Tadabbur-e-Quran - Maryam : 20
قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَكُ بَغِیًّا
قَالَتْ : وہ بولی اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ : ہوگا لِيْ : میرے غُلٰمٌ : لڑکا وَّ : جبکہ لَمْ يَمْسَسْنِيْ : مجھے چھوا نہیں بَشَرٌ : کسی بشر نے وَّ : اور لَمْ اَكُ : میں نہیں ہوں بَغِيًّا : بدکار
وہ بولی میرے لڑکا کیسے ہوگا، نہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ لگایا اور نہ میں کوئی چھنال ہوں
قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا۔ " بغی " بدکار اور چھنال عورت کو کہتے ہیں۔ حضرت مریم فرشتہ کی اس بات کو سن کر ہک دھک رہ گئیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے لڑکا کس طرح پیدا ہوگا، مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور میں کوئی بدکار اور چھنال بھی نہیں ہوں۔ لوقا کی بےسروپا روایتِ نکاح : حضرت مریم کے اس ارشاد سے یہ بات بالکل صاف واضح ہے کہ لوقا میں یہ روایت کہ یوسف نامی کسی شخص سے ان کا نکاح ہوا تھا، بالکل بےسروپا روایت ہے۔ اگر ان کا نکاح ہوا ہوتا تو یہ خبر ان کے لیے ایک نہایت مبارک خوش خبری ہوتی اور وہ مذکورہ الفاظ میں اس پر تشویش اور حیرت کا اظہار کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتیں۔ ہمارے نزدیک لوقا کی یہ روایت یہود کی در اندازی کو لود فساد ہے اس لیے کہ وہ حضرت عیسیٰ کی خارق عادت ولادت کے سخت مخالف ہیں۔ ہمارے ہاں جن لوگوں نے اس روایت کو بےسوچے سمجھے نقل کرلیا ہے انہوں نے نادانستہ یہود ہی کی مقصد برآری کی ہے۔ حضرت مریم کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اپنی منت کے مطابق ہیکل کی خدمت کے لیے وقف تھیں اس وجہ سے ان کے نکاح اور بیاہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہیکل کے خدام گھر گرہستی کے تمام علائق سے یک قلم آزاد ہوتے تھے۔ لیکن تھوڑی دیر کے لیے ایک امر واقعی کو نظر انداز کردیجیے اور اس سوال پر غور کیجیے کہ اگر حضرت مریم کسی کے عقد نکاح میں تھیں تو ان الفاظ کا کیا موقع و محل تھا جو الفاظ انہوں نے فرمائے ؟ یہ الفاظ تو کسی کنواری عفیفہ ہی کی زبان سے موزوں ہوسکتے ہیں، کسی شادی شدہ عورت کی زبان سے تو یہ موزوں نہیں ہوسکتے، علاوہ ازیں حضرت مریم کے خاندان والوں نے جن الفاظ میں ان کو ملامت کی ہے اور جو آگے آ رہے ہیں وہ بھی اس صورت میں بالکل بےمحل ہو کے رہ جاتے ہیں۔
Top