Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Naba : 6
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًاۙ
اَ لَمْ
: کیا نہیں
نَجْعَلِ
: ہم نے بنایا
الْاَرْضَ
: زمین کو
مِهٰدًا
: فرش
کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو گہوارہ بنایا
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا۔ وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔ وَّخَلَقْنٰـکُمْ اَزْوَاجًا۔ وَّجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا۔ وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا۔ وَّجَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا۔ وَّبَنَیْنَا فَوْقَـکُمْ سَبْعًا شِدَادًا۔ وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَّاجًا۔ وَّاَنْزَلْـنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَـآئً ثَجَّاجًا۔ لِّـنُخْرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّ نَبَا تًا۔ وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا۔ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا۔ (النبا : 6 تا 17) (کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو گہوارہ بنایا۔ اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔ اور تم کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔ اور ہم نے تمہاری نیند کو دافعِ کلفت بنایا۔ اور رات کو تمہارے لیے پردہ پوش بنایا۔ اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔ اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے۔ اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا۔ اور پانی سے لبریز بدلیوں سے ہم نے موسلادھار بارش نازل کی۔ تاکہ اس کے ذریعے سے اگائیں غلہ اور نباتات۔ اور گھنے باغ۔ بیشک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے۔ ) قیامت اور بعض دیگر حقائق پر آیات ربوبیت سے استدلال ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کے چند آثار کے ذریعے بعض حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مقصود یہ ہے کہ جو شخص بھی کائنات کے ان آثار پر غور کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کو دیکھے گا اگر وہ عقل کی سلامتی اور فطرت کی سادگی سے تہی دامن نہیں ہوا تو یقینا اسے قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی قدرت دکھائی دے گی۔ جابجا اس کی رحمت کی پرچھائیں نظر آئیں گی۔ وہ محسوس کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے اور اس کی ہر تخلیق کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت نظر آتی ہے۔ پھر وہ ربوبیت کے وسیع نظام کو ہر طرف پھیلا ہوا دیکھے گا۔ تو آخر اسے اس بات کا یقین کرنا پڑے گا کہ اس کائنات کا نظام چلانے والی ایک تنہا ذات ہے جس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں۔ اس کی ربوبیت کے دسترخوان سے ہر مخلوق متمتع ہورہی ہے۔ اور ان میں حضرت انسان کو خصوصی صلاحیتیں دے کر اہم حیثیت عطا کی گئی ہے۔ اسے جو بیشمار نعمتیں بخشی گئی ہیں ان تمام کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ انسان کی جسمانی، معنوی اور روحانی مقاصد کے لیے اسباب و ذرائع کے طور پر کام آئیں تاکہ اسے اپنے فیصلوں کو بروئے کار لانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اس طرح سے ہر چیز کا ایک مقصد مقرر کردیا گیا ہے اور خود انسان کی زندگی بھی مقصد کے ساتھ مکلف کردی گئی ہے۔ اور اسی پر اس کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار رکھا ہے۔ جو بھی اس صورتحال کو دیکھے گا اس میں یہ احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ایک مخلوق کو غیرمعمولی صلاحیتوں کا عطا کیا جانا، پھر اسے اختیارات کا ملنا، اس کو فیصلے کرنے کی آزادی دینا اور اس کو ایسے اختیارات بہم پہنچانا جس سے وہ اپنے ارادوں کی تکمیل کرسکے، یقینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ سب کچھ بےحکمت و بےمقصد نہیں، یقینا ایک ایسا دن آئے گا جب انسان کو دوبارہ اٹھایا جائے گا اور اس سے اس مقصد کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اس نے اپنی زندگی اس مقصد کے مطابق گزاری یا اس کی مخالفت میں۔ ان آیات میں یہی حقیقت ہے جو نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان فرمائی گئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل بھی ہیں، اس کی حکمت کے جلوے بھی ہیں، انسان کی بامقصد زندگی کی طرف اشارے بھی ہیں اور آخر میں اسی مقصد کے حوالے سے جواب طلبی کے لیے ایک مقررہ دن کی خبر بھی ہے۔ اس میں سب سے پہلے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے زمین کو گہوارہ اور فرش بنایا ہے۔ یعنی انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے جو اس کے لیے ربوبیت کا دسترخوان بچھایا گیا ہے اس میں سب سے پہلی چیز وہ زمین ہے جس پر اسے رہنا ہے۔ چناچہ اس زمین کو اس طرح کا بنایا گیا ہے کہ وہ آدمی کے لیے گہوارے کی طرح قرار و سکون کی جگہ بن گئی ہے۔ اس پر کوئی چلتا ہے تو انکار نہیں کرتی، کوئی لیٹتا ہے تو اس کی سختی اسے پریشان نہیں کرتی، اس کی مٹی اسے سکون کی دولت دیتی ہے، اسے کوئی پھاڑتا ہے تو اپنا سینہ نرم کردیتی ہے۔ اس کی تہ میں چھپے ہوئے خزانے اس کی تسخیری قوت کو دعوت دیتے ہیں، اس کے نیچے بہتا ہوا پانی کا سمندر اور زرسیال اس کی ضرورتوں کا خزانہ ہے۔ اور وہ ان سب چیزوں سے اس طرح فائدہ اٹھاتا ہے جیسے بچہ گہوارے میں ماں کے دودھ سے متمتع ہوتا ہے۔ دوسری آیت میں اسی زمین ہی کی حفاظت اور انسان کے لیے اسے محفوظ بنانے کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ وہ تمہارے سمیت کسی طرف لڑھک نہ جائے۔ اور تمہارے معمولات اور تمہارے آرام میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ جو رب اس زمین کے گہوارے میں اس اہتمام سے انسان کی پرورش کررہا ہے تو کیا یہ اس لیے ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اور کبھی ایسا دن نہ آئے جس میں اس سے بازپرس کی جائے، جس میں ان لوگوں کو انعام سے نوازا جائے جنھوں نے اپنے مقصد سے وفا کی۔ اور ان لوگوں کو سزا ملے جنھوں نے مقصد کو پامال کیا، اللہ تعالیٰ کی نا شکری اور نافرمانی کی۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔ یوں تو اس کی تشریح پہلے بھی ہوچکی ہے، یہاں اختصار سے اتنا عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت نے انسان کی صرف ضرورتیں ہی پوری نہیں کیں بلکہ اس کی تسکین کا سامان بھی کیا۔ اسے زمین جیسا گہوارہ اگر میسر آتا، لیکن اس کی تنہائی اس کے لیے زندگی اجیرن کردیتی، تو وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت سے کیا فائدہ اٹھاتا۔ اس لیے پروردگار نے جس فطرت اور جن احساسات کے ساتھ اسے پیدا کیا ہے اس کی تسکین کے لیے اس کی تنہائی کا علاج اسی کی جنس سے جوڑا بنا کر کیا۔ اور پھر حیرانی کی بات یہ ہے کہ مرد اور عورت بظاہر ضدین ہیں لیکن دونوں کی آپس میں ایسی گہری وابستگی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی تنہا اپنے مقصدتخلیق کو پورا نہیں کرسکتا۔ ان کے اندر ایسے ظاہری اور باطنی داعیات رکھے گئے ہیں کہ وہ الگ الگ کبھی اطمینان کی زندگی نہیں گزار سکتے۔ باہم مل کر رہنے ہی میں سکون و راحت پاتے اور ایک برتر مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ اور پھر یہ قدرت کا نظام کس قدر ہمہ گیر اور حیرت انگیز حد تک عادلانہ ہے کہ روئے زمین پر جہاں جہاں انسانی آبادی ہے وہاں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صرف مرد ہی پیدا ہوں یا صرف عورتیں ہی پیدا کی جائیں۔ یا ان کی تعداد میں تناسب کا خیال نہ کیا گیا ہو۔ ہر جگہ مرد اور عورت ایک تناسب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اور اس تناسب میں خفیف سا فرق ان حکمتوں کے پیش نظر ہے جن کا لحاظ صرف اسلام نے کیا ہے۔ اور باقی قومیں اس کا لحاظ نہ کرنے کی وجہ سے اخلاقی اعوارض کا شکار ہوگئی ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے نیند کو سبات بنایا، سبات کا معنی ہے کاٹنا یا مونڈنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل کام، مصروفیت اور بےآرامی انسان کی راحت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نیند کو اسی رکاوٹ کو دور کرنے کا ذریعہ بنایا۔ اس لیے سبات کا ترجمہ کیا جاتا ہے، دافعِ کلفت۔ یعنی جو چیزیں کلفت کا ذریعہ تھیں نیند انھیں ہٹا دیتی ہے اور راحت و آرام مہیا کرتی ہے۔ اس لیے بعض اہل علم نے اس کا ترجمہ راحت و سکون بھی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کیا ٹھکانہ ہے کہ اس نے صرف ایسا ہی نہیں کیا کہ نیند کو کلیۃً انسان کے اختیار پر چھوڑ دیا جاتا، کہ وہ چاہے تو سوئے، چاہے تو نہ سوئے۔ بلکہ نیند کو اس نے انسان کی فطرت میں ایک داعیہ کی حیثیت دی ہے کہ جب آدمی چند گھنٹے کے کام کے بعد تھک جاتا ہے تو نیند اسے مجبور کردیتی ہے کہ وہ چند گھنٹے آرام کرے۔ یہ گویا ایک ایسا خودکار انتظام ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی حکمت نے انسانوں کے جسموں میں ودیعت کیا ہے۔ اور اسے مزید مستحکم اور موثر بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رات کو تاریک پیدا فرمایا۔ کیونکہ روشنی میں آسانی سے سویا نہیں جاسکتا۔ نیند کا سکون حاصل کرنے کے لیے تاریکی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رات کو لباس قرار دیا، کہ جس طرح لباس آدمی کو اپنے اندر چھپا لیتا اور سکون و اطمینان بخشتا ہے، اسی طرح شب کی چادر بھی اس کو اپنے اندر چھپا لیتی ہے۔ اور وہ پردہ شب میں اس طرح محجوب ہوجاتا ہے کہ خلل انداز ہونے والی چیزوں سے محفوظ ہو کر سکون حاصل کرتا ہے اور اس کی قوت کارکردگی بحال ہوجاتی ہے۔ اور اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے دن کو معاش کی سرگرمیوں کا وقت بنایا، اور معاش کی دوڑ بھاگ کے لیے چونکہ روشنی کی ضرورت تھی اس لیے دن کو روشن بنایا۔ اور پھر یہ رات دن کا الٹ پھیر اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک ایسی نمود ہے کہ جس میں کبھی تخلف نہیں ہوتا۔ اس کے بیشمار فوائد ہیں، لیکن یہاں صرف اس کے ایک فائدے کا ذکر کیا گیا ہے۔ دن کی روشنی نے معیشت کی سرگرمیوں کے لیے آسانی پیدا کی۔ اور انسانی ضروریات اور اس کے مفادات کے حصول کو یقینی بنایا۔ اور رات کو سکون و اطمینان کا ذریعہ بنادیا۔ جو شخص بھی ان نشانیوں پر غور کرے گا اس میں بصیرت ہوگی تو وہ لازمی اس نتیجے پر پہنچے گا کہ یہ رات اور دن نہ ازخود چکر کھا رہے ہیں اور نہ ان کا یہ چکر بالکل بےغایت و بےمقصد ہے بلکہ ایک حکیم و قدیر پروردگار مخلوقات کی خدمت کے لیے ان کو اس سرگرمی کے ساتھ مصروف کیے ہوئے ہے تاکہ لوگ ان کی خدمت سے فائدہ اٹھائیں۔ اور جس نے یہ سب اہتمام کیا ہے اس کے شکرگزار ہوں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ربوبیت کے اس تمام اہتمام کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی جوابدہی کے لیے ایک دن آئے جس میں ہر شخص کا حساب ہو تاکہ نیک اپنے انعام سے محروم نہ رہیں اور برے لوگ اپنی برائی کے انجام سے بےفکر زندگی نہ گزاریں۔ اس کے بعد آسمان کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے یعنی زمین پر تم اللہ تعالیٰ کی جس طرح بیشمار نشانیاں دیکھتے ہو، اسی طرح اوپر کی طرف نظر اٹھا کے دیکھو تو تمہیں بیشمار نشانیاں نظر آئیں گی جن میں سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات محکم اور مضبوط آسمان بنائے۔ جس طرح زمین کے اندر پھیلی ہوئی نشانیوں کا ذکر کرنے سے پہلے خود زمین کو ایک بڑی نشانی کے طور پر ذکر فرمایا اسی طرح اوپر کی نشانیوں میں سے خود آسمان کو سب سے بڑی نشانی قرار دیا گیا ہے اور سب سے پہلے اسی کا ذکر فرمایا ہے۔ مضبوط اور محکم سے مراد شاید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کی سرحدیں نہایت مستحکم بنائیں۔ ان میں ذرہ بھر تغیروتبدل نہیں ہوپاتا۔ اور کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اس آسمان کے اوپر نہیں جاسکتی بلکہ اس کے نیچے بھی بہت سے ایسے منطقے ہیں جن میں کوئی قدم نہیں رکھ سکتا۔ پھر ان سرحدوں کے پار عالم بالا میں بیشمار ستارے اور سیارے ہیں جن میں سے کوئی آپس میں نہیں ٹکراتا۔ بیشمار شہاب ثاقب ٹوٹتے نظر آتے ہیں لیکن کوئی زمین پر نہیں گرتا۔ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کے لیے کبھی کوئی ایک آدھ کسی ملک میں گرا ہے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ منوں اور ٹنوں وزن رکھنے والے پتھر اگر بار بار اور بڑی تعداد میں زمین پر گرتے تو اہل زمین کیسے زندہ رہتے۔ وہ کیسا مستحکم نظام ہے کہ جس میں کروڑوں شہاب ثاقب زمین کی طرف لپکتے ہیں لیکن راستے میں بھسم کردیئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے آسمان میں ایک روشن چراغ رکھا ہے جس سے مراد سورج ہے۔ ” سراج “ کا معنی چراغ ہے۔ اس کی صفت ” وھاج “ لائی گئی ہے۔ اس کے معنی نہایت روشن بھی ہیں اور نہایت گرم بھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں خدمتیں اس کے سپرد کر رکھی ہیں کہ وہ کائنات کو روشنی بھی دیتا ہے اور گرمی بھی بہم پہنچاتا ہے۔ اگر یہ چراغ نہ ہوتا تو سارا عالم تیرہ و تار ہوتا۔ اور زمین کی ہر چیز یخ بستہ ہو کر رہ جاتی اور زمین پر زندگی ناممکن ہوجاتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا ایک عظیم الشان نشان ہے جس کا قطر زمین کے قطر سے ایک سو نو گنا اور اس کا حجم زمین کے حجم سے تین لاکھ تینتیس ہزار زیادہ بڑا ہے۔ اس کا درجہ حرارت ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل دور ہونے کے باوجود اس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ انسان اگر برہنہ آنکھ سے اس کی طرف نظر جمانے کی کوشش کرے تو اپنی بینائی کھو بیٹھے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی حکمت ہے کہ اس نے زمین کو اس سے ٹھیک فاصلے پر رکھا ہے کہ نہ اس سے بہت قریب ہونے کے باعث یہ بےانتہا گرم ہے اور نہ بہت دور ہونے کے باعث بےانتہا سخت۔ پھر زمین کا رخ سورج کی طرف بالکل سیدھا نہیں بلکہ تئیس درجے ایک طرف ہٹا ہوا ہے اور اسی وجہ سے موسموں کے تغیرات پیدا ہوتے اور بارشیں ہوتی ہیں۔ مزید فرمایا کہ ہم نے بادلوں سے موسلادھار پانی برسایا، یعنی لگاتار بارش کی۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بیشمار پہلو ہیں اور انسان کا علم اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ یہی حال بارشوں کے نظام کا بھی ہے۔ لیکن اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سورج ہی کی حرارت سے سمندروں کے پانی سے بھاپیں اٹھتی ہیں جو ہَوائوں کے ذریعے سے زمین کے مختلف حصوں میں پھیلتی ہیں اور بارش کی شکل میں برستی ہیں۔ پھر اس سے پروردگار زمین کو سیراب کرتا اور محض اپنی قدرت سے اس سیرابی کے نتیجے میں غلے، نباتات اور گھنے باغات اگاتا ہے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے خوان نعمت کی بیشمار جہتیں مکمل ہوجاتی ہیں۔ ان آیات میں بہت سے آثار و شواہد کو بیان کیا گیا ہے جن میں توحید کے اثبات، شرک کے ابطال اور قیامت اور آخرت کے امکان پر روشنی پڑتی ہے۔ انسان چونکہ زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے اور خلافتِ ارضی کی ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں اس لیے سب سے پہلے انسان کو زمین ہی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو کہ کس طرح ہم نے زمین کو تمہارے لیے گہوارہ بنایا، بچھونے کی طرح بچھا دیا، پہاڑوں کی میخیں گاڑ کر اس کی طنابیں کھینچ دیں اور پھر روشنی کے سامان کے لیے سورج جیسا چراغ روشن کردیا۔ تمہارے چولہے جلانے، غلہ اور پھل پکانے کے لیے سورج کی گرمی مہیا کی۔ تمہاری غذائی ضرورتوں کے لیے زمین میں قوت روئیدگی رکھی اور بارش کے ذریعے اس کی سیرابی کا انتظام کیا اور اس میں تمہارے لیے غلے اگائے، نباتات پیدا کیں اور گھنے باغات اگادیئے۔ اس طرح سے ربوبیت کا دسترخوان بچھایا گیا اور نہایت اہتمام کے ساتھ تمہاری نمود و پرداخت اور تربیت کا انتظام کیا گیا۔ پھر اس نے رات اور دن کے اختلاف سے تمہارے لیے معاشی ہما ہمی کا سامان بھی کیا اور مصروفیات سے تھکاوٹ کے بعد قوت کارکردگی کی بحالی کے لیے نیند جیسی نعمت بھی عطا کی۔ سوال یہ ہے کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ اس اہتمام سے پال پوس رہا ہے اور حیرت انگیز طریقے سے اس کو نہایت خوبصورت وجود ہی نہیں دیا بلکہ اس کی تمام ضرورتیں بھی پوری کی گئی ہیں حتیٰ کہ اسے حواس اور عقل عطا کیے اور شعور جیسی نعمت دی، کام کرنے کی آزادی سے نوازا، قوت فیصلہ سے بہرہ ور فرمایا۔ کیا کوئی شخص یہ باور کرسکتا ہے کہ ان تمام نعمتوں کا عطا کرنے والا زبردست قدرت نہیں رکھتا اور اس کی قدرت میں کوئی ایسی کمزوری ہے کہ یہ کہا جاسکے کہ وہ فلاں کام نہیں کرسکتا، یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں مختلف دیوتائوں کی حکومت ہے، کسی ایک بڑی ذات کی نہیں جو ان تمام کی خالق ومالک ہے۔ اگر یہاں مختلف دیوتائوں کی کارفرمائی ہوتی تو کوئی ایک مخلوق بھی اپنی معراج کو نہ پہنچتی، کوئی ایک فیصلہ بھی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکتا۔ مزید یہ کہ جس انسان کو ایسی عظیم نعمتوں سے نوازا گیا ہے کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اور اسے جو بیشمار مخلوقات پر تصرف کے اختیارات دیئے گئے ہیں ان کی کوئی بازپرس نہ ہو۔ اور انسان کے اعمال میں خیر و شر کی کوئی تمیز نہ ہو۔ ان میں سے جو شخص بھلائی کے کام کرے وہ بھی ایک دن مٹی میں مل کر ختم ہوجائے۔ اور جو برائی کے کام کرے اس کا انجام بھی ایسا ہی ہو۔ ظاہر ہے کہ کوئی بےعقل آدمی ہی ایسی بات کہہ سکتا ہے ورنہ ان میں سے ہر نشانی اور ہر امرواقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک اور متصرف بھی ایک ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے جس طرح سورج، چاند، ستاروں کو بےمقصد نہیں بنایا، اسی طرح انسان کی زندگی کا بھی ایک مقصد ہے۔ اس کے لیے یقینا کوئی ایسا انتظام ہونا چاہیے جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس نے اپنی زندگی مقصد کے مطابق گزاری ہے یا مقصد کی مخالفت میں۔ اسی کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بیشک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے۔ یعنی ہم نے یہ دیکھنے کے لیے کہ کن لوگوں نے ہماری شکرگزاری کی اور فرمانبرداری میں زندگی گزاری اور کن لوگوں نے کفرانِ نعمت کیا اور نافرمانی میں زندگی بسر کی۔ اس کے لیے ہم نے فیصلے کا ایک دن مقرر کردیا ہے۔
Top