Mufradat-ul-Quran - Al-Anfaal : 64
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی حَسْبُكَ : کافی ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ وَمَنِ : اور جو اتَّبَعَكَ : تمہارے پیرو ہیں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اے نبی ! کافی ہے آپ کے لیے اللہ اور وہ مومن جو آپ کے پیروکار ہیں۔
یٰٓاَیُّھَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ ع (اے نبی ! کافی ہے آپ کے لیے اللہ اور وہ مومن جو آپ کے پیروکار ہیں۔ ) سیاقِ کلام کے اعتبار سے آیت کا مفہوم پہلی آیت کریمہ کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں ایک تو وہ جو ہم نے آیت کے نیچے لکھا ہے اور دوسرا یہ کہ (اے نبی ! اللہ آپ کو کافی ہے اور آپ کے پیروکار مومنوں کے لیے کافی ہے ) ان دونوں میں معنویت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں لیکن سیاق کلام کے اعتبار سے پہلا معنی زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ آیت نمبر 61 میں فرمایا گیا ہے : اے نبی ! اگر دشمن آپ کے ساتھ دھوکہ کرنے کی کوشش کرے تو آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہرحال میں اللہ آپ کے لیے کافی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جنگ بدر میں اس نے اپنی نصرت سے آپ کی تائید کی یعنی آسمان سے فرشتے بھیجے اور دوسرا ان قلیل اور غیر مسلح مسلمانوں سے آپ کی مدد کرائی جو اپنے بچائو کے لیے بھی کافی نہ تھے انھیں دیکھ کر کوئی اندازہ نہ کرسکتا تھا کہ یہ کسی بڑی فوج کا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت سے ان کے دلوں میں وہ اعتماد وہ حوصلہ اور وہ طاقت بھر دی کہ وہ اپنے سے کئی گنا بڑی فوج سے اس طرح ٹکراگئے کہ ان کا بھرکس نکال کر رکھ دیانہ وہ ان کی تعداد سے مرعوب ہوئے اور نہ ان کی اسلحی قوت سے اثر قبول کیا۔ ان کا یہ حیران کن کارنامہ اور ان کی جسارت و استقامت ان کے اپنے ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سراسر اللہ کی عطا اور توفیق ہے جس نے ممولوں کو شہباز کی طاقت عطا فرمادی اور ان میں ایسی وفاشعاری اور جاں سپاری کا جوہر بھر دیا کہ وہ ہر وقت اور ہر میدان میں نبی کریم ﷺ کی حفاظت اور آپ کے مشن کی تکمیل کے لیے ہر قربانی کے لیے آمادہ ہیں۔ جس طرح فرشتے اللہ ہی کے حکم اور مدد سے اس کے بندوں کی مدد کرتے ہیں اسی طرح یہ مسلمان بھی اللہ ہی کی توفیق سے آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب ہیں اور کسی بھی طوفان سے لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اسی مقصد کے لیے تیار کیا ہے۔ چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں اسی بات کو دوسرے اسلوب سے ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تو ہمیشہ اپنے نبیوں اور اپنے بندوں کے لیے کافی ہوتاہی ہے لیکن وہ جب چاہتا ہے تو اس پر ایمان لانے والوں کو بھی ایسی قوت میں تبدیل کردیتا ہے اور ایسے عزائم سے آشنا کردیتا ہے کہ وہ بھی اللہ کی تائید ونصرت کی شکل میں پیغمبر کے لیے کافی ہوجاتے ہیں۔ وہ تعداد میں تھوڑے اور غیر مسلح بھی ہوں تب بھی وہ فیصلہ کن قوت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
Top