Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 11
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ
اِذْ : جب يُغَشِّيْكُمُ : تمہیں ڈھانپ لیا (طاری کردی) النُّعَاسَ : اونگھ اَمَنَةً : تسکین مِّنْهُ : اس سے وَيُنَزِّلُ : اور اتارا اس نے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لِّيُطَهِّرَكُمْ : تاکہ پاک کردے تمہیں بِهٖ : اس سے وَيُذْهِبَ : اور دور کردے عَنْكُمْ : تم سے رِجْزَ : پلیدی (ناپاکی) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَلِيَرْبِطَ : اور تاکہ باندھ دے (مضبوط کردے) عَلٰي : پر قُلُوْبِكُمْ : تمارے دل وَيُثَبِّتَ : اور جمادے بِهِ : اس سے الْاَقْدَامَ : قدم
اس وقت کو یاد کرو ! جب وہ تم پر نیند طاری کررہا تھا اپنی طرف سے چین دینیذ کے لیے اور اس نے تم پر آسمان سے پانی برسایا تاکہ اس سے تم کو پاکیزگی بخشے اور تم سے شیطان کی نجاست کو دور کردے اور تاکہ اس سے تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور قدموں کو جمائے
اِذْ یُغْشِیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآئً لِیُطَھِّرَ کُمْ بِہٖ ویُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَالشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ ۔ ط (الانفال : 11) (اس وقت کو یاد کرو ! جب وہ تم پر نیند طاری کررہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لیے اور اس نے تم پر آسمان سے پانی برسایا تاکہ اس سے تم کو پاکیزگی بخشے اور تم سے شیطان کی نجاست کو دور کردے اور تاکہ اس سے تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور قدموں کو جمائے۔ ) اللہ تعالیٰ کے مزید احسانات کا بدلہ اس آیت کریمہ میں پروردگار نے مسلمانوں پر اپنے مزید احسانات کا ذکر فرمایا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ مسلمان جب میدانِ بدر میں پہنچے تو کفار کا لشکر اس سے پہلے ایک ایسے مقام پر قبضہ کرچکا تھا جو نسبتاً بلندی پر تھا اور زمین اس کی سخت اور ہموار تھی۔ چناچہ مسلمانوں کو وادی کے نچلے حصے میں جگہ ملی جس کی تفصیل اس سورة کی بیالیسویں (42) آیت میں آرہی ہے۔ حضرت حباب بن منذر ( رض) نے اس جگہ کو جنگی اعتبار سے نامناسب دیکھ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! جو مقام آپ نے پسند فرمایا ہے یہ وحی الہٰی ہے یا جنگی حکمت عملی ہے ؟ آپ نے فرمایا : وحی نہیں۔ تو حضرت حباب بن منذر ( رض) نے عرض کیا تو پھر بہتر یہ ہے کہ اس سے آگے بڑھ کر قریش مکہ کے قریب ایسی جگہ پر قبضہ کیا جائے جس میں پانی بھی قریب ہو چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس مشورے کو پسند فرمایا اور آگے بڑھ کر پانی پر قبضہ کرلیا لیکن یہ جگہ بھی نشیبی اور ریتلی تھی جس میں پائوں دھنس دھنس جاتے تھے۔ مسلمان اس صورتحال کو دیکھ کر محسوس کررہے تھے کہ ہماری تعداد بھی دشمن کے مقابلے میں تشویش ناک حد تک کم ہے، وسائلِ جنگ نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس پر طرّہ یہ ہے کہ جگہ ایسی ملی ہے کہ جس میں چلنا پھرنا بھی دشوار ہے۔ ان تمام باتوں کو سوچ کر دلوں میں عجیب و غریب خیالات آتے تھے اور شیطان کو وسوسہ اندازی کا موقع ملتا تھا۔ اب اگر یہ خیالات طبیعت کی بےسکونی اور پریشانی کا سبب بنے رہتے تو نیند کسے آتی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا کہ صبح معرکہ کارزار میں مسلمان وہ کارکردگی نہ دکھاسکتے جس کی ان سے توقع کی جاسکتی تھی۔ چناچہ پروردگار نے ایسے دو احسانات فرمائے جس نے پوری صورتحال کو بدل ڈالا۔ پہلا احسان یہ کیا کہ طبیعتوں کو سکون دینے اور شیطان کی وسوسہ اندازی کو روکنے کے لیے مسلمانوں پر نیند طاری کردی۔ وہ رات کو بیشتر حصہ اطمینان کی نیند سوئے، تازہ دم ہو کر اٹھے تو طبیعت کا بوجھ ہلکا ہوچکا تھا کیونکہ انسانی کمزوری یہ ہے کہ وہ خالی پیٹ تو کسی حد تک لڑ سکتا ہے لیکن مسلسل بےآرامی جسم کو توڑ کر رکھ دیتی ہے، اعصاب جواب دینے لگتے ہیں۔ اس لیے آج کی ملٹری سائنس میں اس بات کی شدید کوشش کی جاتی ہے کہ دشمن پر اعصابی حملے کیے جائیں، افواہیں پھیلائی جائیں جس سے دشمن کی بےسکونی میں اضافہ ہو۔ راتوں کی نیند اچاٹ ہوجائے، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وقت سے پہلے ہی دشمن ہتھیار ڈال دے گا۔ اس لیے مدبر جرنیل اور ہمدرد حکومتیں ہمیشہ اپنی فوج اور اپنی قوم کو پرسکون رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ چناچہ پروردگار نے اسی لیے نیند کی صورت میں مسلمانوں پر بہت بڑا احسان کیا۔ حضرت علی ( رض) فرماتے ہیں کہ اس رات ہم میں سے ہر شخص خواہ وہ سونا چاہتا تھا یا نہیں ضرور نیند کی گرفت میں آیا اور جی بھر کر آرام کیا۔ نعاسکا مفہوم ممکن ہے کسی کو یہ خیال آئے کہ آیت میں ” نعاس “ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو عربی میں ” ابتدائی نیند “ یعنی اونگھ اور جھپکی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہنع اس کا لفظ مطلق نیند کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ” نوم “ کے معنی میں آتا ہے اور دوسری یہ بات کہ ایک ذمہ دار فوج جسے صبح ایک فیصلہ کن معرکہ میں اترنا ہے، اس کا ایک ایک سپاہی قوت کارکردگی کی بحالی کے لیے آرام کی خواہش تو ضرور رکھتا ہے لیکن گھوڑے بیچ کر سونا کبھی پسند نہیں کرتا۔ وہ سوتا ہے تو کھٹکے کی نیند سوتا ہے۔ اس لیے نعاس کے لفظ نے دونوں باتوں کی طرف اشارہ کردیا کہ مسلمانوں کو آرام اور چین بھی ملالیکن ذمہ داری کا احساس ان سے الگ بھی نہ ہوا۔ دوسرا احسان اللہ نے یہ فرمایا کہ بارش نازل فرمادی۔ لیکن اس کے لیے تعبیر یہ اختیار فرمائی کہ آسمان سے پانی اتارا۔ یہ نہایت دلنواز تعبیر ہے جس میں شائد اشارہ اس طرف ہے کہ اگر کفار قریش نے تمہیں زمین کے پانی سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے تو کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں آسمان سے پانی نازل فرمادیا اور نازل بھی اس طرح فرمایا جس طرح کہ روایات میں مذکور ہے کہ قریش کی طرف زور کی بارش اتری اور مسلمانوں کی طرف ہلکی ہلکی بارش نازل ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قریش کی طرف کی زمین کیچڑ کیچڑ ہوگئی جس سے پھسلن پیدا ہوگئی اور چلنا دشوار ہوگیا اور مسلمانوں کی زمین ریتلی ہونے کی وجہ سے جم گئی اور سخت ہو کر ہر طرح کی آمدورفت کے لیے آسان ہوگئی۔ مزید فائدہ یہ ہوا کہ کفار کی طرح پانی کی ضرورت مسلمانوں کے لیے صرف پینے کی حد تک نہیں تھی کیونکہ اسلام نے ان کے ذوق ورجحان پر جو اثرڈالا ہے اس کے نتیجے میں ان کی نئی اقدار وجود میں آئیں اور نئے پیمانے تشکیل پائے۔ پانی کی کمی ان کے لیے اس لیے پریشانی کا باعث تھی کہ نماز کے لیے وضو کیسے کریں، غسل واجب ہوا اس کا کیا کیا جائے گا، جسم کی طہارت جو روح کی پاکیزگی کا پیش خیمہ ہے پانی کے بغیر اگرچہ تیمم سے بھی ممکن ہے لیکن ہر آدمی یہ خواہش کرتا ہے کہ کاش پانی میسر آجائے تاکہ میں صحیح معنی میں پاکیزہ ہوسکوں اور یہ بھی امر واقعہ ہے کہ گندے جسم میں شیطان کو وسوسہ اندازی کا زیادہ موقعہ ملتا ہے۔ بارش ہوجانے کے بعد جب طہارت کی ساری ضرورتیں پوری ہوگئیں اور شیطانی وساوس کی گندگیاں دور ہوگئیں، نیند سے طبیعت کا بوجھ اترا، پانی نے اس فرحت اور مسرت میں اضافہ کیا، اس کے نتیجے میں دلوں کے حوصلے توانا ہوگئے اور قدموں میں استقلال آگیا۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ بارش کا ہوجانا ایک اتفاقی امر ہے۔ اتفاقات کو احسانات کا نام دینا عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اللہ کی سلطنت میں اتفاق کا کہیں گزر نہیں، اس کے قوانین اتنے مستحکم اور اس قدر حاوی ہیں کہ کوئی واقعہ اپنے طور پر وجود میں نہیں آسکتا اور جب ہم تاریخ کے جھروکوں میں نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہی اتفاقی واقعات تاریخ میں انقلاب کا ذریعہ بنے ہیں۔ نپولین کا ایک جرنیل واٹر لو کے میدان میں اگر سات منٹ دیر سے نہ پہنچتا تو نپولین کو جنگ میں شکست نہ ہوتی۔ اس شکست نے فرانس کی تاریخ بدل ڈالی اور یہ ثابت کردیا کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ” میرے لغت میں ناممکن کا لفظ نہیں۔ میں ہر بات کے ممکن کردینے پر قادر ہوں “ اس کے انجام کو دیکھئے جس کا سبب صرف بارش کا ایک واقعہ بنا۔ یہاں بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بارش کو جس طرح اللہ تعالیٰ نے بطور احسان کے ذکر فرمایا ہے اس نے حالات کی تشکیل میں کیسا کچھ رول ادا کیا ہوگا۔
Top