Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا
: اور جب
ضَرَبْتُمْ
: تم سفر کرو
فِي الْاَرْضِ
: ملک میں
فَلَيْسَ
: پس نہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
جُنَاحٌ
: کوئی گناہ
اَنْ
: کہ
تَقْصُرُوْا
: قصر کرو
مِنَ
: سے
الصَّلٰوةِ
: نماز
اِنْ
: اگر
خِفْتُمْ
: تم کو ڈر ہو
اَنْ
: کہ
يَّفْتِنَكُمُ
: تمہیں ستائیں گے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر)
اِنَّ
: بیشک
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
كَانُوْا
: ہیں
لَكُمْ
: تمہارے
عَدُوًّا مُّبِيْنًا
: دشمن کھلے
اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
آیت 101 یہ دو آیات کریمہ سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت اور نماز خوف کے لئے اصل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : (واذا ضربتم فی الارض) ” جب چلو تم زمین میں “ یعنی سفر کے دوران آیت کریمہ کا ظاہر سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت کا تقاضا کرتا ہے سفر خواہ کیسا ہی ہ، خواہ معصیت کا سفر ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے۔ جمہور فقہاء یعنی ائمہ ثلاثہ اور دیگر اہل علم آیت کے معنی اور مناسبت کے اعتبار سے آیت کے عموم کی تخصیص کرتے ہوئے معصیت کے سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ کیونکہ رخصت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے سہولت ہے کہ جب وہ سفر کریں تو نماز میں قصر کرلیا کریں اور روزہ چھوڑ دیا کریں۔ یہ تخفیف گناہ کا سفر کرنے والے شخص کے حال سے مناسبت نہیں رکھتی۔ (فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ) ” تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں “ یعنی تم پر کوئی حرج اور گناہ نہیں۔ یہ چیز قصر کے افضل ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ میں مذکورہ نفی حرج اس وہم کا ازالہ کرتی ہے جو بہت سے نفوس میں واقع ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تو نماز قصر کے واجب ہونے کے بھی منفای نہیں جیسا کہ اس کی نظیر سورة بقرہ کی اس آیت میں گزر چکی ہے (ان الصفا والمروۃ من شعآئر اللہ) (البقرہ :108/2) ” صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔۔۔ آیت کے آخر تک “ اس مقام پر وہم کا ازالہ ظاہر ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہاں نماز کا وجوب اس کی اس کامل صفت کے ساتھ متحقق ہے اور یہ وہم اکثر نفوس سے اس وقت تک زائل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس امر کا ذکر نہ کیا جائے جو اس کے منافی ہے۔ اتمام پر قصر کی افضیلت کو دو امور ثابت کرتے ہیں۔ اول : رسول اللہ ﷺ کا اپنے تمام سفروں کے دوران میں قصر کا التزام کرنا۔ ثانی :۔ قصر، بندوں کے لئے وسعت، رخصت اور رحمت کا دروازہ ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی رخصتوں سے استفادہ کیا جائے۔ جس طرح وہ یہ بات ناپسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کا کوئی کام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ان تقصروا من الصلوۃ) ” نماز میں سے کچھ کم کردو “ اور یہ نہیں فرمایا (ان تقصروا الصلوۃ) ” نماز کو کم کردو ‘ اس میں دو فائدے ہیں۔ اول :۔ اگر یہ کہا ہوتا کہ ” نماز کو کم کردو “ تو قصر غیر متضبط اور غیر محدود ہوتی اور بسا اوقات یہ بھی سمجھا جاسکتا تھا کہ اگر نماز کا بڑا حصہ کم کردیا جائے اور صرف ایک رکعت پڑھ لی جائے، تو کافی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے (من الصلوۃ) کا لفظ استعمال فرمایا، تاکہ وہ اس امر پر دلالت کرے کہ قصر محدود اور منضبط ہے اور اس بارے میں اصل مرجع وہ نماز قصر ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کے فعل سے ثابت ہے۔ (ثانی): حرف جار (من) تبعیض کا فائدہ دیتا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ صرف بعض فرض نمازوں میں قصر ہے تمام نمازوں میں جائز نہیں۔ کیونکہ فجر اور مغرب کی نماز میں قصر نہیں۔ صرف ان نمازوں میں قصر کر کے دو رکعت پڑھی جاتی ہیں جن میں چار رکعتیں فرض کی گئی ہیں۔ جب یہ بات متحقق ہوگئی کہ سفر میں نماز قصر ایک رخصت ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ مفسرین میں اس قید کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں وارد ہوئی ہے۔ (ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا) ” اگر تم اس بات سے ڈرو کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے “ جس کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ نماز قصر اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ یہ دو امور ایک ساتھ موجود نہ ہوں سفر اور خوف۔ ان کے اختلاف کا حاصل یہ ہے کہ (ان تقصروا) سے مراد صرف عدد رکات میں کمی ہے ؟ یا عدد رکعات اور صفت نماز دونوں میں کمی ہے ؟ اشکال صرف پہلی صورت میں ہے اور یہ اشکال امیر المومنین جناب عمر بن خطاب کو لاحق ہوا تھا۔ حتی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ” یا رسول اللہ ! ہم نماز میں قصر کیوں کرتے ہیں حالانکہ ہم مامون ہوتے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا : (ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا) ” اگر تمہیں کافروں کا خوف ہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے “ رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا :” یہ اللہ تعالیٰ کی طر سے تم پر صدقہ ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے صدقہ کو قبول کرو۔ “ (1) او کما قال علیہ السلام) اس صورت میں یہ قید ان غالب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عائد کی گئی تھی جن سے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام دوچار تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے اکثر سفر جہاد کے لئے ہوتے تھے۔ اس میں دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قیصر کی رخصت کی مشروعیت میں حکمت اور مصلحت بیان کی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں وہ انتہائی مشقت بیان کی گئی ہے، جس کا قصر کی رخصت کے بارے میں تصور کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے سفر اور خوف کا اجتماع اور اس سے یہ بات لازم نہیں کہ اکیلے سفر میں قصر نہ کی جائے جو کہ مشقت کا باعث -1 صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا، حدیث :1083 ہے۔ رہی قصر کی دوسری صورت یعنی عدد رکعات اور نماز کی صفت میں قصر تو یہ قید اپنے اپنے باپ کے مطابق ہوگی۔ یعنی انسان کو اگر سفر اور خوف دونوں کا سامنا ہو تو عدد اور صفت دونوں میں قصر کی رخصت ہے۔ اگر وہ بلا خوف کسی سفر پر ہے تو صرف عدد رکعات میں قصر ہے اور اگر صرف دشمن کا خوف لاحق ہے تو صرف وصف نماز میں قصر ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ میں نماز خوف کی صفت بیان فرمائی ہے۔ (واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ) ” اور (اے پیغمبر ! ) جب آپ ان (مجاہدین کے لشکر میں ہوں) اور ان کو نماز پڑھانے لگو۔ “ یعنی جب آپ ان کے ساتھ نماز پڑھیں اور اس کے ان واجبات کو پورا کریں جن کا پورا کرنا آپ پر اور آپ کے اصحاب پر لازم ہے۔ پھر اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی تفسیر بیان فرمائی : (فلتقم طآئفۃ منھم معک) ” تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ نماز کے لئے کھڑا ہو “ اور دوسری جماعت دشمن کے مقابلے میں کھڑی ہو جیسا کہ آیت کا ٹکڑا (فاذا سجدوا) ” جب وہ سجدہ کرچکیں۔ “ اس پر دلالت کرتا ہے، یعنی وہ لوگ جو آپ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہیں اپنی نماز مکمل کرلیں۔ یہاں نماز کو سجدے سے تعبیر کیا ہے تاکہ سجدے کی فضیلت ظاہر ہو، نیز یہ کہ سجدہ نماز کا رکن بلکہ سب سے بڑا رکن ہے۔ (فلیکونوا من ورآئکم ولتات طآئفۃ اخری لم یصلوا) ” تو یہ تمہارے پیچھے آجائیں اور وہ دوسری جماعت آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی، اور یہ وہ گروہ ہے جو دشمن کے مقابلے میں کھڑا تھا۔ (فلیصلوا معک) ” اب یہ گروہ آپ کے ساتھ نماز پڑھے۔ “ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے گروہ کے نماز سے چلے جانے کے بعد امام نماز میں باقی رہے اور دوسرے گروہ کا اتنظار کرے جب دوسرا گروہ آجائے تو ان کے ساتھ اپنی باقی نماز پڑھے پھر بیٹھ جائے اور ان کا اتنظار کرے جب وہ اپنی نماز مکمل کرلیں تو ان کے ساتھ سلام پھیرے۔ یہ نماز خوف ادا کرنے کے متعدد طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے نماز خوف کے متعدد طریقے مروی ہیں۔ ان تمام طریقوں سے نماز پڑھنا جائز ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ نماز با جماعت دو وجوہ سے فرض عین ہے۔ اول :۔ اللہ تعالیٰ نے خوف کی اس شدید حالت میں یعنی دشمن کے حملہ کے خوف کی حالت میں بھی جماعت کے ساتھ نماز کا حکم دیا ہے۔ جب اس شدید حالت میں بھی جماعت کو واجب قرار دیا ہے تو امن و اطمینان کی حالت میں اس کا واجب ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ثانی : نماز خوف ادا کرنے والے نماز کی بہت سی شرئاط اور لوازم کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس نماز میں نماز کو باطل کرنے والے بہت سے افعال کو نظر انداز کر کے ان کو معاف کردیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ صرف جماعت کے وجوب کی تاکید کی بنا پر ہے، کیونکہ فرض اور مستحب میں کوئی تعارض نہیں۔ اگر جماعت کے ساتھ نماز کا پڑھنا فرض نہ ہوتا، تو اس کی خاطر نماز کی ان واجبات کو ترک کرنے کی کبھی اجازت نہ دی جاتی۔ آیت کریمہ یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ افضل یہ ہے کہ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھی جائے۔ اگر ایسا کرنا کسی خلل کا باعث ہو تو متعدد دائمہ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کے اجتماع و اتفاق اور ان کے عدم افتراق کی خاطر ہے، تاکہ یہ اتفاق ان کے دشمنوں کے دلوں میں رعب اور ہیبت ڈال دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز خوف کے اندر مسلح اور ہوشیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ نماز خوف میں اگرچہ کچھ زائد حرکات ہوتی ہیں اور نماز کے بعض احوال چھوٹ جاتے ہیں تاہم اس میں ایک راجح مصلحت ہے اور وہ ہے نماز اور جہاد کا اجتماع اور ان دشمنوں سے ہوشیار رہنا جو مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان کے مال و متاع لوٹنے کے سخت حریص ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ود الذین کفروالو تغفلون عن اسلحتکم وامتعتکم فیمیلون علیکم میلۃ واحدۃ) ” کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے بیخبر ہوجاؤ تو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں “ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے عذر کو قبول فرمایا جو کسی مرض یا بارش کی وجہ سے اپنا اسلحہ اتار دیتا ہے مگر بایں ہمہ وہ دشمن سے چوکنا ہے۔ (ولا جناح علیکم ان کان بکم اذی من مطر او کنتم مرضی ان تضعوآ اسلحتکم وخذوا حذرکم ان اللہ عد للکفرین عذاباً مھیناً ” ہاں ! اپنے ہتھیار اتار رکھنے میں اس وقت تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تمہیں تکلیف ہو بوج ہبارش کے یا تم بیمار ہو اور بچاؤ کی چیزیں ساتھ رکھو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ اور اس کا رسوا کن عذاب یہ ہے کہ اس نے اہل ایمان اور اپنے دین کے موحدین انصار کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کو جہاں کہیں پائیں ان کو پکڑیں اور ان کو قتل کریں، ان کے ساتھ جنگ کریں، ان کا محاصرہ کریں، ہر جگہ ان کے لئے گھات لگائیں اور ہرحال میں ان سے چوکنا رہیں۔ ان کی طرف سے کبھی غافل نہ ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ کفار اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حم دو ثنا ہے کہ اسنے اہل ایمان پر احسان فرمایا اور اس نے اپنی مدد اور تعلیم کے ذریعے ان کی تائید فرمائی اگر وہ اس تعلیم پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہوں تو ان کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہوسکتا اور کسی زمانے میں بھی دشمن ان پر غالب نہیں آسکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد : فاذا سجدوا فلیکونوا من ورآئکم) ” جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہوجائیں۔ “ دلالت کرتا ہے کہ اس گروہ نے دشمن کے مقابلے میں جانے سے پہلے اپنی نماز مکمل کرلی تھی، اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ سلام پھیرنے سے پہلے دوسرے گروہ کے منتظر تھے، کیونکہ پہلے ذکر فرمایا کہ وہ گروہ نماز میں آپ ﷺ کے ساتھ کھڑا ہو۔ پس آپ ﷺ سے ان کی مصاجت کی خبر دی۔ پھر رسول ﷺ کو چھوڑ کر فعل کو ان کی طرف مضاف کیا یہ چیز ہمارے اس موقف پر دلالت کرتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (ولتات طآئفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک) ” پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے “ اس امر پر دلیل ہے کہ پہلا گروہ نماز پڑھ چکا تھا۔ اور دوسرے گروہ کی تمام نماز امام کی معیت میں پڑھی گئی۔ ان کی پہلی رکعت حقیقی طور پر امام کے ساتھ تھی اور دوسری حکمی طور پر۔ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ امام ان کا انتظار کرے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز مکمل کرلیں پھر ان کیساتھ سلام پھیرے۔ یہ چیز غور کرنے والے پر صاف واضح ہے۔
Top