Tafseer-e-Saadi - An-Naml : 108
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِیْنَ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ اللّٰهِ : اللہ کی آیات نَتْلُوْھَا : ہم پڑھتے ہیں وہ عَلَيْكَ : آپ پر بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَمَا اللّٰهُ : اور نہیں اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ظُلْمًا : کوئی ظلم لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہان والوں کے لیے
یہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو صحت کے ساتھ پڑھ کر سناتے ہیں اور خدا اہل عالم پر ظلم نہیں کرنا چاہتا
آیت 108 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے حالات بیان فرمائے ہیں۔ اس دن عدل اور فضل کی بنیاد پر ملنے والی جزا و سزا کے اثرات بیان فرمائے ہیں۔ اس بیان کا مقصد ترغیب و ترہیب ہے۔ جس کا فائدہ خوف اور امید کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یوم تبیض وجوہ) ” جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے “ وہ خوش نصیبوں اور نیکی کرنے والوں کے چہرے ہوں گے، جنہوں نے آپس میں الفت و محبت رکھی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ( وتسود وجوہ) ” اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے “ وہ بدنصیبوں اور بدکاروں کے چہرے ہیں گے، جو اختلاف و اتفراق پیدا کرنے والے تھے۔ ذلت و رسوائی کی وجہ سے ان کے دلوں کی جو کیفیت ہوگی، اس کے نتیجے میں ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔ اور نیک لوگوں کو نعمتیں اور خوشیاں نصیب ہوں گی، ان کے اثرات ان کے چہروں پر ظاہر ہوں گے اور ان کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ولقھم نضرۃ وسروراً ) (الدھر :11/86) ” اور انہیں تازگی اور خوشی پہنچائی “ ترو تازہ ہونے کا تعلق چہروں سے ہے، اور خوشی دلوں میں ہوتی ہے۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہے : (والذین کسبوا السیات جزآء سیءۃ بمثلھا وترھقھم ذلۃ مالھم من اللہ من عاصم کانما اغشیت وجوھھم قطعاً من الیل مظلماً اولئک اصحب النارھم فیھا خلدون) (یونس :28/1) ” جنہوں نے گناہ کمائے تو ہر برائی کا بدلہ اس کے برابر ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ انہیں اللہ سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ یوں ہوگا گویا ان کے چہروں پر رات کے تاریک ٹکڑے اوڑھا دیئے گئے ہیں۔ یہی لوگ آگ والے ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ (فاما الذین اسودت وجوھم) ” اور جن کے چہرے سیاہ ہوں گے “ انہیں ڈانٹ ڈپٹ اور زجر و توبیخ کے انداز سے کہا جائے گا : (اکفرتم بعد ایمانکم) ” کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا “ یعنی تم نے ہدایت اور ایمان کے بجائے کفر و ضلالت کو کیوں ترجیح دی ؟ تم نے ہدایت والا راستہ چھوڑ کر گمرایہ کا راستہ کیوں اختیار کیا ؟ (قذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون) اب ” اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو “ تمہارے لائق صرف جہنم کا مقام ہے تم صرف ذلت و رسوائی کے مستحق ہو (واما الذین ابیضت وجوھھم ) ” اور جن کے چہرے سفید ہوں گے “ انہیں مبارک باد دی جائے گی اور عظیم ترین بشارت ملے گی۔ یعنی انہیں جنت میں داخلے کی، رب کی خوشنودی کی اور اس کی رحمت کی خوش خبری دی جائے گی۔ (فقی رحمتۃ اللہ ھم فیھا خلدون) ” وہ اللہ کی رحمت میں داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے “ چونکہ وہ ہمیشہ رحمت میں رہیں گے اور جنت بھی اللہ کی رحمت کا ایک مظہر ہے۔ لہٰذا وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے جس میں دائمی نعمتیں اور سلامتی والی زندگی ہوگی۔ وہ ارحم الراحمین کے پڑوس میں ہوں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے احکام واوامر بھی بتا دیئے اور ان کی جزا بھی بیان فرما دی، تو اس کے بعد فرمایا : (تلک ایت اللہ نتلوھا علیک بالحق) ” یہ اللہ کی آیتیں ہیں، جو ہم آپ کو ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں “ کیونکہ اس کے اوامرو نواہی حکمت و رحمت پر اور جزا و سزا پر مشتمل ہیں۔ اس طرح وہ حکمت و رحمت پر اور عدل پر مشتمل ہیں جن میں ظلم کا کوئی شائبہ نہیں “ اس لئے فرمایا : (وما اللہ یرید ظلما للعلمین) ” اور اللہ کا ارادہ لوگوں پر ظلم کرنے کا نہیں “ ظلم کرنا تو بہت دور کی بات ہے، اللہ تعالیٰ ظلم کا ارادہ بھی نہیں فرماتا۔ لہٰذا کسی کی نیکیوں میں کمی نہیں کرتا، اور ظالموں کے ظلم میں اضافہ نہیں فرماتا، بلکہ صرف ان کے کئے ہوئے اعمال کی سزا دیتا ہے۔
Top