Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 158
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا اِ۟لَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگو اِنِّىْ : بیشک میں رَسُوْلُ : رسول اللّٰهِ : اللہ اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف جَمِيْعَۨا : سب الَّذِيْ : وہ جو لَهٗ : اس کی مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا : مگر هُوَ : وہ يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے فَاٰمِنُوْا : سو تم ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهِ : اور اس کا رسول النَّبِيِّ : نبی الْاُمِّيِّ : امی الَّذِيْ : وہ جو يُؤْمِنُ : ایمان رکھتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَكَلِمٰتِهٖ : اور اس کے سب کلام وَاتَّبِعُوْهُ : اور اس کی پیروی کرو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : ہدایت پاؤ
اے پیغمبر کہہ دیجئے اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں وہ اللہ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ پس ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول نبی امی پر ‘ جو ایمان رکھتا ہے اللہ اور اس کے کلمات پر اور اس کی پیروی کرو ‘ تاکہ تم ہدایت پا جائو۔
جس آخری پیغمبر کے اتباع پر دنیا اور آخرت کی کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے اب اسی پیغمبر کی زبان سے اگلی آیت کریمہ میں ایمان لانے کی دعوت بھی دی گئی ہے اور آپ کی اصل حیثیت کو بھی واضح فرمایا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔ قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَاالَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُص فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدْوْنَ ۔ (الاعراف : 158) ” اے پیغمبر کہہ دیجئے اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں وہ اللہ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ پس ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول نبی امی پر ‘ جو ایمان رکھتا ہے اللہ اور اس کے کلمات پر اور اس کی پیروی کرو ‘ تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ “ اس آیت کریمہ میں متعدد باتیں غور و فکر کا تقاضا کرتی ہیں تمام نوع انسانی کو ایمان لانے کی دعوت اور آیت کے مندرجات کی تشریح 1 سلسلہ کلام چونکہ بنی اسرائیل سے متعلق ہے اس لیے سب سے پہلے ان کی ایک غلط فہمی کو دور کیا جا رہا ہے جو ان کی گمراہی کی بنیاد بن گئی تھی وہ غلط فہمی یہ تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ کے نبی اور رسول صرف بنی اسرائیل میں آتے ہیں ان کے علاوہ کسی اور خاندان یا کسی اور قوم میں نبی مبعوث نہیں ہوتا۔ اس لیے جو نبی یا رسول بنی اسرائیل میں آئے گا ہم اسے تو تسلیم کریں گے اور جو کسی دوسرے خاندان یا دوسری قوم میں پیدا ہوگا ہم اسے ہرگز قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم اپنی اس غلط فہمی کو دور کرو اللہ نے تمام نوع انسانی کی ہدایت کا ذمہ لیا ہے اس ذمہ داری کے حوالے سے اس نے تمام دنیا میں ہر قوم میں اپنے رسول بھیجے ہیں اور دنیا صرف بنی اسرائیل کا نام تو نہیں جہاں جہاں بھی انسان بستے ہیں وہاں وہاں اللہ کے نبی اور رسول آئے ہیں ‘ اب میں اگرچہ بنی اسماعیل میں پیدا ہوا ہوں لیکن میری نبوت اور رسالت صرف بنی اسماعیل کے لیے نہیں بلکہ بنی اسرائیل اور باقی دنیا کے لیے بھی ہے جب میں سب کی طرف پیغمبر بن کر آیا ہوں تو اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف بھی پیغمبر ہو کر آیا ہوں اس لیے تمہیں بھی بنی اسماعیل کی طرح مجھ پر ایمان لانا ہوگا اور جس طرح ہر آنے والے پیغمبر پر ایمان لائے بغیر نجات نہیں ہوتی اسی طرح جب تک مجھ پر ایمان نہیں لائو گے تمہارا سابقہ نبیوں کو ماننا نجات کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ 2 دوسری بات جو ارشاد فرمائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اے بنی اسرائیل کے لوگو ! تمہیں یہ حسد کھائے جا رہا ہے کہ اللہ نے اپنا آخری رسول بنی اسماعیل میں کیوں بھیج دیا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں کسی خاندان یا کسی قوم کا رسول ہو کر نہیں آیا اس لیے کسی خاندان کی نسبت سے تمہارے لیے حسد کی آگ میں جلنا کسی طرح روا نہیں۔ میں تو تمام نوع انسانی کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں اس سے پہلے اللہ کے نبی اور رسول ایک محدود علاقے یا کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے لیکن میری بعثت پوری نوع انسانی کے لیے ہے اب میرے آجانے کے بعد نجات کا دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ تم مجھ پر ایمان لائو اور میرا اتباع کرو ‘ اور یہ سمجھ لو کہ میں جس طرح بنی اسماعیل کا رسول ہوں اسی طرح دنیا کی ہر قوم کا رسول ہوں میری رسالت کسی خاص قوم سے منسوب نہیں اس لیے ہر ایمان لانے والے کو یہ سمجھ کر ایمان لانا چاہیے کہ میری نبوت و رسالت سب کے لیے باعث افتخار ہے۔ 3 نبوت و رسالت جس طرح اللہ کا ایک انعام ہے جس کے نتیجے میں زمین ‘ آسمان سے ہم کلام ہوتی اور یہ بےمایہ انسان اللہ کے پیغامات کا مستحق ٹھہرتا ہے اور اسے یہ عزت ملتی ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کے واسطے سے اپنے اللہ کے پیغام کو وصول کرے اور اس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے بہرہ ور ہو اور وہ ہمیشہ اس بات پر ناز کرے کہ مجھے ہر روز زندگی کی الجھنوں سے نجات دینے اور زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آسمان سے راہنمائی نصیب ہوتی ہے میں ایک بےقدر و قیمت انسان ہوں میری حیثیت ایک مشت خاک سے زیادہ نہیں لیکن میرا خدا میرے پیغمبر کے واسطے سے مجھے خطاب فرماتا ہے گویا میں خالق کائنات کا مخاطب ہوں اس پر انسان جتنا بھی فخر کرے کم ہے اس لحاظ سے تو یہ نبوت و رسالت اللہ کا ایک انعام ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑا امتحان بھی ہے۔ تصور کیجیے کہ ایک قوم اپنے پیغمبر کی ہدایات اور اس پر نازل کردہ کتاب اور شریعت پر بڑی یک سوئی سے عمل کر رہی ہے کہ اچانک ان میں ایک پیغمبر مبعوث ہوجاتا ہے اور وہ انھیں اپنی دعوت کو قبول کرنے اور اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے اور انھیں صاف صاف بتاتا ہے کہ تم جس پیغمبر اور رسول پر ایمان رکھتے ہو وہ یقینا اللہ کے سچے رسول تھے اور جس شریعت پر عمل کر رہے ہو وہ یقینا اللہ نے نازل فرمائی تھی لیکن اب میری رسالت کے بعد اور میری شریعت کے نازل ہوجانے کے بعد تمہاری نجات کے لیے سابقہ پیغمبر اور سابقہ شریعت پر عمل کرنا کافی نہیں تم جب تک مجھ پر ایمان نہ لائو اور میری شریعت پر عمل نہ کرو اس وقت تک تم اللہ کے ہاں نجات نہیں پاسکتے۔ اس لحاظ سے اس نئے رسول کا آنا اس قوم کے لیے ایک امتحان بن جاتا ہے وہ سوچ میں ڈوب جاتی ہے کہ سابقہ شریعت اور رسالت کی موجودگی میں ہم اس نئے رسول اور اس نئی شریعت پر ایمان کیوں لائیں ؟ بہت سے لوگ اس عصبیت میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ مخالفت و دشمنی پر تل جاتے ہیں نتیجتاً اپنی دنیا و آخرت برباد کرلیتے ہیں پروردگار نہایت رحیم و کریم ذات ہے وہ بلا ضرورت کبھی اپنی مخلوق کو اس امتحان میں نہیں ڈالتی وہ اس وقت نئے پیغمبر اور نئی شریعت کو نازل کرتی ہے جب پہلی شریعت تحریف کا شکار ہو کر قوم کی اصلاح کی ضرورت کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہتی ان کے بگڑے ہوئے علماء اس شریعت میں اس حد تک تبدیلیاں کردیتے ہیں کہ اس پر محض اللہ کی خوشنودی کے لیے عمل کرنا اور صحیح دینی نتائج حاصل کرنا ناممکن ہوجاتا ہے ایسی صورت میں ضروری ہے کہ نیا رسول آئے اور نئی شریعت نازل ہو۔ چناچہ یہاں تمام نوع انسانی کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اب رسول اللہ تمام نوع انسانی کی طرف اللہ کے رسول ہو کر آئے ہیں سابقہ شریعتیں بگڑ چکی ہیں نہ انجیل محفوظ رہی نہ تورات اور آئندہ آنے والے نئے نئے مسائل شدید تقاضا کر رہے ہیں کہ انسانی ہدایت کے لیے آسمان سے کوئی شریعت اترے چناچہ اب اللہ نے کرم فرمایا ہے کہ اس نے انسانوں کو اس امتحان سے بچانے کے لیے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی راہنمائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تمام نوع انسانی کی طرف ایک ہی رسول بھیج دیا ہے جس کی رسالت قیامت تک کے لیے ہے۔ رسول اس علاقے میں آتا ہے جہاں پہلے کوئی نبی اور رسول نہیں آیا ہوتا۔ اس لیے حضور کو پوری زمین کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا اس کا نتیجہ آپ سے آپ یہ نکلتا ہے کہ اب زمین کے کسی حصے پر کسی اور رسول کے مبعوث ہونے کی ضرورت نہیں اور مزید یہ کہ رسول اس وقت بھیجا جاتا ہے جب پہلی شریعت ‘ اور پہلی رسالت محفوظ نہیں رہتی اس لیے ضمناً یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اب یہ جو اللہ کا آخری رسول بھیجا جا رہا ہے اس کی شریعت ہمیشہ محفوظ رہے گی کیونکہ یہ تمام جن و بشر کی طرف قیامت تک کے لیے رسول بن کر آیا ہے اسی کو ختم نبوت سے تعبیر کیا گیا ہے یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلی امتوں میں جب شریعت میں تحریف ہوتی اور کتابوں میں قلم کاری ہوتی تو اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی نبی کو بھیج دیتا اب اس آخری نبی کے آنے کے بعد اگر کوئی نبی نہیں آئے گا تو اس آخری کتاب اور اس کی شریعت میں لوگوں نے اگر کمی بیشی کی تو اس کی اصلاح کی صورت کیا ہوگی ؟ قرآن و سنت سے ہمیں اس کے دو جواب ملتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس سے پہلے اس نے اپنی کسی کتاب کی حفاظت کا وعدہ نہیں فرمایا کیونکہ ان کا قیامت تک محفوظ رکھنا اللہ کی مشیت کے پیش نظر نہیں تھا اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم تھا کہ حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی ضرورتیں بدلیں گی نئے نئے مسائل پیدا ہوں گے تو شریعت کے فروعی مسائل میں تبدیلیاں ناگزیر ہوں گی اور انسان کی فکری ضرورتیں نئی سے نئی راہنمائی کی محتاج ہوں گی اس لیے اس کی مشیت کا تقاضا ہوا کہ ایک خاص دور تک ہر کتاب کو محفوظ رکھا جائے اس کے بعد ضرورت کے مطابق نئی کتاب بھیجی جائے لیکن جب نبی آخر الزماں کا زمانہ آیا تو دنیا اپنے بلوغ کی عمر کو پہنچ گئی فکری کاوشیں توانا ہوگئیں انسانی سوچ اور فکر نے مستقل راستے تلاش کرلیے منتشر نوع انسانی ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے بےقرار ہونے لگی دنیا پھیلنے کے ساتھ ساتھ وسائل کی ہمہ ہمی کے باوجود ایک دوسرے کے قریب آگئی اب ضرورت اس بات کی تھی کہ انسان کو آئے دن کی نبوت کی تبدیلیوں کے امتحان سے بچایا جائے اور انسانوں کو ایک آئیڈیل راہنما دے دیا جائے جو ہر دور کی راہنمائی کے لیے کافی ہو چناچہ آنحضرت کی ذات گرامی اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب قیامت تک کے لیے انسانی ضرورتوں کا سامان بن کر آگئی۔ دوسری بات ہمیں حدیث سے ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کی سنت کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک خاص انتظام فرمایا ہے آنحضرت ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں جس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی قائم رہے گی جو دین میں پیدا ہونے والے سارے فتنوں کا مقابلہ اور دینی معاملات میں پیدا ہونے والے سارے رخنوں کا انسداد کرتی رہے گی کتاب و سنت کی تعبیر و تفسیر میں جو غلطیاں رائج ہوں گی یہ جماعت ان کو بھی دور کرے گی اور اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت و امداد اس جماعت کو حاصل ہوگی جس کے سبب یہ سب پر غالب آ کر رہے گی کیونکہ درحقیقت یہ جماعت ہی آنحضرت ﷺ کے فرائضِ رسالت ادا کرنے میں آپ کے قائم مقام ہوگی۔ امامِ رازی نے آیت کونوا مع الصادقین کی تشریح میں بتلایا ہے کہ اس آیت میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اس امت کے صادقین کی ایک جماعت ضرور باقی رہے گی ورنہ دنیا کو صادقین کی معیت وصحبت کا حکم نہ دیا جاتا۔ مندرجہ بالا حقائق پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت و رسالت قیامت تک آنے والی نسلوں اور پورے عالم کے لیے عام ہے جس میں اب کسی نبی اور رسول کی ضرورت باقی نہیں ممکن ہے یہاں یہ خیال پیدا ہو کہ آنحضرت ﷺ کے ارشادت میں یہ بتایا گیا ہے کہ آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائیں گے اور یہ سب جانتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ آسمانوں پر زندہ حالت میں موجود ہیں اور اسی طبعی زندگی کے ساتھ وہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو پھر یہ کہنا کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ کیسے صحیح ہوگا ؟ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آنحضرت کی اطلاع کے مطابق قیامت کے قریب یقینا تشریف لائیں گے لیکن آپ کو صرف دجال کے مقابلے کے لیے بھیجا جائے گا آپ یقینا اللہ کے نبی ہوں گے لیکن آپ کی نبوت کوئی نئی نبوت نہیں ہوگی آپ دنیا میں نبی ہوتے ہوئے بھی آنحضرت ﷺ کی شریعت کے مطابق ایک عادلانہ حکومت قائم کریں گے۔ آپ کی کوششوں کی برکت سے تمام دنیا پر اسلام غالب آجائے گا۔ عیسائیت اتمام ِ حجت ہوجانے کے بعد ختم ہوجائے گی یہودیت کا قلع قمع کردیا جائے گا آپ کی برکت سے خلافتِ راشدہ کا دور پلٹ آئے گا آپ ایک خلیفہ راشد کے طور پر دنیا پر حکومت کریں گے اسی دوران آپ حج بھی کریں گے جب آپ کا آخری وقت آئے گا تو مسلمان ہی آپ کی تکفین و تدفین کریں گے اور رسول ﷺ کے پہلو میں آپ کو دفن کیا جائے گا۔ یہ ساری تفصیلات آنحضرت ﷺ پہلے بیان فرما چکے ہیں ‘ اس لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تشریف لانے سے ختم نبوت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور مزید یہ بھی یاد رہے کہ اس آیت کریمہ سے اگرچہ ہم نے ختم نبوت پر استدلال کیا ہے ‘ لیکن قرآن و سنت میں آپ کی ختم نبوت پر یہ واحد دلیل نہیں بلکہ اور بھی بہت سے واضح دلائل موجود ہیں۔ محض دلچسپی کے لیے ہم چند روایات کا ذکر کرتے ہیں۔ ابن کثیر نے بحوالہ مسند احمد سندقوی کے ساتھ رویت کیا ہے کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر رسول کریم ﷺ نماز تہجد میں مشغول تھے صحابہ کرام ( رض) کو خوف ہوا کہ کوئی دشمن حملہ نہ کر دے اس لیے آپ کے گرد جمع ہوگئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ آج کی رات مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی رسول و نبی کو نہیں ملیں ‘ اول یہ کہ میری رسالت و نبوت کو ساری دنیا کی کل اقوام کے لیے عام کیا گیا ہے اور مجھ سے پہلے جتنے انبیاء آئے ان کی دعوت و بعثت صرف اپنی اپنی قوم کے ساتھ مخصوص ہوتی تھی ‘ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے میری دشمن کے مقابلے میں ایسا رعب عطا کیا گیا ہے کہ وہ مجھ سے ایک مہینہ کی مسافت پر ہو تو میرا رعب اس پر چھا جاتا ہے ‘ تیسرے یہ کہ میرے لیے کفار سے حاصل شدہ مال غنیمت حلال کردیا گیا حالانکہ پچھلی امتوں کے لیے حلال نہ تھا بلکہ اس کا استعمال کرنا گناہ عظیم سمجھا جاتا تھا ان کے مال غنیمت کا صرف یہ مصرف تھا کہ آسمان سے ایک بجلی آئے اور اس کو جلا کر خاک کر دے ‘ چوتھے یہ کہ میرے لیے تمام زمین کو مسجد اور پاک کرنے کا ذریعہ بنادیا کہ ہماری نماز زمین پر ہر جگہ ہوجاتی ہے مسجد کے ساتھ مخصوص نہیں بخلاف پہلی امتوں کے کہ ان کی عبادت صرف ان کے عبادت خانوں کے ساتھ مخصوص تھی اپنے گھروں یا جنگل وغیرہ میں ان کی نماز و عبادت نہ ہوتی تھی ‘ نیز یہ کہ جب پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو ‘ خواہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے یا کسی بیماری کے سبب تو وضو کے بجائے مٹی سے تیمم کرنا اس امت کے لیے طہارت و وضو کے قائم مقام ہوجاتا ہے ‘ پچھلی امتوں کے لیے یہ آسانی نہ تھی پھر فرمایا اور پانچویں چیز کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں وہ خود ہی اپنی نظیر ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر رسول کو ایک دعا کی قبولیت ایسی عطا فرمائی ہے کہ اس کے خلاف نہیں ہوسکتا اور ہر رسول و نبی نے اپنی اپنی دعا کو اپنے خاص خاص مقصدوں کے لیے استعمال کرلیا وہ مقصد حاصل ہوگئے مجھ سے یہی کہا گیا کہ آپ کوئی دعا کریں میں نے اپنی دعا کو آخرت کے لیے محفوظ کرا دیا وہ دعا تمہارے اور قیامت تک جو شخص لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے والا ہوگا اس کے کام آئے گی۔ نیز امام احمد کی ایک روایت حضرت ابو موسیٰ اشعری ( رض) سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میرا مبعوث ہونا سنے خواہ وہ میری امت میں ہو یا یہودی نصرانی ہو اگر وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے گا تو وہ جہنم میں جائے گا۔ صحیح بخاری میں اسی آیت کے تحت میں بروایت ابو الدرداء ( رض) نقل کیا ہے کہ ابوبکر و عمر ( رض) کے درمیان کسی بات میں اختلاف ہوا حضرت عمر ( رض) ناراض ہو کر چلے گئے یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر ( رض) بھی ان کو منانے کے لیے چلے مگر حضرت عمر ( رض) نے نہ مانا ‘ یہاں تک کہ اپنے گھر میں پہنچ کر دروازہ بند کرلیا ‘ مجبوراً صدیقِ اکبر ( رض) واپس ہوئے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ادھر کچھ دیر کے بعد حضرت عمر ( رض) کو اپنے اس فعل پر ندامت ہوئی اور یہ بھی گھر سے نکل کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے اور اپنا واقعہ عرض کیا ابو الدردا ( رض) کا بیان ہے کہ اس پر رسول ﷺ ناراض ہوگئے جب صدیق اکبر ( رض) نے دیکھا کہ حضرت عمر ( رض) پر عتاب ہونے لگا ہے تو عرض کیا یا رسول اللہ زیادہ قصور میرا ہی تھا ‘ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ میرے ایک ساتھی کو اپنی ایذائوں سے چھوڑ دو ‘ کیا تم نہیں جانتے کہ جب میں نے باذن خداوندی یہ کہا کہ یٰٓاَیُّھاَ النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا تو تم سب نے مجھے جھٹلایا صرف ابوبکر ( رض) ہی تھے جنھوں نے پہلی بار میری تصدیق کی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے آنحضرت ﷺ کا تمام موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں، ہر ملک اور ہر خطہ کے باشندوں اور ہر قوم و برادری کے لیے رسول عام ہونا ثابت ہوا اور یہ کہ آپ کی بعثت کے بعد جو شخص آپ پر ایمان نہیں لایا وہ اگرچہ کسی سابقہ شریعت و کتاب کا یا کسی اور مذہب و ملت کا پورا پورا اتباع وتقویٰ احتیاط کے ساتھ بھی کر رہا ہو وہ ہرگز نجات نہیں پائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کی تمام نوع انسانی کی طرف بعثت کا ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ میں اس ذات کی طرف سے رسول اور ایلچی بن کر آیا ہوں جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس طرح زمین و آسمان کے مالک ہونے میں اس کا کوئی شریک نہیں بلکہ وہ مالک مطلق ہے اسی طرح یاد رکھو اب قیامت تک کے لیے میں رسول مطلق بن کر آیا ہوں اب میری رسالت میں کسی اور کی شرکت کا سوال پیدا نہیں ہوتا اب قیامت تک جسے بھی اللہ کے خوشنودی منظور ہوگی اور وہ اس کے احکام پر عمل کرنا چاہے گا اس کے لیے میری ذات کے سوا کوئی ذریعہ نہیں جس کتاب کو میں لے کر آیا ہوں اور جس طرح میں نے اس کی تشریحات کی ہیں اور جس طرح میں نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا ہے وہی قیامت تک حرف آخر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ کے سوا جس کا میں رسول بن کر آیا ہوں کوئی الہ نہیں وہی اس کائنات کا حاکم حقیقی ہے جس طرح اس کی صفت خلق میں کوئی شریک نہیں اسی طرح اس کی الوہیت اور حاکمیت میں بھی کوئی شریک نہیں انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک کوئی زندگی کا شعبہ ایسا نہیں جس میں اس کی حاکمیت کے سوا کسی اور کی حاکمیت قبول کی جائے۔ عبادت ہوگی تو اسی کی ‘ معاشرت ہوگی تو اسی کے احکام کے مطابق ‘ معیشت کی بنیادیں اٹھائی جائیں گی اور تمام مالی معاملات طے کیے جائیں گے تو اسی کی راہنمائی کے مطابق ‘ حکومت چلے گی تو اسی ہدایت کے مطابق غرضیکہ پورا نظام زندگی اسی کی حاکمیت کے زیر اثر چلے گا اور انسانوں کے ہر معاملے پر انسانوں کی عبودیت اور اس کی الوہیت کی چھاپ ہوگی یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جسے دنیا کو سکھانے کے لیے میں اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ پر مکی زندگی کے ابتدائی سالوں میں جو وحی اترتی رہی ہے اس میں اسی بات کو سب سے زیادہ نمایاں کر کے دل و دماغ میں اتارا گیا ہے۔ سورة المدثر میں آنحضرت کو اسی تبلیغ و دعوت کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا ربک فکبر ” اپنے رب کی کبریائی بیان کرو۔ “ کیونکہ دنیا میں گمراہی کی بنیاد صرف یہی ایک نقطہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر مرحلے میں بڑائی ‘ قیادت و سیادت اور راہنمائی کسے حاصل ہے ؟ کون ہے جو آئین اور قانون دینے کا حق رکھتا ہے ؟ کون ہے جو مطاع مطلق ہے اور جس کی اطاعت ہرحال میں لازم ہے جس کی حیثیت اور جس کے حکم کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا نے اس کے نہ جانے کتنے جواب دئیے اور کتنے تجربات کیے ؟ لیکن مذہب نے ہمیشہ اس کا ایک ہی جواب دیا ہے کہ ہر طرح کبریائی اور بڑائی اور سیادت و قیادت کا حق صرف خداوند ذوالجلال کے لیے ہے۔ کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق زباں اور دل کی شہادت کے لائق اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق لگائو تو لو اپنی اس سے لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو ا سی پر ہمیشہ بھروسہ کرو تم اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم اسی کی طلب میں مرو جب مرو تم مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی مزید فرمایا وہی زندگی دیتا ہے ‘ اور وہی موت دیتا ہے یعنی تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہاری زندگی اور موت اسی کے قبضے میں ہے وہی قوموں کے عروج وزوال کا مالک ہے اسی کے حکم سے قومیں عروج آشنا ہوتی ہیں اور اسی کے حکم سے قومیں تنزل کی کھائیوں میں گرتی ہیں میں تمہارے پاس اس حاکم مطلق اور تمہارے عروج وزوال کے مالک کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔ اس لیے کسی بےجا عصبیت کسی غلط اعتماد اور کسی بےبنیاد غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہو کر میری نبوت اور رسالت کا انکار کر کے اپنی عاقبت تباہ کرنے کی کوشش مت کرو ‘ اور ایسا کرو گے تو سوچ لو کائنات کے اس حاکم کو آخر کیا جواب دو گے ؟ اس طرح اپنی حیثیت کو واضح کرنے کے بعد انھیں ایمان لانے کی دعوت دی لیکن ساتھ ہی ساتھ ایسی چند باتوں کے اشارے بھی فرمائے جن کا تعلق بنی اسرائیل کی کتابوں میں منقول پیش گوئیوں سے تھا وہ چونکہ ان کی پیش گوئیوں کو جانتے تھے اس لیے اگر ان میں تھوڑا بہت حسن نیت پایا جاتا ہے تو وہ ایمان کی اس دعوت سے محروم نہیں رہ سکتے۔ فرمایا ” تم ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر “ ایمان کی دعوت کے لیے صرف رسول کہہ دینا کافی تھا کیونکہ اصل دعوت تو اسی حیثیت سے پیش کی جا رہی ہے کہ میں اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں لیکن اس کے ساتھ نبی امی کا اضافہ بےسبب نہیں۔ سبب یہ ہے کہ پہلی آسمانی کتابوں میں جہاں بھی بنی کریم ﷺ کی بعثت کی خبر دی گئی ہے وہاں آپ کو نبی امی کہہ کر یاد کیا گیا ہے یہ گویا آپ کی ایک ایسی علامت ہے جس کے بغیر آپ کا تعارف مکمل نہیں ہوتا اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آپ کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ بنی اسماعیل میں سے ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی شناخت کے طور پر اپنے آپ کو امی کہتے ہیں۔ تو یہاں آپ کو بنی امی کہہ کر ایمان کی دعوت دینا یہ گویا ان کی کتابوں سے اشتہاد کرنا تھا کہ جس نبی امی پر ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے اس کی شہادت تمہاری اپنی کتابوں میں موجود ہے دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ تم اور کسی کی نہیں سنتے تو اپنی کتابوں کی شہادت کے مطابق اس نبی پر ایمان لائو۔ دوسری بات جو معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے امی ہونے سے آپ کے نبی ہونے پر دلیل پیش کی جارہی ہے وہ اس طرح کہ اے دنیا کے پڑھے لکھے لوگو ! اور اے بنی اسرائیل کے لوگو ! تم جانتے ہو کہ جس رسول پر تمہیں ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے وہ امی محض اور نوشت و خواند سے معرا ہے وہ اپنا نام تک نہیں لکھ سکتا اور اپنا لکھا ہوا نام پڑھ نہیں سکتا اور تاریخ اور حدیث میں اس کی مثالیں موجود ہیں اور اس نے کسی مدرسے یا کسی شخص کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا اس نے مکہ کے ماحول میں تربیت پائی جس میں علم کا نشان تک نہیں پایا جاتا اسے کبھی کوئی علمی ماحول میسر نہیں آیا۔ بایں ہمہ ! اس کی زبان سے علم کا سوتا پھوٹ رہا ہے اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت کی آبرو ہے وہ جو بات کہتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم کی ٹکسال سے ڈھل کر نکلی ہے اس کے پیش کردہ نظام زندگی نے دنیا بھر کی لائبریوں کو گنگ کر کے رکھ دیا ہے وہ امی محض ہوتے ہوئے یہ جو علم و حکمت کا دریا بہا رہا ہے اگر وہ اللہ کا رسول نہیں اور وحی الٰہی اس کی زبان سے نہیں بولتی تو بتائو اس علم و حکمت کا سبب کیا ہے ؟ یہ وہ دلیل ہے جو امی کے لفظ سے خود بخود ابلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور مزید ایک بات جو بنی اسرائیل سے تعریض کے طور پر کہی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ تم نے ہمیشہ امیوں کا مذاق اڑایا ہے اور تمہارے اہل مذہب نے تمہیں یہ سکھایا کہ امیوں کا تم پر کوئی حق نہیں تم اگر ان کے حقوق کھا بھی جاؤ تو انھیں تم سے مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے تم نے کبھی انھیں اپنے ساتھ برابری کرنے کا حق نہیں دیا ہے تو اب ان سے کہا جا رہا ہے کہ جن امیوں کے ساتھ تم یہ توہین آمیز رویہ اختیار کرتے رہے ہو اب انھیں میں سے ایک امی کے ساتھ اللہ نے تمہاری قسمت وابستہ کردی ہے اب چاہو تو اپنے پرانے خیالاتِ فاسدہ کے اسیر رہ کر اپنی عاقبت برباد کرلو اور چاہے اس امی کی پیروی کر کے اور اس کے قدموں میں بیٹھ کر اپنی عاقبت بنا لو۔ مزید فرمایا کہ یہ امی وہ ہے جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان لاتا ہے اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ پیغمبر محض اپنی قومی برتری کے لیے نبوت کا دعویٰ نہیں کر رہا بلکہ حقیقت میں اسی سلسلہ انبیاء کی یہ ایک کڑی ہے جس سے وہ سونے کی زنجیر مکمل ہوتی ہے کیونکہ وہ کسی الگ دھڑے کی دعوت لے کر انھیں اٹھا بلکہ وہ اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ اس کے تمام کلمات یعنی اس کی نازل کردہ کتابوں پر بھی ایمان رکھتا ہے بلکہ وہ ان کی صداقت کا مصداق بن کر آیا ہے وہ اپنی دعوت سے بھی ان کی تصدیق کرے گا اور اپنے عمل اور اپنی علامتوں سے بھی ان کی سچائی ثابت کرے گا اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس پیش گوئی کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر میں اس سے پہلے کرچکا ہوں جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بیان کیا تھا کہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ آخری بنی جو ہوگا تو میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہ وہی لوگوں سے کہے گا مطلب یہ ہوا کہ نبی کے اس دعوی نبوت اور اس کی اس دعوت کو کسی وہم ‘ کسی خیال اور دوسروں پر برتری اور سیادت حاصل کرنے کی کسی خواہش پر مبنی نہ سمجھو ‘ یہ تو وہی کچھ تمہیں سنارہا ہے ‘ جو اللہ کی طرف سے آرہا ہے ‘ پیغمبر خود اللہ پر اور اس کی ان باتوں پر ایمان رکھتا ہے اور اسی ایمان کی