Ruh-ul-Quran - An-Naba : 6
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًاۙ
اَ لَمْ : کیا نہیں نَجْعَلِ : ہم نے بنایا الْاَرْضَ : زمین کو مِهٰدًا : فرش
کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو گہوارہ بنایا
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا۔ وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔ وَّخَلَقْنٰـکُمْ اَزْوَاجًا۔ وَّجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا۔ وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا۔ وَّجَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا۔ وَّبَنَیْنَا فَوْقَـکُمْ سَبْعًا شِدَادًا۔ وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَّاجًا۔ وَّاَنْزَلْـنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَـآئً ثَجَّاجًا۔ لِّـنُخْرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّ نَبَا تًا۔ وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا۔ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا۔ (النبا : 6 تا 17) (کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو گہوارہ بنایا۔ اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔ اور تم کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔ اور ہم نے تمہاری نیند کو دافعِ کلفت بنایا۔ اور رات کو تمہارے لیے پردہ پوش بنایا۔ اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔ اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے۔ اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا۔ اور پانی سے لبریز بدلیوں سے ہم نے موسلادھار بارش نازل کی۔ تاکہ اس کے ذریعے سے اگائیں غلہ اور نباتات۔ اور گھنے باغ۔ بیشک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے۔ ) قیامت اور بعض دیگر حقائق پر آیات ربوبیت سے استدلال ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کے چند آثار کے ذریعے بعض حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مقصود یہ ہے کہ جو شخص بھی کائنات کے ان آثار پر غور کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کو دیکھے گا اگر وہ عقل کی سلامتی اور فطرت کی سادگی سے تہی دامن نہیں ہوا تو یقینا اسے قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی قدرت دکھائی دے گی۔ جابجا اس کی رحمت کی پرچھائیں نظر آئیں گی۔ وہ محسوس کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے اور اس کی ہر تخلیق کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت نظر آتی ہے۔ پھر وہ ربوبیت کے وسیع نظام کو ہر طرف پھیلا ہوا دیکھے گا۔ تو آخر اسے اس بات کا یقین کرنا پڑے گا کہ اس کائنات کا نظام چلانے والی ایک تنہا ذات ہے جس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں۔ اس کی ربوبیت کے دسترخوان سے ہر مخلوق متمتع ہورہی ہے۔ اور ان میں حضرت انسان کو خصوصی صلاحیتیں دے کر اہم حیثیت عطا کی گئی ہے۔ اسے جو بیشمار نعمتیں بخشی گئی ہیں ان تمام کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ انسان کی جسمانی، معنوی اور روحانی مقاصد کے لیے اسباب و ذرائع کے طور پر کام آئیں تاکہ اسے اپنے فیصلوں کو بروئے کار لانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اس طرح سے ہر چیز کا ایک مقصد مقرر کردیا گیا ہے اور خود انسان کی زندگی بھی مقصد کے ساتھ مکلف کردی گئی ہے۔ اور اسی پر اس کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار رکھا ہے۔ جو بھی اس صورتحال کو دیکھے گا اس میں یہ احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ایک مخلوق کو غیرمعمولی صلاحیتوں کا عطا کیا جانا، پھر اسے اختیارات کا ملنا، اس کو فیصلے کرنے کی آزادی دینا اور اس کو ایسے اختیارات بہم پہنچانا جس سے وہ اپنے ارادوں کی تکمیل کرسکے، یقینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ سب کچھ بےحکمت و بےمقصد نہیں، یقینا ایک ایسا دن آئے گا جب انسان کو دوبارہ اٹھایا جائے گا اور اس سے اس مقصد کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اس نے اپنی زندگی اس مقصد کے مطابق گزاری یا اس کی مخالفت میں۔ ان آیات میں یہی حقیقت ہے جو نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان فرمائی گئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل بھی ہیں، اس کی حکمت کے جلوے بھی ہیں، انسان کی بامقصد زندگی کی طرف اشارے بھی ہیں اور آخر میں اسی مقصد کے حوالے سے جواب طلبی کے لیے ایک مقررہ دن کی خبر بھی ہے۔ اس میں سب سے پہلے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے زمین کو گہوارہ اور فرش بنایا ہے۔ یعنی انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے جو اس کے لیے ربوبیت کا دسترخوان بچھایا گیا ہے اس میں سب سے پہلی چیز وہ زمین ہے جس پر اسے رہنا ہے۔ چناچہ اس زمین کو اس طرح کا بنایا گیا ہے کہ وہ آدمی کے لیے گہوارے کی طرح قرار و سکون کی جگہ بن گئی ہے۔ اس پر کوئی چلتا ہے تو انکار نہیں کرتی، کوئی لیٹتا ہے تو اس کی سختی اسے پریشان نہیں کرتی، اس کی مٹی اسے سکون کی دولت دیتی ہے، اسے کوئی پھاڑتا ہے تو اپنا سینہ نرم کردیتی ہے۔ اس کی تہ میں چھپے ہوئے خزانے اس کی تسخیری قوت کو دعوت دیتے ہیں، اس کے نیچے بہتا ہوا پانی کا سمندر اور زرسیال اس کی ضرورتوں کا خزانہ ہے۔ اور وہ ان سب چیزوں سے اس طرح فائدہ اٹھاتا ہے جیسے بچہ گہوارے میں ماں کے دودھ سے متمتع ہوتا ہے۔ دوسری آیت میں اسی زمین ہی کی حفاظت اور انسان کے لیے اسے محفوظ بنانے کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ وہ تمہارے سمیت کسی طرف لڑھک نہ جائے۔ اور تمہارے معمولات اور تمہارے آرام میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ جو رب اس زمین کے گہوارے میں اس اہتمام سے انسان کی پرورش کررہا ہے تو کیا یہ اس لیے ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اور کبھی ایسا دن نہ آئے جس میں اس سے بازپرس کی جائے، جس میں ان لوگوں کو انعام سے نوازا جائے جنھوں نے اپنے مقصد سے وفا کی۔ اور ان لوگوں کو سزا ملے جنھوں نے مقصد کو پامال کیا، اللہ تعالیٰ کی نا شکری اور نافرمانی کی۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔ یوں تو اس کی تشریح پہلے بھی ہوچکی ہے، یہاں اختصار سے اتنا عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت نے انسان کی صرف ضرورتیں ہی پوری نہیں کیں بلکہ اس کی تسکین کا سامان بھی کیا۔ اسے زمین جیسا گہوارہ اگر میسر آتا، لیکن اس کی تنہائی اس کے لیے زندگی اجیرن کردیتی، تو وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت سے کیا فائدہ اٹھاتا۔ اس لیے پروردگار نے جس فطرت اور جن احساسات کے ساتھ اسے پیدا کیا ہے اس کی تسکین کے لیے اس کی تنہائی کا علاج اسی کی جنس سے جوڑا بنا کر کیا۔ اور پھر حیرانی کی بات یہ ہے کہ مرد اور عورت بظاہر ضدین ہیں لیکن دونوں کی آپس میں ایسی گہری وابستگی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی تنہا اپنے مقصدتخلیق کو پورا نہیں کرسکتا۔ ان کے اندر ایسے ظاہری اور باطنی داعیات رکھے گئے ہیں کہ وہ الگ الگ کبھی اطمینان کی زندگی نہیں گزار سکتے۔ باہم مل کر رہنے ہی میں سکون و راحت پاتے اور ایک برتر مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ اور پھر یہ قدرت کا نظام کس قدر ہمہ گیر اور حیرت انگیز حد تک عادلانہ ہے کہ روئے زمین پر جہاں جہاں انسانی آبادی ہے وہاں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صرف مرد ہی پیدا ہوں یا صرف عورتیں ہی پیدا کی جائیں۔ یا ان کی تعداد میں تناسب کا خیال نہ کیا گیا ہو۔ ہر جگہ مرد اور عورت ایک تناسب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اور اس تناسب میں خفیف سا فرق ان حکمتوں کے پیش نظر ہے جن کا لحاظ صرف اسلام نے کیا ہے۔ اور باقی قومیں اس کا لحاظ نہ کرنے کی وجہ سے اخلاقی اعوارض کا شکار ہوگئی ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے نیند کو سبات بنایا، سبات کا معنی ہے کاٹنا یا مونڈنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل کام، مصروفیت اور بےآرامی انسان کی راحت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نیند کو اسی رکاوٹ کو دور کرنے کا ذریعہ بنایا۔ اس لیے سبات کا ترجمہ کیا جاتا ہے، دافعِ کلفت۔ یعنی جو چیزیں کلفت کا ذریعہ تھیں نیند انھیں ہٹا دیتی ہے اور راحت و آرام مہیا کرتی ہے۔ اس لیے بعض اہل علم نے اس کا ترجمہ راحت و سکون بھی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کیا ٹھکانہ ہے کہ اس نے صرف ایسا ہی نہیں کیا کہ نیند کو کلیۃً انسان کے اختیار پر چھوڑ دیا جاتا، کہ وہ چاہے تو سوئے، چاہے تو نہ سوئے۔ بلکہ نیند کو اس نے انسان کی فطرت میں ایک داعیہ کی حیثیت دی ہے کہ جب آدمی چند گھنٹے کے کام کے بعد تھک جاتا ہے تو نیند اسے مجبور کردیتی ہے کہ وہ چند گھنٹے آرام کرے۔ یہ گویا ایک ایسا خودکار انتظام ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی حکمت نے انسانوں کے جسموں میں ودیعت کیا ہے۔ اور اسے مزید مستحکم اور موثر بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رات کو تاریک پیدا فرمایا۔ کیونکہ روشنی میں آسانی سے سویا نہیں جاسکتا۔ نیند کا سکون حاصل کرنے کے لیے تاریکی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رات کو لباس قرار دیا، کہ جس طرح لباس آدمی کو اپنے اندر چھپا لیتا اور سکون و اطمینان بخشتا ہے، اسی طرح شب کی چادر بھی اس کو اپنے اندر چھپا لیتی ہے۔ اور وہ پردہ شب میں اس طرح محجوب ہوجاتا ہے کہ خلل انداز ہونے والی چیزوں سے محفوظ ہو کر سکون حاصل کرتا ہے اور اس کی قوت کارکردگی بحال ہوجاتی ہے۔ اور اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے دن کو معاش کی سرگرمیوں کا وقت بنایا، اور معاش کی دوڑ بھاگ کے لیے چونکہ روشنی کی ضرورت تھی اس لیے دن کو روشن بنایا۔ اور پھر یہ رات دن کا الٹ پھیر اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک ایسی نمود ہے کہ جس میں کبھی تخلف نہیں ہوتا۔ اس کے بیشمار فوائد ہیں، لیکن یہاں صرف اس کے ایک فائدے کا ذکر کیا گیا ہے۔ دن کی روشنی نے معیشت کی سرگرمیوں کے لیے آسانی پیدا کی۔ اور انسانی ضروریات اور اس کے مفادات کے حصول کو یقینی بنایا۔ اور رات کو سکون و اطمینان کا ذریعہ بنادیا۔ جو شخص بھی ان نشانیوں پر غور کرے گا اس میں بصیرت ہوگی تو وہ لازمی اس نتیجے پر پہنچے گا کہ یہ رات اور دن نہ ازخود چکر کھا رہے ہیں اور نہ ان کا یہ چکر بالکل بےغایت و بےمقصد ہے بلکہ ایک حکیم و قدیر پروردگار مخلوقات کی خدمت کے لیے ان کو اس سرگرمی کے ساتھ مصروف کیے ہوئے ہے تاکہ لوگ ان کی خدمت سے فائدہ اٹھائیں۔ اور جس نے یہ سب اہتمام کیا ہے اس کے شکرگزار ہوں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ربوبیت کے اس تمام اہتمام کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی جوابدہی کے لیے ایک دن آئے جس میں ہر شخص کا حساب ہو تاکہ نیک اپنے انعام سے محروم نہ رہیں اور برے لوگ اپنی برائی کے انجام سے بےفکر زندگی نہ گزاریں۔ اس کے بعد آسمان کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے یعنی زمین پر تم اللہ تعالیٰ کی جس طرح بیشمار نشانیاں دیکھتے ہو، اسی طرح اوپر کی طرف نظر اٹھا کے دیکھو تو تمہیں بیشمار نشانیاں نظر آئیں گی جن میں سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات محکم اور مضبوط آسمان بنائے۔ جس طرح زمین کے اندر پھیلی ہوئی نشانیوں کا ذکر کرنے سے پہلے خود زمین کو ایک بڑی نشانی کے طور پر ذکر فرمایا اسی طرح اوپر کی نشانیوں میں سے خود آسمان کو سب سے بڑی نشانی قرار دیا گیا ہے اور سب سے پہلے اسی کا ذکر فرمایا ہے۔ مضبوط اور محکم سے مراد شاید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کی سرحدیں نہایت مستحکم بنائیں۔ ان میں ذرہ بھر تغیروتبدل نہیں ہوپاتا۔ اور کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اس آسمان کے اوپر نہیں جاسکتی بلکہ اس کے نیچے بھی بہت سے ایسے منطقے ہیں جن میں کوئی قدم نہیں رکھ سکتا۔ پھر ان سرحدوں کے پار عالم بالا میں بیشمار ستارے اور سیارے ہیں جن میں سے کوئی آپس میں نہیں ٹکراتا۔ بیشمار شہاب ثاقب ٹوٹتے نظر آتے ہیں لیکن کوئی زمین پر نہیں گرتا۔ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کے لیے کبھی کوئی ایک آدھ کسی ملک میں گرا ہے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ منوں اور ٹنوں وزن رکھنے والے پتھر اگر بار بار اور بڑی تعداد میں زمین پر گرتے تو اہل زمین کیسے زندہ رہتے۔ وہ کیسا مستحکم نظام ہے کہ جس میں کروڑوں شہاب ثاقب زمین کی طرف لپکتے ہیں لیکن راستے میں بھسم کردیئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے آسمان میں ایک روشن چراغ رکھا ہے جس سے مراد سورج ہے۔ ” سراج “ کا معنی چراغ ہے۔ اس کی صفت ” وھاج “ لائی گئی ہے۔ اس کے معنی نہایت روشن بھی ہیں اور نہایت گرم بھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں خدمتیں اس کے سپرد کر رکھی ہیں کہ وہ کائنات کو روشنی بھی دیتا ہے اور گرمی بھی بہم پہنچاتا ہے۔ اگر یہ چراغ نہ ہوتا تو سارا عالم تیرہ و تار ہوتا۔ اور زمین کی ہر چیز یخ بستہ ہو کر رہ جاتی اور زمین پر زندگی ناممکن ہوجاتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا ایک عظیم الشان نشان ہے جس کا قطر زمین کے قطر سے ایک سو نو گنا اور اس کا حجم زمین کے حجم سے تین لاکھ تینتیس ہزار زیادہ بڑا ہے۔ اس کا درجہ حرارت ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل دور ہونے کے باوجود اس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ انسان اگر برہنہ آنکھ سے اس کی طرف نظر جمانے کی کوشش کرے تو اپنی بینائی کھو بیٹھے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی حکمت ہے کہ اس نے زمین کو اس سے ٹھیک فاصلے پر رکھا ہے کہ نہ اس سے بہت قریب ہونے کے باعث یہ بےانتہا گرم ہے اور نہ بہت دور ہونے کے باعث بےانتہا سخت۔ پھر زمین کا رخ سورج کی طرف بالکل سیدھا نہیں بلکہ تئیس درجے ایک طرف ہٹا ہوا ہے اور اسی وجہ سے موسموں کے تغیرات پیدا ہوتے اور بارشیں ہوتی ہیں۔ مزید فرمایا کہ ہم نے بادلوں سے موسلادھار پانی برسایا، یعنی لگاتار بارش کی۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بیشمار پہلو ہیں اور انسان کا علم اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ یہی حال بارشوں کے نظام کا بھی ہے۔ لیکن اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سورج ہی کی حرارت سے سمندروں کے پانی سے بھاپیں اٹھتی ہیں جو ہَوائوں کے ذریعے سے زمین کے مختلف حصوں میں پھیلتی ہیں اور بارش کی شکل میں برستی ہیں۔ پھر اس سے پروردگار زمین کو سیراب کرتا اور محض اپنی قدرت سے اس سیرابی کے نتیجے میں غلے، نباتات اور گھنے باغات اگاتا ہے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے خوان نعمت کی بیشمار جہتیں مکمل ہوجاتی ہیں۔ ان آیات میں بہت سے آثار و شواہد کو بیان کیا گیا ہے جن میں توحید کے اثبات، شرک کے ابطال اور قیامت اور آخرت کے امکان پر روشنی پڑتی ہے۔ انسان چونکہ زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے اور خلافتِ ارضی کی ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں اس لیے سب سے پہلے انسان کو زمین ہی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو کہ کس طرح ہم نے زمین کو تمہارے لیے گہوارہ بنایا، بچھونے کی طرح بچھا دیا، پہاڑوں کی میخیں گاڑ کر اس کی طنابیں کھینچ دیں اور پھر روشنی کے سامان کے لیے سورج جیسا چراغ روشن کردیا۔ تمہارے چولہے جلانے، غلہ اور پھل پکانے کے لیے سورج کی گرمی مہیا کی۔ تمہاری غذائی ضرورتوں کے لیے زمین میں قوت روئیدگی رکھی اور بارش کے ذریعے اس کی سیرابی کا انتظام کیا اور اس میں تمہارے لیے غلے اگائے، نباتات پیدا کیں اور گھنے باغات اگادیئے۔ اس طرح سے ربوبیت کا دسترخوان بچھایا گیا اور نہایت اہتمام کے ساتھ تمہاری نمود و پرداخت اور تربیت کا انتظام کیا گیا۔ پھر اس نے رات اور دن کے اختلاف سے تمہارے لیے معاشی ہما ہمی کا سامان بھی کیا اور مصروفیات سے تھکاوٹ کے بعد قوت کارکردگی کی بحالی کے لیے نیند جیسی نعمت بھی عطا کی۔ سوال یہ ہے کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ اس اہتمام سے پال پوس رہا ہے اور حیرت انگیز طریقے سے اس کو نہایت خوبصورت وجود ہی نہیں دیا بلکہ اس کی تمام ضرورتیں بھی پوری کی گئی ہیں حتیٰ کہ اسے حواس اور عقل عطا کیے اور شعور جیسی نعمت دی، کام کرنے کی آزادی سے نوازا، قوت فیصلہ سے بہرہ ور فرمایا۔ کیا کوئی شخص یہ باور کرسکتا ہے کہ ان تمام نعمتوں کا عطا کرنے والا زبردست قدرت نہیں رکھتا اور اس کی قدرت میں کوئی ایسی کمزوری ہے کہ یہ کہا جاسکے کہ وہ فلاں کام نہیں کرسکتا، یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں مختلف دیوتائوں کی حکومت ہے، کسی ایک بڑی ذات کی نہیں جو ان تمام کی خالق ومالک ہے۔ اگر یہاں مختلف دیوتائوں کی کارفرمائی ہوتی تو کوئی ایک مخلوق بھی اپنی معراج کو نہ پہنچتی، کوئی ایک فیصلہ بھی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکتا۔ مزید یہ کہ جس انسان کو ایسی عظیم نعمتوں سے نوازا گیا ہے کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اور اسے جو بیشمار مخلوقات پر تصرف کے اختیارات دیئے گئے ہیں ان کی کوئی بازپرس نہ ہو۔ اور انسان کے اعمال میں خیر و شر کی کوئی تمیز نہ ہو۔ ان میں سے جو شخص بھلائی کے کام کرے وہ بھی ایک دن مٹی میں مل کر ختم ہوجائے۔ اور جو برائی کے کام کرے اس کا انجام بھی ایسا ہی ہو۔ ظاہر ہے کہ کوئی بےعقل آدمی ہی ایسی بات کہہ سکتا ہے ورنہ ان میں سے ہر نشانی اور ہر امرواقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک اور متصرف بھی ایک ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے جس طرح سورج، چاند، ستاروں کو بےمقصد نہیں بنایا، اسی طرح انسان کی زندگی کا بھی ایک مقصد ہے۔ اس کے لیے یقینا کوئی ایسا انتظام ہونا چاہیے جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس نے اپنی زندگی مقصد کے مطابق گزاری ہے یا مقصد کی مخالفت میں۔ اسی کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بیشک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے۔ یعنی ہم نے یہ دیکھنے کے لیے کہ کن لوگوں نے ہماری شکرگزاری کی اور فرمانبرداری میں زندگی گزاری اور کن لوگوں نے کفرانِ نعمت کیا اور نافرمانی میں زندگی بسر کی۔ اس کے لیے ہم نے فیصلے کا ایک دن مقرر کردیا ہے۔
Top