Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 148
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ١ؕ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا١ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ
وَاتَّخَذَ : اور بنایا قَوْمُ : قوم مُوْسٰي : موسیٰ مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ : سے حُلِيِّهِمْ : اپنے زیور عِجْلًا : ایک بچھڑا جَسَدًا : ایک دھڑ لَّهٗ : اسی کی خُوَارٌ : گائے کی آواز اَلَمْ يَرَوْا : کیا نہ دیکھا انہوں نے اَنَّهٗ : کہ وہ لَا يُكَلِّمُهُمْ : نہیں کلام کرتا ان سے وَلَا يَهْدِيْهِمْ : اور نہیں دکھاتا انہیں سَبِيْلًا : راستہ اِتَّخَذُوْهُ : انہوں نے بنالیا وَ : اور كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ : وہ ظالم تھے
اور موسیٰ کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا تھا ‘ ایک دھڑ جس سے بھاں بھاں کی آواز نکلتی تھی کیا انھوں نے یہ نہ دیکھا کہ نہ وہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ان کو راستہ دکھا سکتا ہے ‘ اس کو وہ بنا بیٹھے اور وہ اپنے اوپر بڑے ظلم ڈھانے والے تھے۔
گذشتہ رکوع کی تصریحات سے یہ بات پوری طرح نمایاں ہوجاتی ہے کہ پروردگار نے بنی اسرائیل کی تعلیم و تربیت کے لیے خصوصی انتظام فرمایا تھا انھیں عام معمول سے ہٹ کر الواح کی شکل میں تحریری کتاب عطا فرمائی اور پھر بار بار اس کتاب کو تھامنے اور اس پر عمل کرنے کی تلقین بھی فرمائی اور مزید یہ بات بھی کہ جس رویے کے باعث اللہ کی کتاب سے استفادہ اور استفاضہ میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے اسے بھی پوری طرح کھول کر بیان کردیا تاکہ بنی اسرائیل کسی طرح بھی اللہ کی کتاب سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی نہ کریں اور اپنے عہد غلامی میں وہ جس طرح اپنے سیرت و کردار کو برباد اور اپنی فکری قوتوں کو تباہ کرچکے ہیں اس کی از سر نوتعمیر میں انھیں نہ صرف آسانی پیدا ہو بلکہ وہ بہتر سے بہتر سیرت و کردار کی تشکیل کرسکیں ‘ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پروردگار کی ان تمام عنایات کے جواب میں انھوں نے جو کچھ کیا اگلی آیت کریمہ میں اس کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ وَاتَّحَذَ قَوْمُ مُوْسٰی مِنمْ بَعْدِ ہٖ مِنْ حُلِیِّیِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوْارٌط اَلَمْ یَرَوْا اِنَّہٗ لَا یُکَلِّمُھُمْ وَلَا یَھْدِیْھِمْ سَبِیْلًام اِتَّخَذُوْہٗ وَ کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ ۔ (الاعراف : 148) ” اور موسیٰ کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا تھا ‘ ایک دھڑ جس سے بھاں بھاں کی آواز نکلتی تھی کیا انھوں نے یہ نہ دیکھا کہ نہ وہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ان کو راستہ دکھا سکتا ہے ‘ اس کو وہ بنا بیٹھے اور وہ اپنے اوپر بڑے ظلم ڈھانے والے تھے “۔ ہم گذشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے تورات لینے کے لیے گئے اور جاتے وقت اپنی قوم سے کہہ گئے کہ میں تیس راتوں کے بعدواپس آجاؤں گا وہاں حکمت خداوندی کے تحت انھیں چالیس راتیں قیام کرنا پڑا چناچہ یہ جو دس دن کی تاخیر ہوئی اس سے فائدہ اٹھا کر مفسدین میں سے بعض لوگوں کو جو بنی اسرائیل میں موجود تھے اور ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے تھے فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا انھوں نے اپنے سردار سامری کو آگے بڑھایا اور سامری جو اپنے تعلقات اثر و رسوخ اور شعبدہ بازیوں کے باعث پہلے سے بنی اسرائیل میں معروف تھا اس نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم نے وہ زیورات جو آل فرعون کی بیگمات سے اپنے کسی تہوار میں پہننے کے لیے مستعار لیے تھے ‘ اور پھر تم مصر سے نکل آنے کے باعث انھیں واپس نہ کرسکے اب اگرچہ وہ کفار کا مال ہونے کی وجہ سے تمہارے پاس مال غنیمت ہے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں چونکہ مال غنیمت کا استعمال کرنا حلال نہیں۔ اس لیے سامری نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم شرعاً ان زیورات کو اپنے لیے استعمال نہیں کرسکتے وہ زیورات تم مجھے دو میں تمہارے لیے ایک خدا بناتا ہوں ‘ چناچہ اس نے بنی اسرائیل کے تمام سونے کے زیورات کو ڈھال کر بچھڑے جیسا ایک جسم تیار کیا اور اسے اس ترکیب سے تشکیل کیا کہ اس میں سے بھاں بھاں کی آوازیں نکلنے لگیں ‘ سامری نے یہ بچھڑالوگوں کو دکھاتے ہوئے کہا کہ موسیٰ تو نہ جانے کہاں گم ہوگیا لیکن وہ جس خدا کی تلاش میں گیا تھا وہ یہی تمہارا خدا ہے بنی اسرائیل چونکہ صدیوں تک مصر کی غلامی میں رہ کر مشرکانہ رسوم و روایات کو قبول کرچکے تھے اور انھوں نے بہت حد تک اپنے آپ کو مصریوں کے رنگ میں رنگ لیا تھا اور مصریوں میں گوسالہ پرستی کا عقیدہ قدیم عقیدہ تھا ہندوئوں کی طرح وہ گائے کو نہ صرف مقدس جانتے تھے بلکہ اس کی پوجا کرتے تھے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے ایک بڑے دیوتا حورس کا منہ گائے کی شکل کا تھا اور وہ یہ بھی عقیدہ رکھتے تھے کہ کرہ زمین گائے کے سر پر قائم ہے ‘ چناچہ غلامی کے مکروہ اثرات ابھی تک بنی اسرائیل میں باقی تھے اس لیے وہ سامری کے بہکاوئے میں آگئے اور انھوں نے اس کے بنائے ہوئے گوسالہ کی پوجا شروع کردی۔ سامری کون تھا ؟ اور اس کے کارنامے کی حقیقت یہاں دو تین باتیں قابل وضاحت ہیں اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ پہلے ان کی وضاحت کردی جائے۔ 1 اس آیت کریمہ میں اگرچہ سامری کا نام نہیں لیا گیا جس نے بچھڑا تیار کیا تھا لیکن سورة طہٰ میں اس کا نام لے کر اس کی کار گزاری کی تفصیل بیان کی گئی ہے اس لیے میں سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ سامری کون تھا ‘ اگرچہ اس کے بارے میں علما میں اختلاف ہے لیکن جو بات زیادہ قرین حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ ‘ وہ ہے جسے مولانا ابو الکلام آزاد نے لکھا ہے ‘ وہ لکھتے ہیں کہ سامری اس کا نام تھا یا قومیت کا لقب ‘ قیاس کہتا ہے کہ یہاں سامری سے مقصود سمیری قوم کا فرد ہے، کیوں کہ جس قوم کو ہم نے سمیری کے نام سے پکارنا شروع کردیا ہے۔ عربی میں اس کا نام قدیم سے سامری آرہا ہے اور اب بھی عراق میں ان کے بقایا اسی نام سے پکارے جاتے ہیں ‘ یہاں قرآن کا سامری کہہ کے اسے پکارنا صاف کہہ رہا ہے کہ یہ نام نہیں ہے اس کی قومیت کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ شخص اسرائیلی نہ تھا، سامری تھا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً ساڑھے تین ہزار برس پہلے دجلہ و فرات کے دو آبے میں دو مختلف قومیں آباد ہو رہی تھیں اور ایک عظیم الشان تمدن کی بنیادیں اٹھا رہی تھیں ان میں سے ایک قوم جو جنوب سے آئی تھی عرب تھی دوسری جس کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ شمال سے اتری ‘ سمیری تھی اسی قوم کے نام سے تاریخ قدیم کا شہر سامرہ آباد ہوا تھا جس کا محل اب ” تل العبید “ میں دریافت ہوا ہے اور وہاں سے پانچ ہزار برس پیشتر کے کے بنے ہوئے زیور اور سنہری ظروف برآمد ہوئے ہیں۔ سمیری قوم کی اصل کیا تھی ؟ اس بارے میں اس وقت تک کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے لیکن نینوا میں اشوری پال (متوفی 666 ء قبل مسیح) کا جو کتب خانہ نکلا ہے اس میں تختیوں کا ایک مجموعہ لغت کی کتاب کا بھی ہے جس میں اکادی اور سمیری زبان کے ہم معنی الفاظ جمع کیے گئے ہیں ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سمیری زبان کے اصوات ‘ سامی حروف کے اصوات سے چنداں مختلف نہیں تھے یہ بہت ممکن ہے کہ وہ بھی دراصل ان ہی قبائل کے مجموعہ سے کوئی بعیدی تعلق رکھتے ہوں جن کے لیے ہم نے تورات کی اصطلاح سامی اختیار کرلی ہے … بہر حال سمیری قبائل کا اصلی وطن عراق تھا، مگر یہ دور دور تک پھیل گئے تھے ‘ مصر کے ان سے تعلقات کا سراغ ایک ہزار سال قبل مسیح تک روشنی میں آچکا ہے ‘ پس معلوم ہوتا ہے اسی قوم کا ایک فرد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی معتقد ہوگیا اور جب بنی اسرائیل نکلے تو یہ بھی ان کے ساتھ نکل آیا اسی کو قرآن نے ” السامری “ کے لفظ سے یاد کیا ہے ‘ گائے ‘ بیل اور بچھڑے کی تقدیس کا خیال سمیریوں میں بھی تھا اور مصریوں میں بھی۔ خوار کی تحقیق 2 اس آیت کریمہ میں خوار کا لفظ آیا ہے اس کا معنی ہے بیل کے ڈکرانے کی آواز یعنی جس طرح بیل اور گائے بھاں بھاں کرتے ہیں اسی طرح یہ بچھڑا جو سامری نے بنایا تھا اس سے بھی اس طرح کی آواز نکلتی تھی بعض لوگوں کو اس کی وضاحت کرتے ہوئے مشکل پیش آئی ہے اس کی عجیب و غریب تاویلیں کی گئی ہیں ‘ حالانکہ بات بالکل واضح ہے کہ سامری ایک ہوشیار اور عیار آدمی تھا وہ مصر میں رہ کر نہ صرف بت پرستی سیکھ چکا تھا ‘ بلکہ بت گری میں بھی ماہر تھا جن شہروں اور جن ملکوں میں بت پرستی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں بت گری کا فن بھی اپنے عروج پر ہوتا ہے مصریوں نے بھی معلوم ہوتا ہے بت گری کے فن میں کافی ترقی کی تھی یقینا انھوں نے اس