Tafheem-ul-Quran - An-Nahl : 103
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ١ؕ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ
وَ : اور لَقَدْ نَعْلَمُ : ہم خوب جانتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُعَلِّمُهٗ : اس کو سکھاتا ہے بَشَرٌ : ایک آدمی لِسَانُ : زبان الَّذِيْ : وہ جو کہ يُلْحِدُوْنَ : کجراہی (نسبت) کرتے ہیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَعْجَمِيٌّ : عجمی وَّھٰذَا : اور یہ لِسَانٌ : زبان عَرَبِيٌّ : عربی مُّبِيْنٌ : واضح
ہمیں معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اِس شخص کو ایک آدمی سِکھاتا پڑھاتا ہے۔107 حالانکہ اُن کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اُس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے
سورة النَّحْل 107 روایات میں مختلف اشخاص کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ کفار مکہ ان میں سے کسی پر یہ گمان کرتے تھے۔ ایک روایت میں اس کا نام جبر بیان کیا گیا ہے جو عامر بن الحضرمی کا ایک رومی غلام تھا۔ دوسری روایت میں حُوَیطِب بن عبد العُزّیٰ کے ایک غلام کا نام لیا گیا ہے جسے عائش یا یعیش کہتے تھے۔ ایک اور روایت میں یسار کا نام لیا گیا ہے جس کی کنیت ابو فکَیہَہ تھی اور جو مکہ کی ایک عورت کا یہودی غلام تھا۔ ایک اور روایت بلعان یا بلعام نامی ایک رومی غلام سے متعلق ہے۔ بہرحال ان میں سے جو بھی ہو، کفار مکہ نے محض یہ دیکھ کر کہ ایک شخص تورات و انجیل پڑھتا ہے اور محمد ﷺ کی اس سے ملاقات ہے، بےتکلف یہ الزام گھڑ دیا کہ اس قرآن کو دراصل وہ تصنیف کر رہا ہے اور محمد ﷺ اسے اپنی طرف سے خدا کا نام لے لے کر پیش کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے مخالفین آپ کے خلاف افترا پردازیاں کرنے میں کس قدر بےباک تھے، بلکہ یہ سبق بھی ملتا ہے کہ لوگ اپنے ہم عصروں کی قدر و قیمت پہچاننے میں کتنے بےانصاف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے سامنے تاریخ انسانی کی ایک ایسی عظیم شخصیت تھی جس کی نظیر نہ اس وقت دنیا بھر میں کہیں موجود تھی اور نہ آج تک پائی گئی ہے۔ مگر ان عقل کے اندھوں کو اس کے مقابلہ میں ایک عجمی غلام، جو کچھ تورات و انجیل پڑھ لیتا تھا، قابل تر نظر آرہا تھا اور وہ گمان کر رہے تھے کہ یہ گوہر نایاب اس کوئلے سے چمک حاصل کر رہا ہے۔
Top