Tafseer-al-Kitaab - An-Nahl : 103
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ١ؕ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ
وَ : اور لَقَدْ نَعْلَمُ : ہم خوب جانتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُعَلِّمُهٗ : اس کو سکھاتا ہے بَشَرٌ : ایک آدمی لِسَانُ : زبان الَّذِيْ : وہ جو کہ يُلْحِدُوْنَ : کجراہی (نسبت) کرتے ہیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَعْجَمِيٌّ : عجمی وَّھٰذَا : اور یہ لِسَانٌ : زبان عَرَبِيٌّ : عربی مُّبِيْنٌ : واضح
اور (اے پیغمبر، ) ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ (تمہارے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ) کہتے ہیں کہ اس شخص کو (قرآن) تو ایک آدمی سکھلا جاتا ہے، (حالانکہ) جس آدمی کی طرف اسے منسوب کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ قرآن فصیح عربی زبان (میں) ہے
[65] یہاں کسی خاص شخص کا نام مذکور نہیں صرف اس کے عجمی ہونے کی تصریح ہے، مفسرین نے یہاں ایک سے زیادہ ناموں کا ذکر کیا ہے قرآن کو اس کے نام سے بحث نہیں صرف اعتراض سے بحث ہے اور اسی کا جواب اس نے دیا ہے مطلب یہ ہے کہ کفار مکہ سے قرآن کے معانی اور حقائق تک تو پہنچنے کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی لیکن ان کو اپنی زبان دانی پر بڑا ناز ہے تو کم از کم اس کی زبان کی بےمثال فصاحت پر ہی غور کرتے تو ان پر اپنے اعتراض کی لغویت واضح ہوجاتی کہ عجمی تو درکنار خود ان کے کسی شاعر یا خطیب کے بس میں بھی یہ نہیں کہ اس طرح کا کلام پیش کرسکے۔ یہاں تک کہ خود پیغمبر کے اپنے کلام اور قرآن کے کلام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
Top