یہ سوال اس کی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے کہ اس کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھو۔ وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے!
اس آگ کو ’حطمۃ‘ یعنی چُور چُور کر دینے والی کی صفت سے تعبیر کرنے کی حکمت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بخیل سرمایہ دار اپنی دولت اس زمانے میں سونے چاندی کی اینٹوں، زیورات، ظروف اور جواہرات وغیرہ کی شکل میں محفوظ کرتے تھے۔ اس طرح کی دولت کو برباد کرنے کے لیے چُور چُور کر دینے کی تعبیر زیادہ موزوں ہے یعنی یہ ساری دولت جلا کر اور چُور چُور کر کے پراگندہ کر دی جائے گی کہ جو لوگ اس کو حیات جاوداں کی ضامن سمجھے بیٹھے تھے وہ اس کا حشر دیکھیں۔