوالوں سے ہمیں یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ بت پرستی کے دور میں بت گری کی صنعت اس طرح عروج پذیر رہی ہے کہ جس میں کرشمہ آرائیاں ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں اور ان کرشموں کی مدد سے بتوں کی خدائی مستحکم کی جاتی رہی ہے اس لیے سامری نے اگر اپنی مہارت فن سے بچھڑے کے قالب میں اس طرح کی ترتیب قائم کی جس سے ہوا کے گزرنے سے بھاں بھاں کی آواز آنے لگی تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے غیر معمولی قدرت کا اظہار سمجھا جائے لیکن اس نے لوگوں کی عقلوں کو ماؤف کرنے کے لیے مزید یہ دعویٰ کیا کہ یہ جو بچھڑے میں زندگی کے آثاد دیکھ رہے ہو کہ وہ تمہیں بھاں بھاں کرتا سنائی دیتا ہے تو وہ اس لیے ہے کہ جب تم بحر قلزم عبور کر رہے تھے تو میں نے جبریل (علیہ السلام) کو گھوڑے پر سوار وہاں سے گزرتے دیکھا تھا جہاں ان کے گھوڑے کا سم پڑتا تھا وہیں سبز گھاس اگ آتی تھی میں سمجھ گیا کہ قدرت نے اس کے پائوں میں زندگی کا اثر رکھا ہے جو ہر اس چیز میں پیدا ہوجاتا ہے جس پر وہ اپنا پائوں رکھ دے۔ چناچہ وہاں سے میں نے مٹی کی ایک مٹھی اٹھا لی اور وہ مٹی میں نے اس بچھڑے میں ڈال دی یہ اسی کا اثر ہے کہ وہ بولنے لگا ہے اس طرح اس نے اپنے مکاشفے کا اعلان کیا تاکہ لوگ صرف بچھڑے کی پوجا ہی نہ کریں بلکہ اس کی بزرگی کے بھی قائل ہوجائیں اس کی وضاحت میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے حالانکہ بات بالکل واضح ہے کہ کافر اپنی قوم کو فریب دینے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی سلسلے میں وہ اپنے مکاشفے کا بھی ذکر کرتا ہے ‘ اس سیاق وسباق میں اس کافر کے مکاشفے کی حیثیت سوائے فریب کے اور کیا رہ جاتی ہے یقینا اس نے ایک بات گھڑی تاکہ لوگ اس کی بات کو آسانی سے تسلیم کرلیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے اپنے اس مکاشفے کا اظہار کیا تو بجائے اس کے کہ آپ اس کے مکاشفے کا نوٹس لیتے آپ نے اسے ہرگز درخور اعتناء نہیں سمجھا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یہ سراسر ایک جھوٹ اور فریب ہے آپ نے اس کے جواب میں جو فرمایا اس میں ایک طرف تو اس کی شخصیت کا بھرم کھولا اور دوسری طرف اس کے بچھڑے کی حقیقت واضح کی آپ نے فرمایا کہ تیرے لیے دنیا میں اب صرف یہ سزا تجویز کی گئی ہے کہ تو پاگلوں کی طرح مارا مارا پھرے اور جب کوئی انسان تیرے قریب آئے تو اسے بھاگتے ہوئے یہ کہے کہ دیکھنا مجھ کو ہاتھ نہ لگانا یہ تو دنیوی عذاب ہے اور قیامت میں ایسے نافرمانوں اور گمراہوں کے لیے جو عذاب مقرر ہے وہ تیرے لیے وعدہ الٰہی کی صورت میں پورا ہونے والا ہے یہ تو قرآن کریم کا بیان ہے لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت نے اس کی یہ حالت بنادی کہ وہ کسی کو چھوتا تھا تو اسے بخار ہوجاتا تھا یا کوئی اسے چھوتا تھا تو وہ بھی بخار میں مبتلا ہوجاتا تھا اور یہ خود ہر وقت بخار میں پھنکتا رہتا تھا اور باہر جنگل میں جانوروں کے ساتھ گھومتا پھرتا ‘ آبادی میں کوئی اس کو منہ لگانے کو تیار نہیں تھا اور جہاں تک تعلق ہے اس بچھڑے کا جسے خدا کے طور پر پیش کیا گیا تھا اس کے بارے میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے سامری یہ بھی دیکھ کہ تو نے جس گوسالہ کو معبود بنایا تھا اور اس کی پوجا کی طرف تو نے لوگوں کو دعوت دی تھی ہم ابھی اس کو آگ میں ڈال کر خاک کیے دیتے ہیں اور اس خاک کو دریا میں پھینکے دیتے ہیں تاکہ تجھ کو اور تیرے ان بیوقوف پیروکاروں کو معلوم ہوجائے کہ تمہارے معبود کی قدر و قیمت اور طاقت و قوت کا یہ حال ہے کہ وہ دوسروں پر عنایت و کرم تو کیا کرتا خود اپنی ذات کو ہلاکت و تباہی سے نہ بچا سکا۔ اللہ کی نعمتوں کی ناسپاسی عقل کو مائوف کردیتی ہے قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کی بےوقوفی ‘ عقلی بےمائیگی اور ساتھ ہی ساتھ ان کی ناقدری اور ناسپاسی کو ظاہر فرمایا ہے کہ ذرا اس قوم کا حال دیکھئے کہ اب تک کس طرح انھوں نے قدم قدم پر اللہ کی قدرتوں کا اظہار دیکھا ‘ کس طرح صدیوں کی غلامی سے اللہ نے ان کے لیے نجات کا سامان پیدا فرمایا جب دشمن ان کے سر پر پہنچ گیا تو نہ صرف کہ اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی بلکہ دشمن ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کردیا گیا پھر صحرائے سینا میں جہاں ضروریات زندگی کا کوئی اہتمام نہیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی ضروریات کو پورا فرمایا اور ایک پیغمبر کی بےمثال قیادت کس طرح ہر معاملے میں ان کی راہنمائی کرتی رہی لیکن کس قدر دکھ اور حیرانی کی بات ہے کہ ایک معمولی بچھڑے کو دیکھ کر یہ اپنے خدا کو بھول گئے اللہ کی تمام کرم فرمائیاں ان کی نگاہ سے اوجھل ہوگئیں اس کی بےپناہ قدرتوں کو بالکل ذہن سے نکال دیا اور عقل کے ایسے دشمن نکلے کہ ایک ایسا بچھڑا جس کو صحیح شکل بھی نصیب نہیں بلکہ ایک دھڑ کے سوا کچھ نہیں نہ وہ بات کرسکتا ہے نہ کسی کو راستہ دکھا سکتا ہے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ ایک اچھا بھلا آدمی اگر بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو تو کوئی اس کو اپنا راہنما ماننے کو تیار نہیں چہ جائیکہ اپنا خدا مان لے اور یہ بچھڑا تو ایک حیوان بلکہ محض حیوان کا دھڑ جو انسان کی سطح کو بھی نہ پہنچ سکا اور وہ بولنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا اگر بول بھی سکتا تو زیادہ سے زیادہ یہ سمجھتے کہ وہ انسان کی منزل کو پہنچ گیا ہے اور پھر اس میں ایسی بھی کوئی صلاحیت نہیں کہ وہ لوگوں کو راستہ دکھا سکے اور کوئی راہنمائی کرسکے تو آخر ان بدبختوں نے بچھڑے کی پوجا کیا سوچ سمجھ کر کی۔ اس کے بعد کے جملے میں مزید ان کی حماقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ حماقت کرنے کو تو کر بیٹھے اور انھوں نے اس بچھڑے کو معبود بنا لیا لیکن جب سوائے بھاں بھاں کے ان کو اور کچھ سنائی نہ دیا تو اب وہ پریشان ہو کر سوچنے لگے اور آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم نے واقعی یہ حرکت کر کے اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم کیا ہے ہمیں اللہ نے عقل عطا کی تھی ہم نے یہ حرکت کر کے عقل پر بھی ظلم ڈھایا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے شرف انسانیت سے نوازا تھا اور اشرف المخلوقات بنایا تھا ہم نے ایک حیوان کے دھڑ کے سامنے جھک کر اپنا تمام شرف خاک میں ملا دیا۔ عام لوگ تو یہی سمجھ سکے کہ ہم نے ایک ظلم کا راستہ اختیار کیا ہے یعنی ہم نے اپنے ساتھ زیادتی کی لیکن جو نسبتاً سمجھ دار لوگ تھے ان کے احساسات ان سے کچھ زیادہ بہتر تھے اس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں کیا جا رہا ہے۔
Top