فن میں ایسی ایسی شعبدہ بازیاں کی ہوں گی جس سے لوگوں میں بت پرستی کو فروغ ملے اور بتوں کو محض بےجان اور پتھر کی مورتیاں نہ سمجھیں بلکہ ان کے اندر مختلف قسم کی قدرتوں کا بھی انھیں یقین آئے چناچہ تاریخ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بت گری کے فن کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ہمیشہ مختلف قسم کے عجائب و غرایب بھی پیدا کیے جس سے مقصود صرف لوگوں کی عقلوں کو دھوکہ دے کر بت پرستی کو قابل قبول بنانا ہوتا تھا ‘ ہندوستان میں سب سے بڑا مندر اور اس کے اندر سب سے بڑا بت سومنات کے نام سے مشہور رہا ہے اور اس کی قدرتوں کا اس قدر چرچا تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بت باقی تمام بتوں سے زیادہ طاقتور ہے اور اس کی گستاخی کرنے والا بھسم ہونے سے کبھی نہیں بچ سکتا ‘ چناچہ جب محمود غزنوی نے اسے فتح کرنے کا ارادہ کیا تو پورے ہندوستان میں جہاں مقابلے کی تیاریاں ہونے لگیں وہیں خوشی کی ایک لہر بھی دوڑ گئی کہ اب محمود غزنوی اور اس کے ساتھیوں کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا ‘ لیکن جب ہم سومنات کی اس شہرت اور بےپناہ قوت کا راز معلوم کرنے کوشش کرتے ہیں تو اس میں بھی ہمیں یہی شعبدہ بازی دکھائی دیتی ہے ‘ کہا جاتا ہے کہ کہ سومنات کا بت ایک بڑے ہال میں فضاء میں معلق تھا جب کہ اس کا وزن منوں تک پہنچتا تھا لیکن اسے نہ کسی سہارے نے اٹھا رکھا تھا اور نہ کوئی زنجیر اسے تھام رہی تھی بلکہ وہ بغیر کسی سہارے کے اس ہال کے عین وسط میں آلتی پالتی مارے فضا میں براجمان تھا۔ جو شخص اسے پہلی نگاہ میں دیکھتا وہ مبہوت ہو کر رہ جاتا کہ منوں وزن رکھنے والا یہ دھاتوں سے بنا ہوا بت اگر بےجان اور بےقوت ہے تو آخر فضاء میں کس طرح بغیر سہارے کے لٹک رہا ہے لیکن اس کی ساری قوت کا راز صرف ایک در پردہ ہوشیاری اور عیاری میں مضمر تھا اور وہ یہ بات تھی کہ اس ہال کی دیواریں مقناطیس سے بنائی گئیں تھیں اور اس کی چھت اور اس کے فرش میں بھی مقناطیس لگایا گیا تھا ‘ چناچہ اسی مقناطیس کی قوت نے اس دھات سے بنے ہوئے بت کو ہر طرف سے پوری قوت سے کھینچ کر فضاء میں معلق کردیا تھا اب جب تک اس کا توازن باقی رہتا ہے اور کسی طرف کی کشش میں کمی نہیں آتی بت کے گرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ تکنیک آج بھی مختلف کھلونوں میں استعمال ہوتی ہے اور بڑی بڑی مشینوں میں بھی اب چونکہ یہ ایک جانی پہچانی بات ہے تو کسی کو تعجب نہیں ہوتا لیکن اس وقت ہر دیکھنے والا یہی سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ اس بت کی کرشمہ آرائی ہے چناچہ محمود غزنوی کی ذہانت نے شائد اس کا اندازہ کرلیا ‘ چناچہ جیسے ہی انھوں نے اس بت کی ایک جانب گرز مار کر مقناطیسی قوت کو غیر متوازن کیا تو بت زمین پر دھڑم سے گرگیا ۔ مصر کا اسوان بند وہاں تعمیر کیا گیا ہے جہاں کبھی ابو سمبل کا قدیم اور عظیم مندر قائم تھا چناچہ بند کی تعمیر کے لیے جب اس کے ہٹانے کا وقت آیا ‘ تو باقاعدہ بین الاقوامی اہتمام میں اسے دوسری جگہ منتقل کیا گیا کیونکہ اقوام متحدہ کے مستقل ممبران جو تمام کے تمام غیر مسلم ہیں وہ اگرچہ علم و ہنر کی روشنی کے دعویدار ہیں اور کبھی بھی بت پرستی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پوری غیر مسلم دنیا بالعموم اور مغرب بالخصوص کبھی اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ بتوں کو توڑا جائے وہ اسے آثار قدیمہ کا نام دے کر تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے سامنے لاکھوں انسانوں کا خون بہہ جائے ‘ عراق میں مسلمانوں کا اثاثہ تباہ ہوجائے مذہبی تبرکات جو ظاہر ہے صدیوں کا سرمایہ ہیں انھیں آگ لگا دی جائے انھیں کبھی تکلیف نہیں ہوگی بلکہ ان کی اپنی فوج اس کی تباہی میں شریک ہوتی ہے لیکن اگر کہیں کسی بت کی ناک بھی پھوڑ دی جائے تو یہ سر تاپا غضب بن جاتے ہیں اگر انھیں آثار قدیمہ سے محبت ہوتی تو عراق ان کے سامنے کبھی نہ لٹتا۔ کیونکہ عراق میں ایسے ایسے تاریخی آثار موجود تھے جس میں صدیوں پہلے کے قرآن پاک کے نادر نمونے ہی نہیں بلکہ عراق میں بڑے بڑے بپاء ہونے والے حق و باطل کے معرکوں کی پوری تفصیلات مجسم شکل میں موجود تھیں اسلام اگرچہ ان چیزوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن وہ یورپ کے ذوق کے بےحد قریب تھیں لیکن ان کو صرف اس لیے تباہ ہونے دیا کہ ان کا رشتہ اسلام سے تھا لیکن بت پرستی سے ان کا تعلق اس حد تک نازک ہے کہ افغانستان میں اگر بت کے مجسمے ٹوٹ جائیں تو یورپ کا پورا میڈیا سراپا احتجاج بن جاتا ہے اس لیے ابو سمبل کے اس عظیم مندر کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دوسری جگہ منتقل کیا گیا اس حوالے سے جو بات کہنی ہے وہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نے اس بات کو نمایاں کر کے شائع کیا کہ اس مندر میں بادشاہ (فرعون) اور اس کی ملکہ کے اسٹیچو ایسے زاویے سے نصب کیے گئے تھے کہ سال میں جو تاریخ بادشاہ کی ولادت کی ہوتی اس دن سورج کی پہلی کرنیں بادشاہ کی پیشانی پر پڑتیں یہ گویا اس بات کا اظہار تھا کہ بادشاہ واقعی سورج کا اوتار ہے اس لیے اسے لوگوں سے اپنے آپ کو رب منوانے کا ہر طرح کا حق ہے اگر وہ واقعی اہل زمین کا رب نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کے یوم پیدائش پر سورج کی کرنیں اس کی پیشانی کو بوسہ دیتیں۔ ان حوالوں سے ہمیں یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ بت پرستی کے دور میں بت گری کی صنعت اس طرح عروج پذیر رہی ہے کہ جس میں کرشمہ آرائیاں ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں اور ان کرشموں کی مدد سے بتوں کی خدائی مستحکم کی جاتی رہی ہے اس لیے سامری نے اگر اپنی مہارت فن سے بچھڑے کے قالب میں اس طرح کی ترتیب قائم کی جس سے ہوا کے گزرنے سے بھاں بھاں کی آواز آنے لگی تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے غیر معمولی قدرت کا اظہار سمجھا جائے لیکن اس نے لوگوں کی عقلوں کو ماؤف کرنے کے لیے مزید یہ دعویٰ کیا کہ یہ جو بچھڑے میں زندگی کے آثاد دیکھ رہے ہو کہ وہ تمہیں بھاں بھاں کرتا سنائی دیتا ہے تو وہ اس لیے ہے کہ جب تم بحر قلزم عبور کر رہے تھے تو میں نے جبریل (علیہ السلام) کو گھوڑے پر سوار وہاں سے گزرتے دیکھا تھا جہاں ان کے گھوڑے کا سم پڑتا تھا وہیں سبز گھاس اگ آتی تھی میں سمجھ گیا کہ قدرت نے اس کے پائوں میں زندگی کا اثر رکھا ہے جو ہر اس چیز میں پیدا ہوجاتا ہے جس پر وہ اپنا پائوں رکھ دے۔ چناچہ وہاں سے میں نے مٹی کی ایک مٹھی اٹھا لی اور وہ مٹی میں نے اس بچھڑے میں ڈال دی یہ اسی کا اثر ہے کہ وہ بولنے لگا ہے اس طرح اس نے اپنے مکاشفے کا اعلان کیا تاکہ لوگ صرف بچھڑے کی پوجا ہی نہ کریں بلکہ اس کی بزرگی کے بھی قائل ہوجائیں اس کی وضاحت میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے حالانکہ بات بالکل واضح ہے کہ کافر اپنی قوم کو فریب دینے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی سلسلے میں وہ اپنے مکاشفے کا بھی ذکر کرتا ہے ‘ اس سیاق وسباق میں اس کافر کے مکاشفے کی حیثیت سوائے فریب کے اور کیا رہ جاتی ہے یقینا اس نے ایک بات گھڑی تاکہ لوگ اس کی بات کو آسانی سے تسلیم کرلیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے اپنے اس مکاشفے کا اظہار کیا تو بجائے اس کے کہ آپ اس کے مکاشفے کا نوٹس لیتے آپ نے اسے ہرگز درخور اعتناء نہیں سمجھا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یہ سراسر ایک جھوٹ اور فریب ہے آپ نے اس کے جواب میں جو فرمایا اس میں ایک طرف تو اس کی شخصیت کا بھرم کھولا اور دوسری طرف اس کے بچھڑے کی حقیقت واضح کی آپ نے فرمایا کہ تیرے لیے دنیا میں اب صرف یہ سزا تجویز کی گئی ہے کہ تو پاگلوں کی طرح مارا مارا پھرے اور جب کوئی انسان تیرے قریب آئے تو اسے بھاگتے ہوئے یہ کہے کہ دیکھنا مجھ کو ہاتھ نہ لگانا یہ تو دنیوی عذاب ہے اور قیامت میں ایسے نافرمانوں اور گمراہوں کے لیے جو عذاب مقرر ہے وہ تیرے لیے وعدہ الٰہی کی صورت میں پورا ہونے والا ہے یہ تو قرآن کریم کا بیان ہے لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت نے اس کی یہ حالت بنادی کہ وہ کسی کو چھوتا تھا تو اسے بخار ہوجاتا تھا یا کوئی اسے چھوتا تھا تو وہ بھی بخار میں مبتلا ہوجاتا تھا اور یہ خود ہر وقت بخار میں پھنکتا رہتا تھا اور باہر جنگل میں جانوروں کے ساتھ گھومتا پھرتا ‘ آبادی میں کوئی اس کو منہ لگانے کو تیار نہیں تھا اور جہاں تک تعلق ہے اس بچھڑے کا جسے خدا کے طور پر پیش کیا گیا تھا اس کے بارے میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے سامری یہ بھی دیکھ کہ تو نے جس گوسالہ کو معبود بنایا تھا اور اس کی پوجا کی طرف تو نے لوگوں کو دعوت دی تھی ہم ابھی اس کو آگ میں ڈال کر خاک کیے دیتے ہیں اور اس خاک کو دریا میں پھینکے دیتے ہیں تاکہ تجھ کو اور تیرے ان بیوقوف پیروکاروں کو معلوم ہوجائے کہ تمہارے معبود کی قدر و قیمت اور طاقت و قوت کا یہ حال ہے کہ وہ دوسروں پر عنایت و کرم تو کیا کرتا خود اپنی ذات کو ہلاکت و تباہی سے نہ بچا سکا۔ اللہ کی نعمتوں کی ناسپاسی عقل کو مائوف کردیتی ہے قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کی بےوقوفی ‘ عقلی بےمائیگی اور ساتھ ہی ساتھ ان کی ناقدری اور ناسپاسی کو ظاہر فرمایا ہے کہ ذرا اس قوم کا حال دیکھئے کہ اب تک کس طرح انھوں نے قدم قدم پر اللہ کی قدرتوں کا اظہار دیکھا ‘ کس طرح صدیوں کی غلامی سے اللہ نے ان کے لیے نجات کا سامان پیدا فرمایا جب دشمن ان کے سر پر پہنچ گیا تو نہ صرف کہ اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی بلکہ دشمن ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کردیا گیا پھر صحرائے سینا میں جہاں ضروریات زندگی کا کوئی اہتمام نہیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی ضروریات کو پورا فرمایا اور ایک پیغمبر کی بےمثال قیادت کس طرح ہر معاملے میں ان کی راہنمائی کرتی رہی لیکن کس قدر دکھ اور حیرانی کی بات ہے کہ ایک معمولی بچھڑے کو دیکھ کر یہ اپنے خدا کو بھول گئے اللہ کی تمام کرم فرمائیاں ان کی نگاہ سے اوجھل ہوگئیں اس کی بےپناہ قدرتوں کو بالکل ذہن سے نکال دیا اور عقل کے ایسے دشمن نکلے کہ ایک ایسا بچھڑا جس کو صحیح شکل بھی نصیب نہیں بلکہ ایک دھڑ کے سوا کچھ نہیں نہ وہ بات کرسکتا ہے نہ کسی کو راستہ دکھا سکتا ہے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ ایک اچھا بھلا آدمی اگر بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو تو کوئی اس کو اپنا راہنما ماننے کو تیار نہیں چہ جائیکہ اپنا خدا مان لے اور یہ بچھڑا تو ایک حیوان بلکہ محض حیوان کا دھڑ جو انسان کی سطح کو بھی نہ پہنچ سکا اور وہ بولنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا اگر بول بھی سکتا تو زیادہ سے زیادہ یہ سمجھتے کہ وہ انسان کی منزل کو پہنچ گیا ہے اور پھر اس میں ایسی بھی کوئی صلاحیت نہیں کہ وہ لوگوں کو راستہ دکھا سکے اور کوئی راہنمائی کرسکے تو آخر ان بدبختوں نے بچھڑے کی پوجا کیا سوچ سمجھ کر کی۔ اس کے بعد کے جملے میں مزید ان کی حماقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ حماقت کرنے کو تو کر بیٹھے اور انھوں نے اس بچھڑے کو معبود بنا لیا لیکن جب سوائے بھاں بھاں کے ان کو اور کچھ سنائی نہ دیا تو اب وہ پریشان ہو کر سوچنے لگے اور آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم نے واقعی یہ حرکت کر کے اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم کیا ہے ہمیں اللہ نے عقل عطا کی تھی ہم نے یہ حرکت کر کے عقل پر بھی ظلم ڈھایا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے شرف انسانیت سے نوازا تھا اور اشرف المخلوقات بنایا تھا ہم نے ایک حیوان کے دھڑ کے سامنے جھک کر اپنا تمام شرف خاک میں ملا دیا۔ عام لوگ تو یہی سمجھ سکے کہ ہم نے ایک ظلم کا راستہ اختیار کیا ہے یعنی ہم نے اپنے ساتھ زیادتی کی لیکن جو نسبتاً سمجھ دار لوگ تھے ان کے احساسات ان سے کچھ زیادہ بہتر تھے اس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں کیا جا رہا ہے۔
Top