دعوت تمہیں دے رہا ہے اور یہ اس کی اپنی کوئی ایجاد نہیں ہے اور دوسرے اس میں وہ دھمکی بھی مضمر ہے جو اوپر والی پیش گوئی میں مذکور ہے کہ چونکہ یہ اللہ کی بھیجی ہوئی چیز ہے اس وجہ سے اس میں پیغمبر کی طرف سے کسی کمی بیشی ‘ کسی حذف و اضافہ کی گنجائش نہیں ہے اگر پیغمبر نے اس کی تبلیغ میں کوئی مداخلت برتی تو اللہ اس سے مواخذہ فرمائے گا اور اگر لوگوں نے اس سارے اہتمام کے باوجود اس کا حق کا نہ پہچانا تو ان سے مواخذاہ ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کے اتباع کا حکم اس آیت کریمہ کے آخر میں آخری نبی ﷺ پر ایمان کے ساتھ ساتھ اتباع کا بھی حکم دیا گیا ہے تاکہ یہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے کہ اس آخری نبی پر صرف ایمان لانا کافی نہیں بلکہ اس کی اطاعت اور اس کا اتباع بھی لازم ہے کیونکہ اس غلط فہمی کا تاریخ کی روشنی میں ضرور اندیشہ تھا کہ بنی اسرائیل آپ کو اگر پیغمبر بھی تسلیم کرلیتے تو ضروری نہیں کہ آپ کا اتباع بھی کرتے کیونکہ تاریخ میں ان کے لیے ایک مثال موجود تھی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو تورات کی شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا تھا اور انجیل جو اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی تھی اس میں حکمت شریعت تو بیان ہوئی تھی لیکن شریعت کا بیان نہیں تھا ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والوں پر شریعت وہی لازم تھی جو تورات میں نازل کی گئی تھی بنی اسرائیل ہمیشہ سے نیت کے کھوٹے اور کام چور ثابت ہوئے تھے اس لیے ان سے اس بات کا شدید امکان تھا کہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں لیکن اتباع اس شریعت پر کریں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی شائد اسی امکان کو بالکل ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے اتباع کے ساتھ ساتھ سابقہ آیت کے آخر میں قرآن کریم کے اتباع کا بھی حکم دیا تاکہ یہ بات بالکل واضح ہوجائے کہ آپ پر ایمان لانے کا مفہوم ہی یہ ہے کہ آپ کا اور آپ پر نازل کردہ کتاب کا اتباع کیا جائے مزید اس میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ آپ کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے اطاعت کا نہیں کیونکہ اتباع کا لفظ اطاعت کی نسبت زیادہ وسیع ہے اطاعت صرف احکام کی تعمیل کو کہتے ہیں۔ لیکن اتباع میں احکام کی تعمیل کے ساتھ ساتھ نقوش قدم کی جستجو ‘ ادائوں پر مرمٹنے کا جذبہ ‘ شخصیت کے ایک ایک پہلو کی نقل اتارنے کی کوشش اور عشق و محبت کا سوز و گداز سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ اتباع نصیب ہوجائے تو اطاعت میں کمی نہیں رہتی لیکن صرف اطاعت ‘ اتباع کی ضمانت نہیں دے سکتی جہاں قانونی حد تک اطاعت کار فرما ہو وہاں ایمان بھی محض زبان کا وظیفہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایمان میں یقین کی قوت اور اطاعت میں وارفتگی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اتباع کا جذبہ طبیعت میں موجزن ہوتا ہے ایمان اور اتباع جب دونوں اکٹھے ہوجاتے ہیں تو پھر زندگی کا وہ سفر جس کی منزل جنت اور اللہ کی رضا ہے آسان ہوجاتا ہے اس لیے آیت کے اختتام پر فرمایا کہ اگر تم ایمان کے بعد اس آخری پیغمبر ﷺ کا اتباع کرو تو پھر امید ہے کہ تم ہدایت پا جاؤ گے۔ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اللہ کی کتاب میں افراط وتفریط کا کوئی سوال پید انھیں ہوتا یہ معیار اگرچہ سخت ہے جس پر انسانی کتابوں پر پورا اترنا محال ہے لیکن اللہ کی کتاب حرف بہ حرف اس معیار پر پورا اترتی ہے چناچہ جہاں بھی بنی اسرائیل پر بحیثیت ایک امت کے ان کی بد اعمالیوں پر تنقید کی گئی ہے وہیں روایت میں دیانت کی پابندی کرتے ہوئے اگر ان میں کوئی انسانی گروہ اچھے اعمال کا پیکر گزرا ہے تو اس کا بھی ذکر ضرور فرمایا گیا ہے چناچہ اگلی آیت کریمہ میں ایسے ہی ایک گروہ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top